مارچ 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی نے بلوچ سیاسی وسماجی کارکن ذوالفقار علی ذلفی بلوچ سے گفتگو کی ہے جو نذر قارئین ہے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تکفیری دہشت گرد پشتون، بلوچ اور ہزارہ کی مشترکہ دشمن ہے – ذوالفقار علی ذلفی بلوچ

انٹرویو: عامر حسینی

 

ھزارہ؛ پشتون کی طرح افغان ملت کا حصہ ہے ـ افغان ملت بلوچ کا تاریخی ہمسایہ ہے ـ بلوچ کے آڑے وقتوں میں ہمیشہ کام آیا ہے ـ میں سمجھتا ہوں پہلی ذمہ داری پشتون کی ہے جو اکثریت میں ہے وہ ہزارہ کو اون کرے اس کے بعد بلوچ ایک ہمسائے کی حیثیت سے اس کے ساتھ کھڑا ہوجائے ـ تینوں مل کر اس تکفیریت کا راستہ روکنے کی سیاسی و سماجی کوشش کریں ـ ورنہ یہ آگ کسی کی نہیں ہے ـ آج شیعہ، کل ہندو، پرسوں ذکری

تین جنوری 2021 بروز اتوار علی الصبح کوئٹہ سے جنوب مشرق میں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر ضلع بولان کی تحصیل مچھ کے کوئلے کی کانوں کے علاقے گشتری میں تکفیری دہشت گردوں کے ایک گروہ نے  ہزارہ قبائل سے تعلق رکھنے والے کان کن مزدوروں کے رہائشی کوارٹروں پر دھاوا بولا اور 11 ہزارہ مزدوروں  کے ہاتھ پشت پر باندھنے کے بعد خنجر سے ان کے گلے کاٹ کر قتل کردیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری دولت اسلامیہ العراق والشام – داعش بلوچستان شاخ نے ذمہ داری قبول کرلی۔ اس واقعے کے فوری بعد سوشل میڈیا پر ایک بار پھر بحث چھڑ گئی ہے اور "ہزارہ سوال” ایک بار پھر شدت سے زیر بحث آرہا ہے۔ اس حوالے  میں نے مناسب سمجھا اس بارے میں تاریخی تناظر میں سینئر بلوچ اور ہزارہ سیاسی کارکنوں سے بات چیت کی جائے۔ اس سلسلے میں،میں نے سب سےپہلے بلوچوں میں "ماما بلوچ” کے نام سے معروف ذوالفقار علی زلفی سے رابطہ کیا اور ان سے انفارمل طریقے سے بات چیت کی جسے میں کسی قطع و برید بغیر اپنے پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش کررہا ہوں:

 

 

 

 

 

آپ لیاری میں کہاں پیدا ہوئے تھے؟ کب؟ آپ کے والد پی پی پی سے پہلے کس جماعت میں تھے؟ انہوں نے کون سا مشہور گیت پارٹی کے لیے لکھا تھا؟ ان کا نام کیا تھا؟

 

 

میں لیاری کے علاقے کلاکوٹ میں پیدا ہوا ـ میرے والد بھٹو سائیں کے زمانے میں طالب علم تھے ـ ان کے بقول بھٹو نے جب ایوب مخالف تحریک چلائی تو میں ان سے متاثر ہوا اور پی پی کا حصہ بن گیا ـ انہوں نے یوں تو متعدد گیت لکھے البتہ "مئے پریں مات گوش اَنت: بھٹو ــــ مئے گھار گوش انت: بھٹو” زیادہ مشہور ہوا ـــــ میرے والد بلوچی زبان کے شاعر و افسانہ نگار ہیں ـ ترجمہ بھی کرتے ہیں ـ اصغر علی نام ہے جبکہ "آزگ” تخلص کرتے ہیں ـ

 

میرے دادا کامریڈ جمعہ بلوچ جوانی میں (قیامِ پاکستان سے پہلے) "بلوچ لیگ” کا حصہ تھے جو لیفٹ اسٹ پارٹی تھی ـ اس کے صدر خدا بخش گبول تھے ـ جب پی پی بنی تو وہ بھی پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے ـ

میرے تایا اکبر علی بلوچ بھی پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں ـ بھٹو دور میں انہیں کے پی ٹی فٹ بال ٹیم میں جگہ ملی ـ پھر ایک سینیئر عہدے دار کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ـ

 

میرے ایک اور چچا (والد سے بڑے) اشرف بلوچ کو بھی بھٹو دور میں ایف آئی اے میں نوکری ملی ـ انسپکٹر کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے ـ

 

تو ایسا ہے کہ میرا بچپن ـ لڑکپن پی پی کے ساتھ ہی گزرا ہے

میری دادی والد کی ساتیلی ماں تو لڑاکو جیالی تھی ـ بچپن کا تھوڑا تھوڑا یاد ہے وہ ضیا دور میں ڈنڈا لے کر پولیس سے لڑتی تھی ـ بے نظیر کی شادی میں وہ مجھے گود میں اٹھا کر ککری گراؤنڈ لے گئی تھی ـ تھوڑا تھوڑا یاد ہے وہ گانا بجانا، ناچ، نعرے ـ

 

 

آج مچھ واقعے پر آپ نے پوسٹ لگائی ہے، اس کا خلاصہ بتائیں گے

 

میں نے مچ واقعے پر نہیں لگائی بلکہ قاضی ریحان کے موقف سے اختلاف کیا ہے

 

 

بلوچ قوم کا ہزارہ بارے سیاسی موقف کیا رہا ہے؟ کیا ہزارہ قبائل جہاں آج آباد ہیں وہ نیشنل عوامی پارٹی کا ووٹ بینک تھے کبھی یا حمایت تھی وہاں؟

 

قاضی ریحان کا موقف ہے ہزارہ بلوچ سماج کا حصہ ہیں ـ میرے نزدیک ھزارہ ایک جدا قوم ہے جس کی اپنی ثقافت اور زبان ہے جو ایک علیحدہ سماج تشکیل دیتے ہیں ـ

 

ھزارہ بلوچ تضاد تو خوف ناک رہا ہے ـ شاید اب بھی ہے لیکن نسل کشی پر مبنی سانحات کے باعث فی الحال تضاد کی شدت کم ہوگئی ہے

افغانستان میں تو ہزارہ واقعی الگ قوم ہیں لیکن بلوچستان میں وہ کیسے الگ قوم ہوسکتے ہیں ،یہاں تو وہ ایک ایتھنک کمیونٹی ہیں بلوچ قوم کی اکثریت کے علاقوں میں اور اس اعتبار سے وہ بلوچ قوم کا حصّہ ہوئے جیسے سرائيکی قوم کا مجھ جیسے اردو اسپیکنگ اور دیگر پنجابی اسپیکنگ حصّہ ہیں سرائیکی اکثریت علاقوں میں

 

 

بلوچ – ہزارہ تضاد کیا ہے؟

 

ہزارہ کی بلوچستان میں ہجرت سے بات شروع کرنی پڑے گی

دو ہجرتیں ہوئی ہیں

کیا کراچی کے اردو اسپیکنگ سندھی سماج کا حصہ ہیں ـ

 

 

کراچی سمیت اردو بولنے والے جتنے بھی ہیں وہ سندھی قوم کا حصّہ ہیں اور اس بات کو اردو اسپیکنگ کمیونسٹ ترقی پسند قبول کرتے رہے ہاں مہاجروں کا دایاں بازو شاؤنسٹ اس سے انکاری رہا

 

ایک انیسویں صدی میں ـ برطانوی راج کے دوران ـ دوسری سوویت یونین کے بکھرنے سے لے کر 2001 تک ـ

دونوں مہاجرین کے ساتھ تضاد کی نوعیت اور شدت مختلف رہی ہے

مجھے یہ پوچھنا ہس برطانوی راج میں جو ہجرت ہوئی کیا اس کے پیچھے برطانوی سامراج کا کوئی کالونیل ڈیزائن تھا اینٹی بلوچ؟ کیا یہ بلوچ کو مارجنلائز کرنے کے لیے تھی؟ کس سن میں برطانوی راج میں پہلی بڑی ہجرت ہوئی؟

 

سب سے بڑی ہجرت غالباً 1910 سے شروع ہوئی

دو قسم کے ہزارہ آئے

ایک وہ جو کنٹونمنٹ اور ریلوے ٹریک کے منصوبوں کے لیے مزدوری کرنے آئے ـ

دوسرے وہ جو انگریز فوج میں بھرتی ہونے آئے ـ انہیں "ہزارہ پانیئرز” کے نام سے رجمنٹ دی گئی

سرحدی بلوچوں کے خلاف جنرل ڈائر کی کارروائی میں ہزارہ سپاہیوں نے ہی حصہ لیا

یہی ہزارہ سپاہی پاکستان بننے کے بعد پاکستان آرمی کا حصہ بن گئے

 

کیا برطانوی فوج میں آج کے بندوبست بلوچستان پاکستان کے بلوچ بھی بھرتی تھے؟

 

جیسے جنرل موسی ہزارہ

 

کیا برطانوی فوج میں آج کے بندوبست بلوچستان پاکستان کے بلوچ بھی بھرتی تھے…

 

تھے لیکن بہت ہی کم ـ خیر بخش مری اول کی مزاحمت کے باعث بلوچ تعداد کم رہی ـ زیادہ بھرتی ڈیرہ غازی خان سے ہوئی

 

مطلب تھے ضرور چاہے تھوڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں

 

بالکل تھے ـ کراچی کے بلوچ بھی بھرتی ہوئے

 

مکران اور جھالاوان سے نہیں ہوئے

اب میرا اگلا سوال یہ ہے کہ جس وقت نیشنل عوامی پارٹی بنی غالبا 1958ء میں تو ہزارہ کمیونٹی کا رویہ نیپ کے متعلق کیا تھا؟ کیا نیپ میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگ شامل ہوئے؟

 

البتہ ہزارہ بڑی تعداد میں بھرتی ہوئے

 

اب میرا اگلا سوال یہ ہے کہ جس وقت نیشنل عوامی پارٹی بنی غالبا 1958ء میں

 

جی بالکل ـ ہزارہ بزرگوں کی نواب بگٹی سے اچھے تعلقات تھے ـ نیپ کے دور میں مری آباد میں نیپ کی اچھی خاصی حمایت پائی جاتی تھی ـ

 

میں نے کئی ایک تصاویر دیکھی ہیں جس میں میر غوث بزنجواور سردار عطاء اللہ مینگل ، گل خان نصیر علمدار روڈ پر سیاسی کمپئن کرتے دکھائی دیے

 

 

درست ہے ـ یہ وہ دور تھا جب ہزارہ بلوچستان کے معاشرے کو اپنا چکے تھے اور اس کا حصہ بن گئے تھے ـ انہوں نے کوئٹہ کی ترقی میں شاید بلوچوں سے بھی زیادہ حصہ لیا

 

میں خود بھی مری آباد میں ایسے درجنوں پرانے سیاسی کارکنوں سے ملا جو نیپ کے کارکن رہے تھے

 

 

سوویت یونین کے بکھرنے پھر طالبان کے آنے کے بعد جو ہجرت ہوئی اس نے فضا خراب کردی

1997 میں پہلی دفعہ خوفناک فسادات ہوئے جب مچ میں کرفیو نافذ کی گئی

کیا ہزارہ کمیونٹی پر 80ء کی دہائی میں پرانے افغان مجاہدین نے حملے کیے ؟ افغان مہاجرین جو 80ء میں آئے؟

یا یہ طالبان کے ابھار کے وقت شروع ہوئے؟

 

کیا ہزارہ کمیونٹی پر 80ء کی دہائی میں پرانے افغان مجاہدین نے حملے کیے ؟ …

نہیں 80 میں ایسا کچھ نہیں ہوا ـ نوے کی دہائی میں بلوچ ہزارہ تضاد میں اضافہ ہوا

 

مری آباد دراصل بلوچ علاقہ ہوا کرتا تھا ـ حبیب جالب کا گھر بھی وہاں تھا ـ

90ء کی دہائی میں کونسے سال؟ اس وقت مرکز میں کون تھا؟ اور صوبے میں کون تھا؟

 

آپ کو یاد ہوگا کوئٹہ میں ھزارہ پولیس کیڈٹس پر حملہ ہوا ـ

اس حملے کے بعد ھزارہ نے مری آباد کے بلوچوں پر حملہ کردیا ـ ایک بہت بڑی بلوچ آبادی ہجرت پر مجبور ہوگئی ـ حبیب جالب بھی اپنا آبائی گھر چھوڑ گئے ـ

 

یہ ایک تجزیہ طلب سوال ہے البتہ 97 کو مچھ میں تصادم ہوا ـ تین دن کرفیو نافذ رہی ـ یہ ھزارہ تازہ تازہ افغانستان سے آئے تھے ، کان کنی کے لیے اور بدمعاشی کرتے تھے ـ انہوں نے اپنی کالونیاں بنا رکھی تھیں ـ

کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پولیس ہزارہ کیڈٹس پہ حملے کا فائدہ مشرف رجیم نے یوں اٹھایا کہ اس نے ہزارہ میں اپنے ایجنٹوں سے کہا کہ وہ مری آباد میں بلوچوں کے گھروں پہ حملہ کردیں

 

 

عین ممکن ہے ـ کیڈٹس پر حملے کے ردعمل میں نواب خیر بخش مری کے خلاف مظاہرے ہوئے ـ بی ایل اے کے خلاف نعرے بازی ہوئی ـ

 

پھر عاشورہ کا حملہ ہوا ـ ہزارہ نے بلوچوں کی دوکانیں جلادیں ـ

بعد میں رفتہ رفتہ ہزارہ کو احساس ہوا کہ ہم پر حملے بلوچوں کی جانب سے نہیں ہورہے ـ اس کے بعد انہوں نے اپنا رخ بدل دیا ـ

 

درست ، کیا یہ حقیقت ہے کہ اسلام آباد مرکز شروع دن سے بلوچستان میں اقوام اور قبائل کے درمیان تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کی پالیسی پر عمل کررہا ہے اور جنرل ضیاء الحق کے بعد سے اس میں مذہبی بنیاد پر تقسیم کا عنصر بھی شامل ہوگیا

 

کم از کم ہزارہ کے معاملے میں تو یہ بات یقین کے ساتھ کی جاسکتی ہے ـ ہزارہ کو یقین دلایا گیا تھا کہ حملے بلوچ قوم پرست کررہے ہیں ـ نتیجے میں ہزارہ نے بلوچ کے خلاف محاذ کھڑا کردیا ـ

حالانکہ نیپ کی حکومت سے پہلے ہزارہ کا ڈومیسائل نہیں بنتا تھا وہ مہاجر کہلاتے تھے ـ نیپ نے ان کو لوکل قرار دیا ـ خضدار ـ نوشکی اور دالبندین تک سے ان کے ڈومیسائل بنتے تھے ـ

نوے کی دہائی میں کم لیکن مشرف دور میں ہزارہ نوشکی ـ خضدار اور دالبندین سے ہجرت کرکے کوئٹہ آگئے ـ

 

پھر کوئٹہ میں بھی وہ صرف دو علاقوں مری آباد اور ہزارہ ٹاؤن تک محدود ہوگئے

آج بھی محددود ہیں

 

ھزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کا رویہ آج بھی تقسیم پیدا کرنے والا ہے

البتہ نوجوان ھزارہ کم از کم اب سمجھ گیا ہے کہ تکفیری دہشت گردی کو کون بڑھاوا دے رہا ہے

یہاں افغان مہاجر پشتون بلڈر مافیا کا بھی ایک اہم کردار ہے

کوئٹہ شہر میں ھزارہ کی تمام زمینیں افغان مہاجرین نے اونے پونے داموں خرید لی ہیں

 

وہ شہر جہاں کبھی ہزارہ ایک اہم کردار ہوتا تھا اب وہاں صرف اور صرف پشتون اجارہ ہے

 

بلوچ کل بھی شہر کے حاشیے پر تھا آج بھی ہے ـ پشتون حصہ بڑھ گیا

دلچسپ بات یہ ہے ہزارہ پر بیشتر حملے بلوچ علاقوں میں ہوئے جبکہ بلوچ قوم پرست سیکولر ہے ـ

مجھے لگتا ہے یہ جان بوجھ کر کیا گیا ـ بلوچ علاقوں کو تکفیریت کا اڈہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ـ

 

مجھے لگتا ہے یہ جان بوجھ کر کیا گیا ـ بلوچ علاقوں کو تکفیریت کا اڈہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ـ

 

 

آپ بلوچ ، ہزارہ اور پشتون عام آدمی کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

 

 

ھزارہ؛ پشتون کی طرح افغان ملت کا حصہ ہے ـ افغان ملت بلوچ کا تاریخی ہمسایہ ہے ـ بلوچ کے آڑے وقتوں میں ہمیشہ کام آیا ہے ـ میں سمجھتا ہوں پہلی ذمہ داری پشتون کی ہے جو اکثریت میں ہے وہ ہزارہ کو اون کرے اس کے بعد بلوچ ایک ہمسائے کی حیثیت سے اس کے ساتھ کھڑا ہوجائے ـ تینوں مل کر اس تکفیریت کا راستہ روکنے کی سیاسی و سماجی کوشش کریں ـ ورنہ یہ آگ کسی کی نہیں ہے ـ آج شیعہ، کل ہندو، پرسوں ذکری

 

 

سپاہ صحابہ / لشکر جھنگوی جس کی بلوچستان میں سربراہی ایک مینگل قبیلے کا شخص کررہا ہے جو نواب خیر بخش مری کے جنازے پر بھی جنازہ بڑھانے کی کوشش کرتا مگر ناکام ہوتا ہے تو اس بارے کیا کہیں گے؟

 

یہ مشرف دور میں سامنے آئے ـ ان کو جھلاوان میں بلوچ نیشنلزم کا راستہ روکنے کی ڈیوٹی دی گئی ـ انہوں نے اتنے ہزارہ قتل نہیں کیے ہوں گے جتنے بلوچ قوم پرست سیاسی کارکن قتل کیے ـ پھر سراج رئیسانی جیسے سردار زادوں نے بھی ان کی مدد کی ـ بدقسمتی سے ہمارا براھوئی بیلٹ بالخصوص مستونگ تکفیریت سے خاصا متاثر ہوگیا ـ خیر بخش مری کا جنازہ پڑھانے کی کوشش بھی اسی کا حصہ ہے تاکہ ان کے لیفٹ اسٹ تشخص کو مجروح کیا جاسکے ـ

 

 

 

خیر بخش مری کے حوالے سے ہزارہ میں غلط فہمی پائی جاتی تھی ـ رمضان مینگل کے ذریعے اس غلط فہمی کو بڑھانے کی کوشـش کی گئی ـ اگر رمضان مینگل جنازہ پڑھا دیتا تو ہزارہ کے اس شک کو تقویت ملتی کہ تکفیریوں کو خیر بخش مری اور ان کے ساتھیوں کی حمایت حاصل ہے ـ آفرین ہے خواتین کو جنہوں نے اس سازش کو ناکام بنا دیا

 

یہ بھی پڑھیے:

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

%d bloggers like this: