نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لامتناہی سوالات کے جواب نہ مل پانے کی وجہ سے ذہن گھبرا جائے تو عقل پر اعتبار اٹھ جاتا ہے۔غالباََ اسی باعث کمیونزم کے بانی کارل مارکس نےسازشی کہانیاں گھڑنے سے مجھے نفرت ہے۔ ایک بات مگر دن بدن عیاں ہی نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت کا روپ دھار رہی ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ہاں کا آئین ’’تحریری‘‘ ہونے کے باوجود’’مبہم‘‘ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے۔یہ تاثر اقبال کی بیان کردہ ’’مرگ مفاجات‘ ‘ کا جواز بھی بن سکتا ہے۔
اپریل 2022ء سے بارہا ہماری حکمران اشرافیہ اعلیٰ عدالتوں سے آئین کی مختلف دفعات کی ’’تشریح‘‘ کے لئے رجوع کرنے کو مجبورہوجاتی ہے۔ کہانی عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے شروع ہوئی تھی۔ ہمارے ’’تحریری آئین‘‘ کا سادہ ترین الفاظ میں تقاضہ ہے کہ جب کسی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد باقاعدہ انداز میں پیش ہوجائے تو قومی اسمبلی کے لئے اس پر سات دنوں کے اندر گنتی کروانا لازمی ہے۔ عمران خان کے لگائے ڈپٹی سپیکر نے مگر مذکورہ تحریک عدم اعتماد کو قومی سلامتی کے منافی قرار دیتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ موصوف کے رویے پر مچی ہاہا کار نے سپریم کورٹ کو رات گئے اپنا اجلاس بلوانے کا جواز فراہم کردیا۔
اساطیری کہانیوں میں سنائے کئی واقعات کی طرح تحریک عدم اعتماد پر گنتی کو مجبور کرنے والے فیصلے نے جو مناظر دکھائے ان کے بارے میں فیصلہ ہی نہ کر پایا کہ ہنسوں یا رؤں۔ مذکورہ فیصلہ کرنے والوں میں چند عزت مآب جج عاشقان عمران کے محبوب ہوا کرتے تھے۔انہوں نے نواز شریف کو منتخب اداروں کے لئے نااہل کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔شریف خاندان کو احتساب کے نام پر رگڑا لگاتی کارروائیوں کو بھی وہ درست اور واجب ٹھہراتے رہے۔اس کے باوجود عدالت کے ’’رات گئے‘‘ کھلنے کے عمل نے عاشقان عمران کو چراغ پا بنادیا۔ ان محترم ججوں کی تصاویر کے ساتھ غیر ملکوں میں مقیم تحریک انصاف نے جو زبان ورویہ اختیار کیا اس کے ذکر سے گریز ہی کو ترجیح دوں گا۔
بہرحال وفاق میں عمران حکومت فارغ ہوگئی تو آبادی کے اعتبار سے ہمارا سب سے بڑا صوبہ یعنی پنجاب کئی مہینوں تک ’’آئینی بحران‘‘ کی زد میں رہا۔ بزدار کی جگہ حمزہ شہباز شریف آئے تو ان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والے تحریک انصاف کے منحرف اراکین ’’لوٹے‘‘ ٹھہراکر پنجاب اسمبلی کی رکنیت سے محروم کر دیئیگئے۔ خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہوئے تو تحریک انصاف کے ووٹ بینک کی اہمیت کا احساس ہوا۔ وہ مستحکم سے مستحکم تر ہوتا رہا جس کا بھرپور اظہار ہمیں 8فروری 2024ء کے انتخاب کے دوران دیکھنے کو ملا۔
’’تحریری آئین‘‘ کے باوجود مگر تحریک انصاف فروری 2024ء کے انتخاب میں اپنے سے مختص نشان-بلا- کے ساتھ حصہ نہ لے پائی۔ اس کی جانب سے نامزد کردہ امیدوار انتخابی میدان میں ’’آزاد‘‘ حیثیت میں اترے۔ سیاسی مبصرین کی اکثریت اس گماں میں مبتلا ر ہی کہ ہمارے ’’جاہل‘‘ عوام کی اکثریت بلے کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ طے نہیں کر پائے گی کہ ’’قیدی نمبر804‘‘ نے ان کے حلقے میں کس امیدوار کو نامزد کیا ہے۔ موبائل فون کی بدولت مگر عاشقان عمران نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی شناخت آسان بنادی۔ 90سے زائد افراد قومی اسمبلی پہنچ گئے۔ وہاں پہنچنے کے باوجود وہ ’’تحریک انصاف‘‘ تسلیم نہیں کئے جارہے۔ سنی اتحاد کونسل میں ’’ضم‘‘ ہوچکے ہیں۔ ’’تحریری‘‘ آئین میں نظر بظاہر ایسی کوئی شق موجود نہیں جو وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں عمران خان سے وفاداری کے طفیل پہنچے افراد کو ’’تحریک انصاف‘‘ والی پہچان لوٹاسکے۔
’’تحریری آئین‘‘ کی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے محدودات اور پیچیدگیاں وسیع تر تناظر میں شاید نظرانداز کی جاسکتی ہیں۔ ’’آزاد عدلیہ‘‘ مگر ’’مہذب‘‘ کہلاتے معاشرے کا اہم ستون تصور ہوتی ہے۔ مارچ 2024ء کے آخری ہفتے کا آغاز ہوتے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6عزت مآب ججوں نے چیف جسٹس کو ایک مشترکہ چٹھی لکھی۔ اس کے ذریعے الزام لگایا کہ خفیہ ایجنسیاں ان سے مرضی کے فیصلے لینے کیلئے دبائو بڑھارہی ہیں۔ اس تناظر میں چند واقعات کا ذکر بھی ہوا۔
گزشتہ منگل کے روز مذکورہ خط کے منظر عام پر آتے ہی مجھ دو ٹکے کے رپورٹر نے جان کی امان پاتے ہوئے اس کالم کے ذریعے درخواست کی کہ چیف جسٹس صاحب ’’ازخود نوٹس‘‘ والے اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام آباد کے 6ججوں کی جانب سے لگائے الزامات کا جائزہ لیں۔ ہم عامیوں کی فریاد مگر اشرافیہ کے کانوں تک پہنچی نہیں۔ ازخود نوٹس لینے کے بجائے چیف جسٹس صاحب نے فل کورٹ کا اجلاس بلوایا۔ وہاں جو گفتگو ہوئی رعایا اس سے بے خبررہی۔ فل کورٹ اجلاس کے دوران وزیر اعظم بھی اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کے ہمراہ کچھ عرصے کے لئے وہاں موجود رہے۔ ہم عامیوں کو یہ خبر بھی نہیں کہ وزیر اعظم کو فل کورٹ نے طلب کیا تھا یا انہوں نے ازخود وضاحتیں دینے کے لئے فل کورٹ کے اجلاس میں حاضری کی درخواست کی تھی۔تفصیلات سے اجتناب برتتے ہوئے فقط اتنا یاد کرلیتے ہیں کہ وزیر ا عظم کی فل کورٹ کے روبرو حاضری کے بعد ایک کمیشن کے قیام کا اعلان ہوا۔ گزرے ہفتے کی شام یہ پیغام بھی مل گیا کہ ملتان کے ایک باوقارخاندان کے فرزند اور بااصول مشہور ہوئے جج تصدق حسین جیلانی اس کمیشن کی سربراہی کو رضا رمند ہوگئے ہیں جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کی جانب سے لگائے الزامات کا جائزہ لے گا۔
میں بارہا فریاد کرتا رہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں نے اپنی فریاد براہ راست چیف جسٹس صاحب تک پہنچائی ہے۔صرف ان کی جانب سے ہوئی پیش قدمی ہی اب معاملہ سلجھا پائے گی۔ آئین وقانون سے نابلد مگر سیاسی مسائل سے آشنا ذہن میں جو بات آئی تھی وہ 300سے زائد وکلا نے چیف جسٹس صاحب کو لکھے ایک خط میں ٹھوس دلائل کے اضافے کے ساتھ بیان کردی ہے۔ جیلانی صاحب کے فرزند نے بھی اس خط پر دستخط کردئے اور اتوار کی شام حکومت کے تجویز کردہ کمیشن کے ’’اختیارات‘‘ کے بغور مطالعہ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہوئے یہ عزت مآب جج اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ کمیشن جس کی سربر اہی قبول کرنے کا وہ عندیہ دے چکے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کی جانب سے اٹھائے مسائل کا مداوا فراہم نہیں کرسکتا۔ مجوزہ کمیشن کی سربراہی سے لہٰذا معذرت کا اظہار کردیا۔
آپ جیسے بے پناہ لوگوں کی طرح میں بھی اشرافیہ کے فیصلوں پر سوال اٹھانے کے حق سے محروم ہوں۔ دو ٹکے کا رپورٹر آپ کو یہ ’’خبر‘‘ بھی فراہم نہیں کرسکتا کہ بالآخر چیف جسٹس صاحب نے پیر کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6ججوں کے لکھے خط کا ’’ازخود اختیارات‘‘ کے تحت بنائے بنچ کے ذریعے جائزہ لینے کا فیصلہ ’’اچانک‘‘ کیا یاوہ تصدق جیلانی صاحب کی جانب سے مجوزہ کمیشن کی سربراہی سے معذرت کے ا ظہار کے بعد اس امر کو مجبور ہوئے۔بہرحال جو بھی ہوا وہ ایک اور ڈرامائی سلسلہ کے آغاز کا باعث ہوگا۔ بدھ کے دن سے ہم دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیتے نظر آئیں گے کہ ’’تحریری‘‘ اور ’’متفقہ طورپر‘‘ 1973ء میں منظور ہوئے آئین کے باوجود ہماری ریاست کے تینوں ستون اپنی حدود طے نہیں کر پائے ہیں۔ ریاستی اداروں میں اختیارات وحدود کی تقسیم واضح نہ ہو تو معاشروں کا مقدر کامل انتشار ہی ہوا کرتا ہے۔اس کے سوا کچھ نہیں۔بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر