مئی 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمیں تعریف تک پسند نہیں۔۔۔||رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا پاکستان کے نامور صحافی ہیں ، سرائیکی وسیب کے ضلع لیہ سے تعلق ہے ، وہ مختلف موضوعات پر قومی روزناموں میں لکھتے چلے آرہے ہیں ، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اندازہ تو تھا کہ ہمارے اندر مریضانہ قسم کی اذیت داخل ہو چکی ہے لیکن ہم اس حد تک اس کا شکار ہو چکے ہیں اس کا پتا اُس وقت چلا جب ایک ٹویٹ پڑھاجو ایک غیرملکی بزنس مین نے پاکستانی دورے کے بعد کیا اور اس کے نیچے پاکستانیوں کے کمنٹس پڑھے۔ اس نے لکھا کہ وہ چھ ماہ بعد پاکستان گیا تو اسے خوشی ہوئی کہ حالات پہلے سے بہتر تھے۔Pakistan is booming.۔ جب وہ جون میں پاکستان آیا تھا تو اس کی نسبت اب پاکستان بدلا ہوا تھا‘ سڑکوں پر گاڑیوں کا رش تھا۔ ریسٹورنٹس پر لوگ خوش باش نظر آئے۔ رات دو بجے بھی ایئرپورٹ پر بہت رش تھا۔ جس فلائٹ پر وہ سفر کررہے تھے وہ پوری بُک تھی۔ اس کے ٹویٹ سے لگ رہا تھا کہ وہ پاکستان میں بدلتے ہوئے حالات پر خوش ہے‘ لیکن جب ہم پاکستانیوں نے وہ ٹویٹ پڑھا تو اکثر نے نیگٹو کمنٹس کرنا شروع کر دیے۔ ایک نے اس غیرملکی کی اس ”خوش فہمی‘‘کو دور کرنے کیلئے لکھا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے‘ گاڑیوں کے رش کی وجہ خوشحالی نہیں بلکہ شادیوں کا موسم ہے جس کی وجہ سے گاڑیاں اسے سڑک پر نظر آرہی تھیں ورنہ ہمارے حالات نہیں بدلے۔اس غیرملکی کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب تھا کہ جون کی نسبت اب دسمبر میں اسے زیادہ ایکٹیوٹی نظر آئی‘لوگ خوش نظر آئے۔ ایک اور پاکستانی نے لکھا کہ آپ پاکستان کے حالات پر طنز کررہے ہیں یا واقعی آپ کو یقین ہے کہ پاکستان کے حالات پہلے سے بہتر ہیں؟ اس پر اُس نے جواب دیا کہ اس نے طنز یا مذاق نہیں کیا‘ جو بات محسوس کی وہ ٹویٹ کر دی۔ اُس نے لکھا کہ اس کی وہاں پاکستانیوں سے بھی بات چیت ہوئی تھی اور اس کا امپریشن پاکستان سے واپسی پراچھا تھا۔ کسی نے پوچھا: وہ پاکستان میں کس شہر میں گیا تھا؟ اس نے جواب دیا وہ لاہور گیا تھا۔ کسی نے پوچھا :وہ کس کام سے گیا تھا تو اس نے جو اب دیا کہ وہ ایل این جی کاروبار سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی نے اسے سمجھایا کہ دبئی کی فلائٹ فُل ہونے کا مطلب ہماری خوشحالی نہیں بلکہ ہمارا مزدور طبقہ وہاں کام کرتا ہے یا پھر ٹرانزٹ کے لیے استعمال کرتا ہے۔حوالہ اور ہنڈی کرنے والے کاروباری بھی دبئی آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس پاکستانی نے یہ بھی لکھا کہ وہ ایئرپورٹ پر رش دیکھ کر متاثر نہ ہو کہ رات دو بجے اتنی بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔ اس کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں رواج ہے کہ کسی کو ایئرپورٹ پر سی آف کرنا ہو تو چار لوگ تو ضرور جاتے ہیں۔ ایک اور صاحب نے لکھا کہ دبئی میں چھٹیوں کا موسم چل رہا ہے‘ سکول امتحانات ابھی ختم ہوئے ہیں اور سکول بھی بند ہیں‘ تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ پاکستان ترقی کررہا ہے‘صرف اس لیے کہ فلائٹ پوری بُک ہے یا سڑکوں پر ٹریفک کا رش ہے یا لوگ خوش نظر آتے ہیں یا رات دو بجے بھی ایئرپورٹ پر لوگوں کا رش تھا؟ایک محترم نے لکھا کہ یہ کون سا پاکستان ہے جس کے بارے میں آپ نے اتنا اچھا لکھا یا محسوس کیا ؟ ایک اور صاحب کا کمنٹ تھا کہ یہ کرسمس کرشمہ ہے۔ اب پتا نہیں وہ طنز کر رہے تھے یا واقعی ان کی بات کا وہی مطلب تھا جو انہوں نے لکھا۔ایک اور نے طنز کیا کہ ایک غیر ملکی پاکستان میں شادی سیزن کو ڈسکور کررہا تھا۔ ایک اور صاحب نے سوچا کہ میں کیوں پیچھے رہوں اور کمنٹ کیا کہ بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانی دراصل رشتہ داروں کی شادیوں میں شرکت کیلئے پاکستان آ رہے ہوں گے جس سے فلائٹ بُک تھی اور ایئر پورٹ پر انہیں لینے والوں کا رش تھا اور شاید وہ چہرے دیکھ کر وہ غیر ملکی مسافر خوش ہوگیا۔ایک اور پاکستانی نے لکھا کہ واقعی آپ کو علم نہیں ہے لوگ پاکستان سے ناامید ہو کر بیرونِ ملک شفٹ ہو رہے ہیں۔ ایک کمنٹ تھا کہ یہ فارن بھائی کسی اور پاکستان کی باتیں کررہا ہے کہ اسے سب اچھا لگ رہا ہے۔ اس کا مطلب تھا کہ ہمارا پاکستان بھلا کسی غیرملکی کو کیسے پسند آ سکتا ہے کیونکہ ہم تو بہت برُے ہیں۔ ایک اور کمنٹ تھا کہ یقینا آپ کے ٹویٹ کا مقصد مذاق سے زیادہ کچھ نہیں۔ شاید ان صاحب کا اپنے خیال ہوگا کہ ہم اتنے اچھے کب سے ہوگئے یا ہمارا ملک جون کی نسبت دسمبر میں کیسے بہتر ہوسکتا ہے کہ ایک غیرملکی بندہ نہ صرف متاثر ہوا بلکہ اس نے پاکستان کے حق میں ٹویٹ بھی کر دیا۔ آخر اِن نیگٹو کمنٹس کو پڑھ کر کچھ پاکستانیوں نے لکھا کہ آپ ان بے چاروں کے نیگٹو کمنٹس سے نہ گھبرائیں کہ یہ لوگ پاکستان پر کمنٹ نہیں کر رہے بلکہ اپنی سیاسی وابستگیوں کا شکار ہیں۔ یہ لوگ ہمیشہ روتے رہتے ہیں۔ اس ٹویٹ کے نیچے چند پازیٹو کمنٹس بھی پاکستانیوں نے کئے تھے۔
اب ذرا یہاں رُک جائیں۔آپ کو یقین نہیں آرہا ہوگا کہ ایک غیرملکی جون میں پاکستان آیا اور اب دسمبر میں وہ لاہور اُترا اور اپنا تاثر اس نے شیئر کیا کہ اسے چھ ماہ بعد پاکستان پہلے سے بہتر لگا۔ کھاتے پیتے خوش باش لوگ‘ سڑکوں پرگاڑیوں کا رش اور رات دو بجے ایئرپورٹ پر رش۔ لیکن اسے چند منٹس بعد پاکستانیوں کے کمنٹس پڑھ کر احساس ہوا ہوگا کہ یار وہ کس قوم اور ملک کی تعریف کر بیٹھا ہے۔ یہ لوگ تو اس کا مذاق اُڑا رہے ہیں یا وجوہات بیان کررہے ہیں کہ اسے غلط فہمی ہوئی پاکستان میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
میں حیران ہوں کہ کوئی غیرملکی بزنس مین اگر ہمارے بارے اچھا تاثر بنانے کی کوشش کررہا ہے تو ہم سب مل کر اس پر پل پڑے۔ یہ بات ویسے عام ہے کہ پاکستانی عوام بہت خوش باش رہنے والی قوم ہے۔ بھارت سے اکثر آنے والے بھارتی اس بات کو نوٹ کرتے ہیں کہ انڈین لوگوں کی نسبت پاکستانیوں کا رویہ بہت بہتر ہوتا ہے۔ یہاں ان کی مہمان نوازی واقعی کی جاتی ہے۔ اکثر غیرملکی سیاح جو پاکستان سے ہو کر بھارت جاتے ہیں یا بھارت سے واپس آتے ہیں وہ اس بنیادی فرق کا ذکر کرنا نہیں بھولتے کہ پاکستانی خوش باش اور مہمان نواز اور اچھے لوگ ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے معاشی حالات خراب ہونے پر شدید پروپیگنڈا کیا گیا کہ پاکستان سری لنکا بننے والا ہے اور کسی وقت یہاں خانہ جنگی ہو جائے گی۔ نوجوانوں کو میسج گیا کہ پاکستان اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ اس پر اچانک پاسپورٹ بنوانے کی تعداد میں اضافہ ہوگیا۔ لوگوں نے بیرونِ ملک جانے کے لیے ویزے اپلائی کرنا شروع کر دیے۔ ساتھ ہی سفارت خانوں کو پتہ چلا کہ یہ لوگ تو پاکستان چھوڑ کر فرار ہورہے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے تو انہوں نے ویزوں سے انکار کرنا شروع کر دیا اور بات تیس‘ چالیس فیصد ریجیکشن تک بات جا پہنچی۔ دوسری طرف وہ کوریئر سروسز جن کے ذریعے ویزہ دستاویزات جمع ہوتی ہیں یا بائیومیٹرک کی تاریخ ملنی ہوتی ہے انہوں نے اپنے ایجنٹس مارکیٹ میں چھوڑ دیے کہ اگر انٹرویو کی تاریخ جلدی لینی ہے تو رشوت دینی ہوگی‘ ویزہ فیس کے علاوہ رشوت دو۔ شروع میں ریٹ چالیس ہزار تھا‘ اب ایک سے دو لاکھ تک پہنچ چکا تھا۔
اب بتائیں پہلے ہم نے خود ملک کو بدنام کیا کہ یہ بس اب کسی وقت ڈوب جائے گا اور پھر یہاں سے سب نکلنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ اب ایک غیرملکی بزنس مین نے پاکستانی حالات پر ٹویٹ کر دیا تو سب مل کر اسے سمجھانے لگے کہ میاں تمہیں غلط فہمی ہوئی‘ یہاں تو لوگ باہر بھاگ رہے ہیں اور کاروبار بند ہورہے ہیں اور تم نے جو لوگ خوش باش دیکھے اس کی وجہ شادیوں کا سیزن تھا ورنہ ہمارے ہاں مرجھائے اور روتے پیٹتے چہرے ملتے ہیں۔اب اندازہ کریں اس فارن بزنس مین کا یہ جواب پڑھ کر کیا حال ہوا ہوگا؟ کیا وہ دوبارہ اس ملک کے بارے پازیٹو بات کرنے کی جرأت کرے گا؟ہم خود اذیتی کے Next Levelپر پہنچ چکے ہیں کہ اب ہمیں اپنی ہر بات برُی لگتی ہے اور تو اور کسی غیر ملکی کے منہ سے اپنی اور ملک کی تعریف بھی اچھی نہیں لگتی۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: