اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے۔۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسر الزام ہی آئے
امانت علی خان کی گائی ہوئی یہ غزل ہماری قومی یادداشت کا حصہ ہے۔ اپنے لڑکپن میں جب مجھے پتا چلا کہ یہ شعر ایک شاعرہ کا ہے تو یقین نہیں آیا۔ اور جب ان شاعرہ کی آپ بیتی پڑھی تو ایک بار پھر وہی بے یقینی طاری ہوئی۔ اس قدر بھرپور، خوشحال اور مطمئن زندگی گزارنے والی خاتون ایسا شعر کیسے کہہ سکتی ہیں؟
ادا جعفری ان کا نام ہے۔ آپ جانتے ہی ہوں گے۔ بابا نے کبھی ان کی غزل سن کر ادا بدایونی کہا تھا۔ میں کافی عرصہ دونوں ناموں کو الگ الگ خواتین سمجھتا رہا۔ وہ شادی سے پہلے ادا بدایونی ہی تھیں۔ نور الحسن جعفری سے شادی کے بعد ادا جعفری ہوگئیں۔ نور صاحب بڑے بیوروکریٹ تھے۔ نہ ہوتے تو ادا جعفری کی آپ بیتی اس سے بہت مختلف ہوتی، جیسی ہمیں پڑھنے کو ملی۔
جو رہی سو بے خبری رہی اس آپ بیتی کا نام ہے۔ انتظار حسین یا عصمت چغتائی کی آپ بیتیوں میں ان کا خاص اسلوب، الفاظ کا الگ طرح کا برتاو جھلکتا ہے۔ ادا جعفری کی آپ بیتی بالکل سادہ الفاظ میں ہے۔ آپ کو کہیں لغت نہیں دیکھنا پڑتی۔ لیکن یہ احساس بھی ہر صفحے پر ہوتا ہے کہ وہ محض قافیہ پیما قسم کی خاتون نہیں، عالمی ادب سے گہری واقفیت رکھنے والی شاعرہ تھیں۔ جگہ جگہ انھوں نے مغربی شعرا اور ادیبوں کا ذکر کیا ہے۔ لیکن قاری پر رعب جمانے کے لیے نہیں، نہ منصوبہ بندی کے تحت۔ بس برسبیل تذکرہ۔
یہ آپ بیتی میں نے برسوں پہلے پڑھی تھی۔ حال میں دوبارہ ورق گردانی کی تو کئی ابواب اپنے اپنے سے لگے۔ نور صاحب کسی کورس کے لیے 1968 میں امریکا آئے تھے۔ ادا جعفری ساتھ تھیں اور وہ کچھ عرصہ واشنگٹن میں رہیں۔ ابتدا ہی میں کانگریس لائبریری کا ذکر کیا، جہاں انھوں نے اپنی کتاب بھی پائی۔ میں نے بھی دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے کے پہلے وزٹ پر خود کو ڈھونڈا تھا۔ ادا جعفری نے بتایا کہ انھوں نے ڈی سی سے تیس میل دور امریکا کے پہلے صدر جارج واشنگٹن کی قیام گاہ دیکھی۔ میرا گھر وہاں سے چند میل دور ہے۔ انھوں نے جن جن مقامات کا ذکر کیا ہے، میں ادھر ہی گھومتا پھرتا رہتا ہوں۔
ایک دلچسپ واقعہ ادا جعفری نے لکھا کہ انھوں نے خواتین سمیت چند مہمانوں کو سینما جانے کے لیے مدعو کیا اور ایک ایسی فلم منتخب کی جس پر کئی سال پابندی رہی تھی۔ وہ سمجھیں کہ پابندی سیاسی وجوہ سے رہی ہوگی۔ لیکن وہ اڈلٹ مووی نکلی۔ اس پر وہ شرمندہ ہوئیں اور ان کا مذاق بھی اڑایا گیا۔ میری بے چین طبیعت نے فلم کا نام جاننا چاہا لیکن وہ ادا جعفری نے نہیں لکھا۔ یہاں امریکا میں کئی فلموں پر پابندی رہی ہے لیکن وہ کسی ایک یا چند شہروں میں ہوتی ہے۔ ملک گیر پابندی شاید کبھی نہیں لگی۔ میں نے ایسی فلموں کی فہرست دیکھی لیکن کوئی نام سمجھ نہیں آیا۔
شاید آپ نے سنا ہو کہ اسلام آباد میں بیوروکریٹ ادیبوں نے ایک ادبی تنظیم سلسلہ قائم کی تھی جس میں بس وہی شریک ہوتے تھے۔ ان میں قدرت اللہ شہاب، مختار مسعود وغیرہ شامل تھے۔ اس کا پہلا اجلاس ادا جعفری کے گھر ہوا اور شہاب نامہ کے کئی باب ان کے ہاں پڑھے گئے۔ وہ احوال بھی مزے کا ہے۔ لیکن بار بار تشنگی کا احساس ہوتا ہے کیونکہ ادا جعفری بہت سے مقامات سے تیزی سے گزر گئی ہیں۔ وہ شاعرہ تھیں، فکشن نہیں لکھتی تھیں اس لیے نہ قصے لمبے کیے اور نہ افسانوی انداز اختیار کیا۔
جو رہی سو بے خبری رہی ہماری حوری نورانی نے اپنے ادارے دانیال سے 1995 میں چھاپی تھی۔ اب بھائی زاہد کاظمی نے اس کا انگریزی ترجمہ اپنے سنگی پبلشنگ ہاوس سے شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ ادا جعفری کے بیٹے عامر جعفری نے کیا ہے۔ اس کام میں ادا جعفری کی پوتی اور عامر جعفری کی بیٹی اسرا جعفری نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے۔
عامر صاحب نے نہایت صفائی سے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے یہ ترجمہ اپنی اگلی نسل کے لیے کیا ہے جو اردو سے دور ہوتی جارہی ہے۔ یہ صرف ان کا نہیں، اور بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے اور کسی حد تک میں بھی ان میں شامل ہوں۔ میرے بچے اردو بول اور پڑھ لیتے ہیں لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ اب لکھ بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
اے ورلڈ آف ہر اون کے نام سے ترجمہ کی گئی اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اسی قدر ریڈایبل ہے، جیسی اردو والی آپ بیتی۔ امریکیوں یا انگریزوں کا کری ایٹو نان فکشن ہم پاکستانیوں کے لیے بوجھل ہوتا ہے۔ اس کتاب میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ ادا جعفری نے جگہ جگہ شاعری درج کی ہے۔ عامر صاحب نے اس شاعری کو اردو اور رومن میں لکھا اور انگریزی میں ترجمہ بھی کردیا۔ اس طرح یہ ان کے لیے بھی قابل فہم ہوگئی جن کی مادری زبان انگریزی ہے۔
ایک اور کام انگریزی ترجمے کی کتاب میں ایسا کیا گیا ہے جو اردو میں نہیں۔ یعنی ادا جعفری اور ان کے خاندان کی تصویریں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تحریروں کے عکس بھی ہیں۔
اگر آپ کراچی بک فئیر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس کتاب کو ضرور تلاش کریں۔ ورنہ بھائی زاہد کاظمی کو یہیں فیس بک پر ان بکس میسج کریں تاکہ کتاب آپ کے گھر پہنچ جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: