اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مسلم لیگ ن کے پیپلز پارٹی پر ” وار” ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایم کیو ایم سے سیاسی انتخابی اتحاد کے بعد مسلم لیگ (ن) کی دوسرے درجہ کی قیادت نے اپنی سابق اتحادی جماعت پیپلزپارٹی کو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں ایم کیو ایم کے رہنمائوں سے ملاقات کے بعد لیگی وفد کے ارکان سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحب کراچی کو کھنڈر بنادیا گیا۔ مسلم لیگ وسائل کی منصفانہ تقسیم پر متفق ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتے ہوئے لیگی رہنما غالباً یہ بھول گئے کہ 2008ء سے 2018ء تک پنجاب میں اپنے اقتدار کے دو ادوار میں ان کی جماعت نے پنجاب بھر کے فنڈز لاہور کے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کا ریکارڈ بنایا یہی نہیں بلکہ پنجاب کے بعض بلدیاتی و دیگر اداروں کے پنشن و دیگر فنڈز میٹرو بس سروس کے منصوبے میں جھونک کر ان اداروں کے لئے مستقل مسائل پیدا کردیئے ثانیاً 2013ء میں وفاق میں اقتدار ملتے ہی اپنے لاہور اورنج لائن ٹرین کے منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنوالیا۔ فقط یہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے ان ادوار میں پنجاب میں چودھری پرویزالٰہی کی وزارت اعلیٰ کے دور کے منصوبوں کے فنڈز بھی روک لئے گئے۔ فنڈز روکے جانے کی وجہ سے ملتان میں قائم امراض قلب کے ہسپتال کی کارکردگی متاثر ہوئی جبکہ وزیرآباد کے امراض قلب ہسپتال کی تعمیر اور دیگر معاملات کے فنڈز مکمل طورپر منجمد کردیئے گئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی اتحاد بنتے اور تحلیل ہوتے رہتے ہیں مگر اہمیت سیاسی اخلاقیات کی ہے جوکہ اس ملک کی مروجہ سیاست میں سب سے نچلی ترجیح ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو یقیناً سندھ میں سیاسی اتحاد بنانے اور صوبے کی سابق حکمران جماعت پر تنقید کا پورا پورا حق ہے البتہ تنقید کرتے ہوئے زمینی حقائق اور دوسرے معاملات کو بہرصورت مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ مسلم لیگ کی نئی اتحادی ایم کیو ایم اپنے قیام کے بعد سے پی ڈی ایم حکومت کے خاتمے تک چند وقفوں کے علاوہ صوبہ سندھ اور وفاق کے حکمران اتحادوں کا حصہ رہی۔ کراچی اور حیدر آباد کے حق رائے دہی کی لسانی بنیادوں پر ملکیت کی دعویدار ایم کیو ایم نے صوبے اور وفاق کی اتحادی حکومتوں کا حصہ رہنے کے عرصے میں ان دو شہروں میں ہی سہی کتنے تعلیمی ادارے، ہسپتال اور دیگر منصوبے بنائے اور مکمل کروائے۔ روزگار کے کتنے نئے مواقع منصوبہ بندی کے تحت پیدا کئے، یہ بذات خود ایک سوال ہے جس کا جواب دینے سے ایم کیو ایم آنکھیں چراتے ہوئے زمانہ اپوزیشن (اقتدار سے باہر کے دنوں میں) کے دوران دونوں شہروں کی محرومیوں کی داستانیں چھڑ لیتی ہے۔ انہی شہروں کے رائے دہندگان اس جماعت سے یہ سوال کرتے آرہے ہیں کہ پچھلے 35 برسوں کے دوران ایم کیو ایم کے بڑوں اور ارکان اسمبلی کی نوے فیصد اکثریت کے اثاثوں میں اضافہ اور جو طبقاتی تبیدلی دیکھنے میں آئی اس کا سواں حصہ بھی دونوں شہروں میں اس کے حامیوں کے لئے کیوں نہ ہوسکا؟ محرومیوں اور مسائل کے حوالے سے ایم کیو ایم کی ہاں میں ہاں ملاتی مسلم لیگ (ن) اپنی اتحادی جماعت سے یہ ضرور دریافت کرے کہ اس نے بلدیاتی اداروں کے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کس کے ایما پر کیااور کیوں اپنے حامی رائے دہندگان کو بلدیاتی قیادت کے انتخاب سے محروم رکھا۔ جہاں تک سندھ کی ابتر صورتحال کے حوالے سے بعض سیاسی جماعتوں اور میڈیا کے بڑے حصے کے دعوئوں کا تعلق ہے تو انہیں اس سوال پر غور ضرور کرنا چاہیے کہ ملک کے باقی تین صوبوں کے لوگوں کی بڑی تعداد حصول روزگار کے لئے اور اب پچھلے چند برسوں سے علاج معالجہ کی مفت سہولتوں سے استفادے کے لئے صوبہ سندھ کا ہی رخ کیوں کرتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنے مختلف ادوار میں لاہور کے قریب کے ایک ڈویژنل ہیڈ کوارٹر گوجرانوالہ میں ایک بھی یونیورسٹی اور اعلیٰ طبی خدمات کا جدید ہسپتال نہیں بناسکی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دوسروں پر انگلیاں اٹھانا بہت آسان ہے اپنے گریبان میں جھانک کر حقائق کا ادراک بہت مشکل۔ بہرطور سیاسی اختلافات کے اظہار میں ایسے الزامات سے گریز کیا جانا چاہیے جو مبنی برحقیقت نہ ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: