اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کابل کا بچہ!۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہیہ ”بچہ سقہ‘‘ کی کہانی نہیں ‘ ایک ملاقات کا قصہ ہے ۔ تقریباً ایک صدی پہلے انہی برسوں میں امیر امان اللہ خان کے خلاف طالبان جیسے نظریات رکھنے والے ملائوں نے شورش برپا کررکھی تھی جس کی تمازت بڑھتے بڑھتے چند سالوں میں کابل کے ایوانِ اقتدار تک پہنچ گئی۔ملائوں کی بغاوت امان اللہ خان کے جدیدیت کے تصورات اور پروگراموں کے خلاف تھی ۔ ان میں بچیوں کے لیے سکول سرفہرست تھے ۔ آج ایک سو سال بعد بھی ملائوں نے بچیوں کے سکول بند کر رکھے ہیں ۔افغانستان کے مُلاحضرات ایسی انوکھی جماعت ہیں جن کے مذہبی تصورات دوسروں سے یکسر مختلف ہیں ۔ ساری مسلم دنیا میں فقط افغانستان کے یہ حضرات ہیں جو بچیوں کی تعلیم صرف پرائمری سکول تک محدود کیے ہوئے ہیں ۔
کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ جہاں ایسے رویے غالب ہوں ‘ پھر معاشرے کا ایسا ہی حال ہوتا ہے جہاں پڑھے لکھے ‘ روشن خیال مردو زن کارہنا دشوار ہوجاتاہے ۔ا فغانستان میں جدت پسندی اور ملائیت کے دو دھارے ہمیشہ موجود رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کے اتنے مخالف کہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ اور برداشت صرف کسی طاقتور حکمران کے دور میں ہی ممکن ہوسکے ۔ گزشتہ ایک صدی میں صرف چالیس سال ایسے آئے جب مصاحبان اورظاہر شاہ نے استحکام پیدا کیا اور افغانستان کی ریاست ‘ معاشرے اور معاشی ترقی کی معقول رفتار دیکھنے میں آئی۔ بادشاہت کے خاتمے میں بھی جدت پسندی اور ملائیت کے درمیان بنیادی تضادات کا عمل دخل تھا۔ اُس وقت افغانستان میں ملائیت کے ساتھ جدید تعلیمی اداروں میں اسلامی انقلاب کی فکر رکھنے والے لوگ اور اشراکیت پسند تین مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو کر لڑنے مرنے میں مصروف تھے ۔ اشتراکی انقلاب ‘ روس کی طرف سے فوجی مداخلت اور پھر مجاہدین کی مزاحمت کی وجہ سے ہمارے ہاں چالیس سال قبل لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین آئے تھے ۔
ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے مہاجرین ‘ مجاہدین اوردینی مدارس کے ساتھ جامعات سے اسلامی نظام کے حامی طلبا اور اساتذہ کو افغانستان کی جنگ میں شامل دیکھا ۔ اورپھر دیگر اسلامی ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں روس کے خلاف مزاحمتی جنگ لڑنے نوجوان سرحد پار کرتے۔ حاکم ِوقت بھی وہ تھے جو ریاست پاکستان کو فرنٹ لائن بنانے پر تلے ہوئے تھے ۔ وقت کے ساتھ آتے جاتے لشکروں نے سرحدی قبائلی علاقے کا سماجی ‘ سیاسی اور نظریاتی ڈھانچہ ہی تبدیل کردیا ۔ اس کے نتائج ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔ روس کے چلے جانے کے بعد بھی ہم نے وہی تماشا دیکھا جو صدیوں سے افغانستان میں ہوتا چلا آرہا تھا۔ اب وہاں ”اشتراکی دہریے ‘‘ تو نہیں تھے ‘ تو پھر جنگ ختم نہ ہونے کا جواز سوائے اقتدار کے حصول کے کچھ اور نہ تھا ۔ سب اسلام ‘ اخوت اورافغان قومیت کی بات کرتے تھے ‘ مگر ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے ۔ مجاہدین کے مختلف دھڑوں کے درمیان خوفناک جنگ‘ مجاہدین اورطالبان کی خونی چپقلش اور پھر لسانی بنیادوں پر طالبان اور شمالی اتحاد کے گروہوں کے درمیان خانہ جنگی ۔ اس صورت حال میں عرب ممالک کے لشکری بھی اسلحے اور سرمائے سمیت اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے جوہر دکھانے طالبان کے ساتھ آن ملے ۔ بات لمبی ہوجائے گی‘ مقصد صرف پناہ گاہ کی تلاش تھی جو وہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ ان کے عزائم اس سے بھی کہیں آگے تھے ۔ اس کے بعد گیارہ ستمبر کے حملے ہوگئے ۔ باقی تاریخ ہے ۔ ہماری نظر ان وقتوں کی طرف اٹھتی ہے تو خیال دل میں ابھرتا ہے کہ آخر وہ فرنٹ لائن ریاست تب کہاں تھی جب پناہ گاہیں کثیر ملکی عسکریت پسندی کے استعمال میں تھیں اور علاقائی ممالک میں دہشت گردی کے منصوبے بنائے جارہے تھے ؟ ہم مان لیتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو کچھ پتہ نہیں تھا ۔خود سوچیں اگر خبر ہوتی تو پھر ایسے خطرناک لوگ ہماری سرحدوں کو عبور کر کے کیسے آگے نکل جاتے اور ان کی آمد و رفت کو ہم کیوں نہ ختم کر لیتے۔ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ حکمرانوں کے سامنے اور بہت سے ضروری کام ہوں گے ۔ جو افغانستان کے لوگوں پر بیتی وہ بھی ہم بھول گئے‘ اور جس طرح ہمارا معاشرہ تباہ ہوا اس کی بھی فکر نہیں ۔ ہم افغانستان میں دوستی کے نام پر تابعدار حکومت کے قیام کے خواہاں تھے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک میں بڑی آسانی سے تابعداروں کی دستیابی کا جو تجربہ رہا ہے اس کے پیش نظر ان کا خیال تھا کہ افغانی بھی انہی کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔ خیر وہ تو نہ ہو سکا مگر پھر امریکہ اور اس کی اتحادی بڑے لشکر لے کر طالبان کو سبق سکھانے کے لیے جدید ترین اسلحہ کی گھن گرج کے ساتھ میدان میں اترے تو ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے کیونکہ انہوں نے دوسرا کوئی راستہ چھوڑا نہیں تھا۔ تقریبا ً44 سال کی طویل جنگوں کے بعد آخر کار وہ افغانستان طالبان کے حوالے کر کے رخصت ہوئے تو ہمارے حکمران بہت خوش تھے کہ پرانی مرادیں پوری ہو چکیں۔ جلد ہی پتہ چل گیا کہ امریکہ کے خلاف 20 سال جنگ لڑنے اور کابل حکومت ختم کرنے والے طالبان ہمارے نہیں کسی اور کے حامی ہیں‘ یا پھر کسی کے نہیں۔
ایک صدی پہلے والے معاملات دکھائی دیتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ بچہ سقہ اور اس کے حامی ملاؤ ں کے خلاف نادر شاہ پاکستان کے سرحدی علاقوں سے لشکر منظم کر کے کابل کو بازیاب کرانے میں کامیاب ہوا تھا۔ اب دیکھتے ہیں آج کے طالبان کے خلاف مزاحمت کب‘ کیسے اور کہاں سے اٹھتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 43سال پہلے جب روس نے مداخلت کی اور مہاجرین پاکستان آنے لگے تو اس کے بعد ہر نئے جنگی موڑ پر نئے مہاجرین نے ہمارے ہاں پناہ لی۔ ہم نے کبھی ان کے راستے بند نہیں کیے ۔ میں ان لوگوں سے ہوں جو افغان اور دیگر مہاجرین‘ جو جنگوں سے متاثر ہو کر ہمارے ملک آتے ہیں ‘ کی حمایت کرتاہوں۔ جب حالات وہاں کے بہتر ہوئے‘ اکثر افغان مہاجرین واپس چلے جائیں گے۔ اگر وہ نہ بھی جائیں تو یہ جس انداز میں ہم اُنہیں دھکیل کر سرحد کے پار پھینک رہے ہیں وہ ہمارے اور عالمی قوانین اور انسانی اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مجھے کابل میں ایک بچہ یاد آ رہا ہے جس سے وہاں ملاقات ہوئی ۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے پہلے چند سالوں میں استحکام پیدا کیا‘ ڈالروں کی ریل پیل ہوئی‘ معیشت بہتر ہوئی تو لاکھوں افغان مہاجرین واپس چلے گئے۔ یہ بچہ کابل کے ایک فٹ پاتھ پر کتابیں بیچ رہا تھا ۔میں نے اُردو میں بات کی تو وہ فرفر اُردو بولنے لگا ۔اس سے فردوسی کا شاہنامہ خرید امگر کچھ صفحے پھٹے ہوئے تھے۔ دوسرے دن اس نے نئی کتاب لانے کا وعدہ کیا۔ نئی کی بجائے اس کی مرمت کر کے لے آیا تو میں نے بخوشی قبول کر لی۔ پوچھا ‘اُردو کہاں سے سیکھی؟ پشاور اور اسلام آباد میں رہا تھا ۔میں نے کہا :تم ہمارے بچے ہو‘ وہاں پیدا ہوئے ہو ‘ہماری زبان بولتے ہو‘میرے ساتھ واپس اپنے ملک چلو۔ کہنے لگا :چاچا دل کرتا ہے پشاور میں رہوں مگر ابا نہیں مانتا ۔لاکھوں افغان بچے ہیں جو یہاں پیدا ہوئے ہیں۔ میرے نزدیک انہیں پاکستان کی شہریت ملنی چاہیے۔ افغانستان کے روشن خیال لوگ اپنے بچوں کی زندگیاں افغانستان کے موجودہ حالات میں ضائع نہیں کرنا چاہتے ۔ لاکھوں مغربی ممالک میں جا چکے ہیں اور ہزاروں انتظار کر رہے ہیں۔ جو نہیں جا سکتے وہ پاکستان میں رہ کر اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ مہاجرین مصیبت زدہ ہیں ۔ان کی زندگیاں‘ امن و سکون ‘ریاست اور معیشت مقامی جنگجوئوں‘ بڑی طاقتوں کی مداخلت اور علاقائی ممالک کی رقابت نے تباہ کی ہے۔ کچھ ہمارا بھی حصہ ہے ۔ اس لیے ”پناہ‘‘ نامی ڈرامہ جو کبھی ہم نے تیار کیا تھا‘ ایک بارپھر دیکھ لیں ۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: