اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جان ہے تو جہان ہے!۔۔۔ رسول بخش رئیس

کورونا وائرس گزشتہ ایک سال سے دنیا میں زیرِ بحث ہے۔ جتنا اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے‘ ریاستی اقدامات کئے جا رہے ہیں یا تحقیق کی جا رہی ہے

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کورونا وائرس گزشتہ ایک سال سے دنیا میں زیرِ بحث ہے۔ جتنا اس موضوع پر گفتگو ہو رہی ہے‘ ریاستی اقدامات کئے جا رہے ہیں یا تحقیق کی جا رہی ہے‘ شاید ہی جدید تاریخ میں کوئی مسئلہ اس طرح بیک وقت دنیا کے کونے کونے میں زیرِ بحث رہا ہو۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں‘ لاکھوں ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ کئی ممالک میں تو شفاخانوں میں مزید مریض رکھنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ غریب گھرانوں سے اس موذی وبا کا شکار ہونے والے نہ جانے کس عذاب سے گزر رہے ہیں‘ لیکن امیروکبیر بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں امریکہ میں ہوئیںاور ابھی تک وہاں مرنے والوں کا تناسب اور رفتار دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ وبا کے پھیلائو میں سیاست کا گہرا تعلق دیکھنے میں آیا ہے۔ امریکہ‘ بھارت اور برازیل میں وہاں کی حکومتوں نے لاپروائی کی‘ بروقت فیصلے نہ کئے۔ وسائل کی فراوانی کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ وبا کو ایک مذاق سمجھ کر ٹالتے رہے۔ ذاتی طور پر بھی وہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے بجائے کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے رہے۔ انتخابات کا سال تھا اور مقابلہ بھی سخت‘ مگر حفظانِ صحت کے وہ اصول جو وبا کے پھیلائو کو روکنے اور کم کرنے کیلئے لازم تھے‘ وہ انہوں نے ہوا میں اڑا دیئے‘ وبائی ماہرین کی رائے کو یکسر ٹھکرا دیا‘ سائنس دانوں کا عام جلسوں میں مذاق اڑاتے رہے۔ شروع میں تو انہوں نے یہ کہا کہ کورونا موسمی نزلہ زکام سے کوئی مختلف وائرس نہیں ہے۔ اس نوعیت کی وبائوں پر قابو پانے والا قومی ادارہ صدر اور عوام کو پیشہ ورانہ اور درست مشورہ دیتا رہا کہ اس وبا کا کوئی علاج فی الحال موجود نہیں‘ تحقیق جاری ہے‘ ویکسین تیار ہونے میں وقت درکار ہے‘ عوام کو چہرے پر ماسک چڑھانا‘ بار بار ہاتھ صابن سے دھونا اور پُرہجوم جگہوں سے بچنا ہوگا۔
امریکی صدر کو ان کی ہٹ دھرمی کی سزا مل چکی ہے۔ ناصرف وہ کورونا کا شکار ہوئے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ دوسری مرتبہ صدر منتخب ہونے میں ناکام بھی رہے۔ ویسے تو ان کے ہار جانے کی کئی وجوہ ہیں‘ مگر سب سے بڑی وجہ کورونا سے اموات ہیں۔ اس وقت تک تین لاکھ کے لگ بھگ امریکی شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور خدشہ ہے کہ وائرس کے پھیلائو کی یہی رفتار رہی تو اگلے صدر کے حلف اٹھانے تک یہ تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ اگر لاکھوں گھروں سے میتیں اٹھیں تو لوگ حکومتوں کو کیسے معاف کرسکتے ہیں۔ ہر جگہ مثالیں موجود ہیں کہ جہاں سربراہانِ حکومت نے موثر اقدامات کئے وہاں زندگیاں محفوظ رہیں۔یہاں وزیر اعظم عمران خان نے وسائل کی کمی کے باوجود وبا کے پھیلائو کو روکنے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ شروع میں بہت فکرمندی تھی کہ اگر اس رفتار سے لوگ وبا کا شکار ہونا شروع ہوگئے جس قدر ہم بھارت اور یورپ میں دیکھ رہے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ ملک بھر میں لاک ڈائون نافذ کرنا مشکل کام تھا‘ مگر حکومت نے کردکھایا۔ سیاسی قیادت نے پہل کی‘ سمت اور حوصلہ برقرار رکھا‘ وسائل بھی فراہم کئے‘ مگر عملدرآمد کا کام پولیس اور مقامی انتظامیہ نے خوب سرانجام دیا۔ میں نے خود مشاہدہ کیا کہ لوگوں کو گھروں میں محفوظ رکھنے کیلئے گلیوں کے کونوں پہ وہ دن رات مورچہ بند رہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ عالمی ادارہ صحت اور ساری دنیا میں ماہرین پاکستان کی کامیابی کو مثال کے طورپر پیش کررہے ہیں۔ سندھ کی حکومت نے وفاق کا ساتھ دیا‘ اور کئی لحاظ سے بہتر اقدامات کئے۔ صوبوں کے درمیان مشاورت‘ ہم آہنگی اور یکساں اقدامات پر اتفاق نے بھی پورے ملک کو کامیابی سے سرفراز کیا۔ ہلاکتوں اور وائرس کا شکار ہونے کی تعداد اور صحت یابی کے اعدادوشمار میں شفافیت رہی ہے۔ ابھی تک جو شماریات دستیاب ہیں ان کی صحت کے بارے میں کہیں شک و شبہ کی گنجائش نظر نہیں آئی۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں 7,942 ہلاکتیں ہو چکی ہیں‘ 338000 مریض شفاپا چکے ہیں جبکہ 392000 کو وبا لاحق ہوئی ہے۔
خطرات کے سائے پھر سے منڈلانے لگے ہیں۔ اب ڈر ہے کہ کہیں ہماری مثالی کامیابی ہوا میں تحلیل نہ ہوجائے۔ وباکی دوسری لہر ساری دنیا میں جڑپکڑ چکی ہے۔ پاکستان میں روزانہ مریضوں کی تعداد میں کئی ہفتوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ کپتان بار بار کہہ رہے ہیں کہ عوام نے تعاون نہ کیا تو وہ دوبارہ تالا بندی پر مجبور ہو جائیں گے‘ مگر کیا ہمارے جیسے بے قابو اور بے لگام معاشرے میں دوسری بار لوگوں کو گھروں میں ٹھہرایا جا سکے گا؟ وبا کو روکنے کا اب دنیاکو وسیع تجربہ حاصل ہوچکا ہے‘ گھروں تک محدود رکھنا بچائو کی سب سے آسان تدبیر ہے۔ مغربی ممالک میں تو بس حکومت حکم نکالتی ہے اور لوگ عادتاً اس پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے اہلکار ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ قانون جو بھی ہو‘ عمل کیا اور کرایا جاتا ہے۔ جس طرح ہم نے بازاروں‘ پارکوں‘ منڈیوں اور گلی محلوں میں احتیاطی تدابیر کی خلاف ورزیاں اپنے شہروں میں دیکھی ہیں‘ اب تک کی کامیابی معجزہ ہی لگتی ہے۔ بعض اوقات تو یقین نہیں آتا۔ اسی لئے نظریہ سازش کے رسیا ہمارے تر دماغ قصے کہانیاں گھڑتے ہیں کہ یہاں موسم کا فرق ہے‘ لوگ مرچ مسالازیادہ استعمال کرتے ہیں‘ سخت جان ہیں اور غیبی مدد شاملِ حال ہے۔ اگر عوام غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تو حکومت کو حرکت میں آنا چاہئے۔ بداحتیاطی برتنے والے خواتین و حضرات کو اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔ ان کو کیسے یہ اجازت ہوکہ ہماری اور ہمارے بچوں‘ عزیزوں اور عام شہریوں کی زندگیوں سے کھیلیں۔
مغرب میں لوگوں کے جمع ہونے کی جگہوں اور ہماری جگہوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جہاں بھی لوگ چھت کے نیچے جمع ہوں گے اور جتنی تعداد زیادہ ہو گی‘ وبا زیادہ پھیلے گی۔ سائنسی تحقیق اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ لوگ جمع ہوں گے تو کوئی بھی اس وبا کا شکار ہو سکتا ہے۔ اول ذمہ داری تو ہماری ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگیوں کو کسی ڈھنگ سے گزارتے ہیں یا حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ زندگی سے بڑا تحفہ‘ بڑی نعمت کیا ہوسکتی ہے۔ یہ ان سے پوچھیں جن کی سانسیں گنی چنی رہ جاتی ہیں۔ سیانے کہتے کہتے گزر گئے کہ ‘جان ہے تو جہان ہے‘۔ گزشتہ چند مہینوں میں اور اب بھی قلم حرکت میں ہے اور کچھ دوستوں کے بچھڑ جانے کی خبریں مسلسل مل رہی ہیں۔ زندگی اور موت پر انسانوں کا بس تو نہیں مگر احتیاط کرنے میں کوتاہی کیلئے کیا جواز تلاش کیا جا سکتا ہے۔ میرے نزدیک سب سے بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرائے‘ شادی بیاہ پر پُرہجوم مہمان نوازی کو ختم کرائے‘ مارکیٹوں اور دکانوں میں عملدرآمد یقینی بنائے۔ یہاں تک تو اس کا بس چلتا ہے اور کسی حد تک کامیابی بھی حاصل کر سکتی ہے۔
سیاسی جلسوں کا کیا کریں کہ جلسوں کے بغیر جمہوریت زنگ آلود ہوجائے گی بلکہ ہر بڑے شہر میں ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرکے گھسی پٹی تقریریں کرکے بے مغز نعرے لگا کر اس میں زندگی کی نئی روح نہ پھونکی گئی تو کپتان کے ہاتھوں دم گھٹ کر دم توڑ جائے گی۔ میرے نزدیک سیاست میں تو دل ہوتا ہے‘ مگر سیاست بازوں میں دل نہیں ہوتا۔ وہ عوام‘ خصوصاً غریبوں کو استعمال کرتے ہیں۔ عام حالات میں تو ہمیں کبھی اعتراض نہیں رہا بلکہ سب جمہوری تحریکوں کے دوران جلسوں میں شرکت بھی کی مگر موجودہ حالات میں ہٹ دھرمی ناقابلِ فہم ہے۔ دیکھ لیں‘ گلگت بلتستان میں جلسوں کے بعد کیا ہوا۔ اس میں حکومتی جماعت بھی ذمہ دار ہے۔ کپتان کے خلاف غم و غصہ‘ نفرت اور حکومت گرائو پالیسی اپنی جگہ‘ عوام کو تو بیماری کی آگ میں نہ جھونکیں۔ چلو عوام سے ہی بات کر لیتے ہیں ”جان ہے تو جہان ہے‘‘ میرے دوستو احتیاط کریں‘ اپنی اور اپنے عزیزوں کی زندگی کو محفوظ رکھیں۔ سیاست بازوں کے ہاتھ میں کھیلنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔

%d bloggers like this: