اپریل 30, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! ساتویں قسط!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

اپنی کمٹمنٹ ختم کرنے کا اس سے زیادہ بودا اور کمزور جواز کیا کوئی انسان پیش کر سکتا ہے؟ کچھ اور لوگ؟ یعنی منگیتر۔ وہ تو تب بھی تھی جب آفتاب نے سیمی سے محبت کا ناٹک رچایا۔ سوچ سمجھ کر ایک لڑکی کو تباہ کرنے کا ارادہ آفتاب کے گھٹیا پن اور کمزور کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیمی احتجاجاً کالج چھوڑ کر پنڈی جانے کا فیصلہ کرتی ہے جانے سے پہلے قیوم سے مل کر اپنے گھر کی تلخیوں کا ذکر کرتی ہے۔ قیوم سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اپنے فیصلے سے دستبردار نہیں ہوتی۔

یہاں یہ ذکر اہم ہے کہ لاہور میں بھی وہ ہوسٹل میں رہ کر آزادی اور بے فکری کی زندگی گزار رہی ہے کہ مالی اخراجات اس کے والدین ہی اٹھاتے ہیں۔ یہاں قاری کو سیمی میں فیصلہ کرنے کی قوت نظر آتی ہے۔ صحیح یا غلط۔ لیکن وہ جو ٹھیک سمجھتی ہے اس پر قائم رہتی ہے۔

آفتاب کی شادی سے ایک دن پہلے وہ پنڈی سے لاہور پہنچتی ہے۔ وائی ڈبلیو سی اے میں ٹھہرتی ہے اور قیوم سے مل کر اسے بتاتی ہے کہ پنڈی میں وہ ایک ٹریول ایجنسی میں نوکری کر رہی ہے۔

باتوں باتوں میں وہ کہتی ہے۔

”آفتاب کو میری وجہ سے سمجھوتے کرنے پڑتے تھے اسی لئے میں نے کالج چھوڑ دیا۔ مجھے بڑا ترس آتا تھا آفتاب پر۔ کالج میں اسے مجھ سے محبت کرنی پڑتی تھی۔ گھر جا کر اپنی کشمیرن بے بے کے ساتھ شادی کے امور میں دلچسپی لینی ہوتی تھی۔ پھر شام کو اپنی کزن کے گھر بھی جانا ایک معمول تھا اس کا۔“

آفتاب کے کردار کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ بھی سیمی کی زبانی جس نے اسے ببانگ دہل چاہا۔ لیکن جسے چاہا وہ انتہائی کمزور فطرت فلرٹ مرد نکلا۔ جس نے منگیتر ہونے اور اپنی تنگ نظر گھریلو روایات کا علم ہونے کے باوجود ایک لڑکی سے محبت کا ڈھونگ رچا کر اسے یقین دلایا کہ وہ زندگی اکٹھی گزار سکتے ہیں اور اس کے بعد اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی کر لی۔

آفتاب کے کردار کی سطحیت شادی کے دن؛

”منڈپ میں دلہن بیٹھی تھی۔ نتھ کے نیچے ہونٹ پر تل لیے وہ مسکراہٹیں دبانے کی کوشش کر رہی تھی اس کے پاس آفتاب دونوں نتھنوں سے ہنس رہا تھا۔ اس کی کسی حرکت سے تاسف، غم یا ملیامیٹ ہونے والی کسی کیفیت کا سراغ نہیں ملتا تھا۔“

سیمی کے ذکر پر وہ قیوم سے کہتا ہے :
”عجیب بونگی لڑکی ہے وہ۔ حالات سے اپنے آپ سے کسی دوسرے سے سمجھوتہ کرنے والی نہیں۔ “

یہ جملہ محض جملہ نہیں بلکہ معاشرے کے شاؤنسٹ مرد کی اصل تصویر ہے جس کے مطابق مرد چاہے کچھ بھی کرے مگر اچھی لڑکی کو سمجھوتہ کرنا سیکھنا چاہیے۔ چاہے وہ محبوب کی شادی ہی کیوں نہ ہو۔ محبوب بھی وہ جس نے دو برس محبت کے نام اور شادی کے جھوٹے وعدے کی بنیاد پہ اس لڑکی کے ساتھ بھرپور وقت گزارا ہو۔

وہ اپنے ہرجائی پن کو بڑی مہارت سے سمجھوتے کا نام دیتا ہے تاکہ کسی گلٹ کے بغیر دوسری عورت کے ساتھ زندگی شروع کرسکے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ اگر عورت ایسا کرنے سے انکار کر دے تب وہ مرد کی نظر میں بونگی کہلاتی ہے۔

مزید سنیے ؛
”سیمی کبھی نہیں سمجھ سکتی، وہ بہت زیادہ زندہ ہے۔ محبت کرتی ہے جی جان سے۔“

جس مرد کو فلرٹ کرنے کا مرض لاحق ہو، وہی عورت کے جی جان سے محبت کرنے پہ یوں مذاق اڑاتے ہوئے ہنس سکتا ہے۔

”میں نے کبھی اپنی پسند سے زندگی نہیں گزاری اور بڑی آسودگی میں وقت گزارا ہے۔ مجھے دولت، محبت آسودگی طمانیت سب اتفاقاً ملی ہیں۔ یہی۔ ۔ ۔ یہی بات اسے سمجھ میں نہیں آئی۔ میں اگر اپنی پسند کو زندگی میں شامل کر لیتا تو بڑی مشکلات پیدا کر لیتا اپنے لیے۔ دوسروں کے لئے۔“

لیجیے آ گئی بلی تھیلے سے باہر۔ آفتاب کو ڈر تھا کہ اپنی مرضی سے شادی کرنے پر اس سے خاندانی دولت اور آسودگی چھن جائے گی۔ یہاں قاری کا حق بنتا ہے سوال کرنے کا کہ میاں آفتاب کیا اپنے خاندان کو تم اس وقت نہیں جانتے تھے جب سیمی سے فلرٹ کرنے میں مصروف تھے؟ یہ کشف کیا ایک دم ہوا کہ اس شادی کے نتیجے میں کیا ہو گا؟ اس طرح کی گری ہوئی بات سیمی جیسی صاف گو اور کھری لڑکی کیوں برداشت کرتی؟ کیوں سمجھوتہ کرتی وہ ایک دوغلے مرد سے؟ ‏‎

وہ چاہتی تو اس مرد کا کھلے عام تماشا بنا سکتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اس مرد کی محبت میں اس بری طرح اسیر تھی کہ اس نے خاموشی سے اس کے راستے سے ہٹ جانے کو مناسب سمجھا۔

‏‎دوسری وجہ سیمی کی انا بھی تھی۔ محبت میں سچی اور کھری عورت ایک ایسے مرد کا تعاقب کیوں کرے جو مالی مفادات کی خاطر سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنی محبت کو نہ صرف فروخت کر رہا ہو بلکہ ایک لڑکی کو دھوکا دیتے ہوئے بزدلی کو اپنی طاقت بھی سمجھتا ہو۔

”میں احتجاج کے خلاف ہوں۔ تہلکہ مچانے والے صرف اپنا نقصان نہیں کرتے سب کو برباد کرتے ہیں، سارے ماحول کو۔ سیمی سمجھتی ہے کہ وہ اپنے رویے اپنی سوچ اپنی پسند خوشی اور غم لانے کی ضامن ہے میں جانتا ہوں وہ خود ٹوٹ جائے گی اچانک“ ۔

قیوم حیران ہو کر اس سے پوچھتا ہے کہ تم نے سیمی کی زندگی کیوں تباہ کی؟
”اگر میں اس کی زندگی تباہ نہ کرتا تو کچھ اور لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیتا۔“

اپنی کمٹمنٹ ختم کرنے کا اس سے زیادہ بودا اور کمزور جواز کیا کوئی انسان پیش کر سکتا ہے؟ کچھ اور لوگ؟ یعنی منگیتر۔ وہ تو تب بھی تھی جب آفتاب نے سیمی سے محبت کا ناٹک رچایا۔ سوچ سمجھ کر ایک لڑکی کو تباہ کرنے کا ارادہ آفتاب کے گھٹیا پن اور کمزور کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

قیوم ؛ تمہیں یہ فیصلہ سیمی سے محبت کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔

آفتاب کا جواب؛ میں نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ ہر فیصلہ میرے بیج میں پہلے سے موجود تھا اور بیج کے فیصلے سے مڑا نہیں جا سکتا۔

بانو قدسیہ کے اس شاہکار جملے اور منطق کے بعد تو دنیا کی سب عدالتوں کو بند ہو جانا چاہیے۔ روز قیامت سزا اور جزا کا کیا بنے گا؟ آدم کو جنت سے نکلنے کی سزا کیوں ملی؟ چور کا ہاتھ کیوں کاٹا جاتا ہے؟ زنا کی سزا سنگسار ہونا کیوں ہے؟

اس تھیوری کی روشنی میں ہر مجرم کہہ سکتا ہے کہ میں نے کبھی کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ ہر فیصلہ میرے بیج میں پہلے سے موجود تھا اور اس کے یعنی بیج کے فیصلے سے مڑا نہیں جا سکتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: