اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھگت سنگھ کا نظریاتی ورثہ||عامر حسینی

عامر حسینی پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع خانیوال سے تعلق ہے، ، وہ مختلف موضوعات پرملتان سمیت ملک بھر میں شائع ہونے والے قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بھگت سنگھ کے بہت سارے معاصرین اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اپنی تحریروں میں تصدیق کی ہے کہ بھگت سنگھ خود اپنی کوشش سے ایک نظریاتی اور عملی انقلابی بنا تھا- اس کی سوچ میں واضح بدلاؤ اور سمت کا تعین اس کی زندگی کے اخری چار پانچ سالوں میں آیا تھا- ان کے معاصرین اور دوستوں نے اپنی یاد داشتوں اور ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جو تحریریں لکھیں، ہم ان میں ان سرگرمیوں اور ان کی فکر میں آنے والے بدلاؤ کی جھلکیاں دیکھ سکتے ہیں- راجا رام شاشستری نے اپنی کتاب ‘امر شہیدوں کی یادیں’ میں بھگت سنگھ کے دلچسپی کے مرکز مطالعے اور کتاب بینی کی عادت بارے بتایا ہے۔ کیسے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے ‘ویر سوارکر’ کی کتاب ”آزادی کی پہلی جنگ’ شایع کی- یش پال نے اپنی ہندی بھاشا میں لکھی گئی کتاب، ‘پیھچے مڑ کر دیکھنا'(تین جلدیں) اور ‘پھانسی کے پھندے تک’ (دو جلدیں) بھگت سنگھ کے اس دور کے خاکے اور احوال زندگی کھینچے ہیں جب وہ نیشنل کالج کا طالب علم تھا اور بطور صحافی کام کر رہا تھا- یش پال نے بہت سی کتابوں کے نام ذکر کیے ہیں جنھمیں یہ انقلابی پڑھ رہے تھے۔ جس وقت آگرہ میں بم سازی کے ایک کارخانے پر چھاپہ پڑا تو اس وقت بھی یہ انقلابی کئی ایک کرانتی اور آزادی پرمبنی کتابیں پڑھ رہے تھے جن کا ذکر یش پال نے کیا ہے۔ بھگت سنگھ نے جو چند مسودے اور کتابیں لکھیں تھیں ان کا ذکر شو ورما نے ذکر کیا- وہ کتابیں ایک عشرے تک ‘کنیا مہا ودیالہ جالندھر’ ( گرلز کالج جالندھر) اور کئی اور جگہوں میں پڑے رہے – 1942ء کی سیاسی تحریکوں کے غیر یقینی حالات کے دوران وہ یا تو گم ہوگئے یا پھر ضائع ہوگئے۔ ان ضایع ہوجانے والے والے مسودات اور کتابوں کے حوالے یا نمونے عدالتوں کے مقدمات ملتے ہیں یا پھر اس دوران لکھے پیغامات کا جو تبادلہ ہوا ان کے بے کچھے تراشوں میں ان کا سراغ ملتا ہے اور کہیں کہیں ہمیں بھگت سنگھ کے ساتھیوں اور ان کے معاصرین کی لکھی یادوں اور باقیات میں ملتے ہیں۔
شاید ہم بھگت سنگھ جب دو مرتبہ پولیس حراست اور قید میں تھا ان مواقع کا زکر کرسکتے ہیں:
پہلی بار بھگت سنگھ مئی 1927ء میں لاہور میں کرفتار ہوئے ۔ جیسا کہ اس نے بعد ازاں اس بارے اپنے مضمون ‘میں ناستک کیوں ہوں؟’ بتایا کہ کیسے ایک باغ کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے پولیس نے گھیر لیا تھا اور پوچھ تاچھ کے لیے اسے اپنی تحویل میں لے لیا تھا- بھگت سنگھ نے ‘ودروہی’ (باغی) کے قلمی نام سے ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان تھا: ‘کاکوری کے ویروں کی پہچان’ – اس مضمون کے شایع ہونے پر اس کے خلاف پولیس وارنٹ تھے۔ کاکوری کے ویر سے مراد ہندوستان ریپبلکن پارٹی کے وہ اراکین تھے جنھوں نے کاکوری ٹرین لوٹ لی تھی اور ان پر بعد ازآن جو مقدمہ چلا اس کا نام ‘کاکوری سازش کیس1925’ پڑ گیا تھا- اس کے مرکزی کرداروں میں کامریڈ رام پرساد بسمل، کامریڈ اشفاق اللہ خان، کامریڈ راجندر لہری اور کامریڈ چندر شیکھر آزاد و دیگر تھے۔ کامریڈ بھگت سنگھ کو پولیس نے ایک ماہ تک حراست میں رکھا اور اس سے کاکوری سازش کیس میں ملوث ملزمان سے تعلق بارے سوالات ہوتے رہے۔ اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا- اسے اعتراف جرم کرکے وعدہ معاف گواہ بننے پر انعام کی پیشکش بھی کی جاتی رہی۔ اس دوران پولیس نے اس پر 1926ء میں ‘دسہرہ’ کے تیوہار کے موقعہ پر لاہور میں منعقدہ میلے میں بم دھماکہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا جس میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں تھیں اور تین افراد زخمی ہوئے تھے۔ لیکن اس کے خلاف کچھ بھی ٹھوس ثبوت موجود نہ تھا تو اسے 60 ہزار روپے کی ضمانت کے عوض اور آجھے چال چلن کی بنا پر رہا کیا گیا- یہ تو بعد میں بات کھلی کہ وہ بم دھماکہ سی آئی ڈی کے ایک کارندے کی کارستانی تھی جس کا مقصد انقلابیوں کو بدنام کرنا اور فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کرنا تھا- جیسا کہ بعد ازاں بھگت سنگھ نے اس پر اپنی یوں رائے دی:
یہ بالکل غلط الزام تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے جیسے لوگ معصوم لوگوں پر بم نہیں مارتے’۔
اس نے اپنے مضمون ‘میں ناستک کیوں ہوں’ میں ان دنوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ کیسے پولیس اہلکار اسے زبردستی ‘اعتراف جرم’ کرنے کی کوشش کرتے رہے، یا ان کی تجویز یہ تھی کہ اسے مشکل کی اس گھڑی میں دعاؤں کا سہارا لینا چاہیے۔ بھگت سنگھ نے لکھا کہ وہ نہ تو اپنا یقین بھگوان پر بنا سکا اور نہ ہی جان بچانے کے لیے پرارتھنا کا سہارا کرنے پر خود کو آمادہ کر پایا-
بہت بعد میں بھگت سنگھ نے لکھا کہ ‘کاکوری سازش کیس’ وہ معاملہ تھا جس نے ایک رومانوی انقلابی سے سماج وادی(سوشلسٹ) انقلابی بنانے میں اہم کردار ادا کیا- اس کے بعد ہی اس نے انقلابی تحریکوں کی تاریخ کا سنجیدہ مطالعہ شروع کیا اور سماج واد و مارکس واد لٹریچر پڑھنا شروع کیا- اس نے کہا تھا کہ:
"اس طرح کے مطالعے ہی تبدیلی کی حقیقی قوتوں کو سمجھنے میں مددگار ہوسکتے ہیں – پڑھو تاکہ آپ اپنے مخالفین کے دلائل اور سوالوں کا جواب دے سکو”
ہم کہہ سکتے ہیں کہ ‘کاکوری’ کا واقعہ جب ہوا تو وہی بھگت سنگھ کی آگاہی کے سفر میں نئے موڑ کے آنے کا سبب بنا اور یہ نیا موڑ سماج واد نظریہ و عمل سے اسے بتدریج واقفیت دلانے والا تھا-
( یہ شذرہ کامریڈ چمن لال کی کتاب ‘ دا بھگت سنگھ ریڈر’ ص 405-408 کا خلاصہ ہے ۔ جو ہارپر کولنز نے شایع کی تھی- میرے پاس اس کا پہلا ایڈیشن ہے جو 2019ء میں انڈیا سے چھپا تھا)

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

%d bloggers like this: