نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی وسیع وعریض کی جیل میں تبدیل کرنے کے باوجود مودی سرکار کے خوف کا یہ عالم ہے کہ 91سالہ سید علی گیلانی کی موت نے اسے بوکھلا دیا۔بدھ کی رات اس کے فوجیوں نے سرینگر کے حیدر پورہ میں واقع ان کے مکان پر دھاوا بول دیا۔مرحوم کے اہل خانہ کو دیوار سے لگانے کے بعد علی گیلانی صاحب کا جسد خاکی وہاں سے اٹھالیا گیا۔ان دنوںصحافتی روزگار کے لئے انقرہ میں مقیم افتخار گیلانی سے رابطے کے لئے میں مسلسل فون کے بٹن دباتا رہا۔ وہ گیلانی صاحب کی نہایت لاڈلی بیٹی کے شوہر ہیں اور میرے چھوٹے بھائیوں کی مانند۔ افتخار کو پاکستانی وقت کے مطابق جمعرات کا سورج طلوع ہونے کے بعد بھی معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ انہیں کہاں دفنایا گیا ہے۔لاش اور قبر چھپانے کی ایسی مذموم حرکت ہمارے خطے کے ہر مذہب کی روایات کے پس منظر میں محض احمقانہ بربریت ہی شمار ہوسکتی ہے۔لاکھوں انسانوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے وحشیانہ انداز میں اپنا غلام بنانے کے جنون میں مبتلا سرکار کی رعونت مگر اس کے مضمرات کو سمجھ نہیں پائے گی۔
منصوبہ اگر یہ تھا کہ آخری دم تک قابل رشک عزم واستقلال کے ساتھ اپنے مؤقف پر ڈٹے علی گیلانی صاحب کے جنازے میں ان کے بے تحاشہ مداحین شریک نہ ہوئے تو وہ ہر صورت ناکام ہوگیا ہے۔ہمارے ہاں غائبانہ نماز جنازہ کی روایت بھی موجود ہے۔ اب وادیٔ کشمیر کے ہر شہر اور گائوں کے میدانوں اور مساجد میں یہ نماز ادا کی جائے گی۔جہاں فانی سے رخصت ہوجانے کے بعد علی گیلانی بلکہ قابض افواج کے خلاف نفرت کی آگ مزید بھڑکائیں گے۔ 5اگست 2019کے دن سے مقبوضہ کشمیر پر خاموشی کی جو چادر مسلط کی گئی ہے وہ تار تار ہوجائے گی۔
موت سے مفر ممکن نہیں۔علی گیلانی صاحب ویسے بھی طویل عرصے سے شدید علیل تھے۔اپنی زندگی کے بیشتر برس جیل میں گزارنے کی وجہ سے انہیں دل اور گردوں کے عارضے لاحق ہوئے۔ مستقل بیماری نے مگر ایک لمحہ کو بھی انہیں ہمت وجرأت سے محروم نہیں کیا۔تیر سے نکلے کمان کی طرح کھڑے ہوکر قابض حکمرانوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘کی صدا بلند کرتے رہے۔ پاکستان سے رشتے کو وہ اپنے ایمان کا بنیادی حصہ شمار کرتے تھے۔
میں گیلانی صاحب کے ساتھ اپنے ذاتی رشتے کی وجہ سے ان کی سیاست کا معروضی انداز میں جائزہ نہیں لے سکتا۔ افتخار ہمارے دیرینہ اور گہرے تعلق کی کلید ہے۔ ہر حوالے سے ذات کے اس رپورٹر کو بھی بھارت کے عقوبت خانوں میں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔افتخار کی تفتیش پر مامور اہلکار اس سے میرے تعلق کی تفصیلات ووجوہات بھی معلوم کرتے رہے۔ انہیں شبہ تھا کہ شاید میں دہلی صحافتی فریضہ نبھانے نہیں بلکہ علی گیلانی صاحب کو تخریبی پیغامات پہنچانے جاتا ہوں۔ان کا شبہ قطعی بے بنیاد اور بودا تھا۔
دلی میں میرے قیام کے دوران گیلانی صاحب اس شہر میں موجود ہوتے تو ان کی بیٹی کو میرے لئے کشمیری کھانوں کا اہتمام کرناہوتا۔ گیلانی صاحب کا انٹرویو کرنے کی مجھے ضرورت نہیں تھی۔میرے لئے وہ مشہور حریت پسند رہ نما نہیں بلکہ شفیق ترین بزرگ تھے۔مستقل فکر مند کہ میں اپنے وطن اور گھر سے دور دلی میں اپنے دن کیسے گزارتا ہوں۔لاہور سے میرے آبائی تعلق نے ہمارے رشتے کو جذباتی گہرائی بھی فراہم کی تھی۔
قیام پاکستان سے چند برس قبل علی گیلانی صاحب علم کے حصول کے لئے لاہور تشریف لائے تھے۔انہوں نے اس شہر کے دلی دروازہ سے چند قدم آگے شاہ محمد غوث کے مزار سے متصل اس سکول میں داخلہ لیا جہاں عربی اور فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی۔ کشمیر کے دیہات سے آئے طالب علم کے پاس کئی مہینوں تک شب بسری کا ٹھکانہ بھی موجود نہیں تھا۔وہ مسجد وزیر خان کی پناہ میں رہے۔لاہور میں قیام کے دوران وہ اقبال کے عاشق بھی ہوگئے۔
ان کے انتقال کی خبر سنتے ہی مجھے ان سے آخری ملاقات یاد آگئی۔میں دلی سے پاکستان لوٹ رہا تھا۔انہیں خبر تھی کہ شاید اب میں اس شہر تواتر سے نہیں آیا کروں گا۔مجھے خدا حافظ کہنے وہ دل کے عارضے کے باوجود سڑھیوں سے اتر کر سڑک پر الوداعی مصافحہ کرنے آئے۔زندگی کے مشکل ترین لمحات میں بھی اپنے جذبات پر قابو پانے کے عادی گیلانی صاحب کا لہجہ اداس تھا۔ان کی آنکھوں میں نمی بھی تھی۔ ان کی فرمائش تھی کہ میں لاہور جائوں تو اقبال کے مزار پر حاضر ہوکر ان کا سلام پہنچائوں۔ وہ یہ کہتے ہوئے مزید دکھی ہوگئے ’’مجھے شاید یہ سعادت کبھی نصیب نہیں ہوپائے گی‘‘۔ ان کے خدشات درست ثابت ہوئے۔جنرل مشرف کے اقتدار کے دوران بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے کی کوشش ہوئی تھی۔اسے تیز تر بنانے کے لئے کئی حریت پسند رہ نمائوں کے ساتھ بھارت نواز تصور ہوتی کشمیری قیادت کو بھی پاکستان کے دورے کی اجازت ملی۔سید علی گیلانی واحد رہ نما تھے جنہیں بھارتی حکومت نے پاسپورٹ دینے سے بھی انکار کردیا۔وہ اقبال کے مزار پر حاضر نہ ہوسکے۔
علی گیلانی صاحب کو پاکستان کے کئی طاقت ور حلقے اور دانشور بھی ’’انتہا پسند‘‘ تصور کرتے تھے۔ان کو انتہا پسند ٹھہراتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی جاتی ہے کہ علی گیلانی صاحب ایک نہیں تین بار مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ وہ بنیادی طورپر ایک صحافی بھی تھے۔ ریاستی اسمبلی کا رکن ہوتے ہوئے وہ گفت وشنید کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈتے رہے۔ 1989میں لیکن یہ جان لیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کو ہر صورت ہڑپ کرنے کو بضد ہے۔ مذاکرات کا محض ڈھونگ رچاتا ہے۔روایتی سیاست کشمیر کے عوام کو حق رائے دہی نہیں دلواسکتی۔ وہ اس سیاست سے کنارہ کش ہوگئے۔روایتی سیاست سے کنارہ کش ہوجانے کے باوجود وہ مگر کسی گوریلا رہ نما کی طرح پہاڑوں میں غائب نہیں ہوگئے تھے۔ برسرعام اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے۔ ہتھیار اٹھانے کو مجبور ہوئے نوجوانوں کے لئے ان کی جرأت، استقامت اور ثابت قدمی مشعل راہ تھی۔ذاتی طورپر وہ مگر کسی گوریلا تحریک میں متحرک نہیں تھے۔ان کی مزاحمت بنیادی طورپر فکری اور نظریاتی تھی۔بھارتی ریاست مگر اسے بھی برداشت نہیں کر پائی۔ان کی زندگی کو مسلسل اجیرن بنائے رکھا۔
علی گیلانی صاحب کے برعکس حریت پسند رہ نمائوں کی اکثریت نے مقبوضہ کشمیر کے شہری متوسط طبقے کو متحرک رکھنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ہڑتال ان کے احتجاج اور مزاحمت کا کلیدی ہتھیار رہی ہے۔کئی دہائیوں سے سیاسی جدوجہد میں مصروف رہے کشمیری عوام کی بے پناہ اکثریت مگر 1990کا آغاز ہوتے ہی اس نتیجے پر پہنچی کہ پر امن جدوجہد کشمیر کو اقوام متحدہ کے وعدے کے مطابق ہوئے استصواب کے ذریعے پاکستان کا حصہ نہیں بناسکتی۔ وہ ہتھیار اٹھانے کو مجبور ہوئے۔گیلانی صاحب ان کے جذبات سے جبلی طورپر آگاہ تھے۔ اسلحہ بردار مزاحمت کی مذمت یا اس سے فاصلہ رکھنے کو آمادہ نہ ہوئے اور یوں انتہا پسند ٹھہرادئیے گئے۔بنیادی طورپر ادب اور شاعری کے عاشق متشدد مزاحمت کی ستائش کو کیوں مجبور ہوئے۔اس سوال کا جواب ڈھونڈنا انہیں انتہا پسندپکارنے والوں پر واجب ہے۔
مودی سرکار نے 5اگست 2019کے بعد جو اقدامات لئے انہوں نے گیلانی صاحب کے دیرینہ مؤقف کو برحق ثابت کیا ہے۔ماضی کی ریاستِ جموںوکشمیر کو اب لداخ سے کاٹ کر دہلی کی براہ راست غلام ہوئی Union Territoryبنادیا گیاہے۔ پوری کاوش ہورہی ہے کہ وادیٔ کشمیر میں غیر کشمیری بسا کر وہاں کی مسلم اکثریت کو ختم کردیا جائے۔گیلانی صاحب یہ دکھ لئے دنیا سے رخصت ہوئے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ کے سنگین ترین مرحلے کے دوران پاکستان اپنا کردار کماحقہ انداز میں ادا نہ کر پایا۔ میں عام پاکستانی ہوتے ہوئے ان کی روح سے معافی کا طلب گار ہوں۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر