اپریل 27, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عشاق کی آبرو۔ شہید سرمدؒ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

درباری مفتی فتویٰ صادر کرچکے۔ زنجیروں میں جکڑے سرمد کو شاہی کارندے سے مقتل کی طرف لے جارہے تھے۔ شاہ جہان آباد (دہلی) میں ہر طرف آدم ہی آدم تھا۔ قدم قدم مقتل کی طرف بڑھتے ہوئے سرمد نے شان بے نیازی سے کہا

’’مکتب عشق میں وہ کب داخل ہوپائے جنہوں نے ذات کو ہی کائنات سمجھا‘‘۔ سپاہیوں میں سے ایک نے کہا ’’بزرگو !کیوں جان گنوانے کے درپے ہو؟ مست و الست نے نگاہ بھر کے دیکھا اور کہا ’’تم نہیں سمجھو گے میں نے اسے خرید لیا جو میرا گاہک تھا۔ اب خریدار کی مرضی، رکھے یے لے جائے‘‘۔

عشق کے مذہب میں کینہ و عداوت سے بڑھ کوئی چیز حرام نہیں۔ یہاں سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ قاتل تیغ لے کر آئے تو سر جھکادیجئے اور ہوسکے تو اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیجئے۔

ان سموں فقیر راحموں گویا ہوئے

’’عاشق بددعا دیتے ہیں نہ انتقام کی وصیت کرتے ہیں‘‘۔

سچ یہی ہے۔حلاج ہوں یا سرمد یا اس راہ عشق کے دوسرے مسافر، سبھی نے قاتل کو نامہ بر سمجھا اور تلوار کی دھار کو خط کی تحریر۔

18 ربیع الثانی 1070ہجری کو سرمد اپنی گردن قاتل کی تلوار کے نیچے رکھتے ہوئے گویا ہوئے

’’زمانہ نہیں سمجھا تو کیا زمانے سمجھ لیں گے۔ بھید آشکار ہونے کے لئے ہوتے ہیں۔ اس راستہ پر گردن کٹنا لازم ہے، اس کے بنا ملاقات دوست ممکن نہیں‘‘۔

سرمدؒ کے وطن بارے تقریباً سبھی محققین متفق ہیں کہ وہ ایرانی النسل تھے البتہ ان کے آبائو اجداد کے مذہب بارے متحدہ ہندوستان کے محققین کا ایک بڑا حصہ یہ لکھتا ہے کہ وہ یہودی تھے۔ فیض عالم دکنی اور مولانا ابوالکلام آزاد نے مجوسی لکھا۔ خود ایران میں علی اصغر زادے (1825-1901) نے یکسر نئی بات کی۔ علی اصغر زادے کے بقول سرمد کے دادا زرتشت عالم تھے لیکن والد اور والدہ نے اسلام قبول کرلیا تھا۔

ملا ممداللہ قاچانی (وفات 1931ء) البتہ اصغر زادے سے متفق نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ سرمد نے 16سال کی عمر میں اپنی والدہ کی تحریک پر اسلام قبول کیا۔ اس وقت ان کے والد وفات پاچکے تھے اور والدہ نے سرمد سے تین سال قبل اسلام قبول کرلیا تھا۔ ملا ممداللہ قاچانی کے بقول سرمد قبول اسلام کے بعد لگ بھگ دو سال تک ملا اکبر المائدی کے مکتب میں حصول درس کرتے رہے۔

المائدی چونکہ وحدت الوجود کے پرچار تھے سو لازم ہے کہ سرمد اپنے اولین استاد کے رنگ میں رنگے گئے ہوں۔

برصغیر (متحدہ ہندوستان) میں سرمد کی آمد کیسے ہوئی محققین میں اس پر عدم اتفاق دکھتا ہے لیکن مولوی فیض عالم دکنی کہتے ہیں سرمد علوم کی سرزمین پر مزید علم حاصل کرنے کے لئے آئے اور کچھ ہی عرصہ میں اس مقام (مقام شہادت) کو پاگئے جس کی تمنا ہر صاحب وجود کو بے چین رکھتی ہے۔

متحدہ ہندوستان میں برادر کشی کے باوا آدم اورنگزیب عالمگیر کے عہد اور بعد میں لکھے گئے تذکروں میں سرمد بارے محض چند سطریں ہی ہیں۔ کیا تذکرہ نگار ان تعصب سے ’’گھت ‘‘ تھے یا پھر مقام سرمد شہید سے ناواقف؟

سادہ جواب یہ ہے کہ شخصیت پرستی (بادشاہ پرستی) کے غلام آقا کو ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ مسلم معاشروں کا ابتداء ہی سے یہ المیہ رہاہے کہ تذکرہ نگاران اور عام لوگوں کی اکثریت حاکمانِ وقت کے مزاج کے ساتھ پسندوناپسند کو باندھے رکھتے تھے۔

یہ مرض نسل در نسل منتقل ہوا۔ حیات سرمد بارے ابتدائی کام مرزا محمد کاظم نے کیا مگر تفصیل کے ساتھ سرمد شناسی کی "سعادت” نواب انشا عنایت خان کے حصے میں آئی البتہ نوخیز لڑکوں کی محبت کے رسیا نواب عنایت اللہ بھی سرمد شناسی میں مغالطہ کھاگئے۔ لکھ دیا کہ ’’دوسرے ایرانی سیاحوں کی طرح سرمد بھی سندھ سے ہوکر ہندوستان پہنچے اور سندھ کا مشہور شہر ٹھٹھہ ہی وہ مقام ہے جہاں سرمد ایک ہندو لڑکے پر عاشق ہوگئے تھے ‘‘۔

عجیب بات ہے حوروں کے حسن کو خاطر میں نہ لانے والے سرمد کو انہوں نے اپنے جیسا خیال کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنے شوق کو سرمد کے سر منڈھ کر اصل میں نواب عنایت اللہ خان نے اپنے شوق کے جائز ہونے کی سندھ خود اُچک لی۔

وہ اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ ہندوستان میں سرمد کے تین دوست بنے اور تینوں ہی معروف اشخاص تھے حضرت میاں میرؒ (مدفون لاہور)، حضرت موسیٰ پاک (مدفون ملتان) اور شہزادہ دارالشکوہ۔ ان تینوں صاحبان علم و فکر کے تذکرہ نگاروں میں سے کسی نے ان کے چوتھے دوست میں ہم جنسوں سے عشق کو محسوس کیا اور نہ لکھا۔

کیسے ممکن ہے کہ سرمد کے ان تینوں دوستوں (بلکہ ان میں سے ایک داراشکوہ تو خود کو مرید سرمد کہنے پر فخر محسوس کرتا تھا) میں سے کسی کو سرمد کے ٹھٹھہ والے عشق کی بھنک بھی نہ پڑی ہو۔

سو بہت ادب کے ساتھ یہ کہا جاسکتاہے کہ سرمد شہید کے تذکرہ نگاروں میں سے اکثر نے مفتیان دین مبین اور درباری ملائوں کی سرمد سے نفرت کو بھانپتے ہندو لڑکے سے عشق والی کہانی گھڑی۔ سرمد کہتے ہیں ’’عمر گرامی سے ہم کیا حاصل کرپائے، گاہے یہی دل بے قرار سے پوچھتے رہتے ہیں۔ رنج و الم کے باوجود میں اس کی راہ سے نہیں ہٹا۔ ہمیں تو ساقی و مے سے محبت ہے۔ کیوں نہ ہو، مے خانے ہمارے دم سے آباد ہیں۔ میں نفس سے جنگ میں لذت محسوس کرتا ہوں‘‘۔

یہ سرمد شہید ہی تھے جن کے احترام میں حضرت میاں میرؒ نہ صرف اپنی خانقاہ سے باہر نکلتے بلکہ سینکڑوں مریدوں کے ہمراہ چند میل کی مسافت طے کرکے دوست کے خیرمقدم کو پہنچتے۔ دوست بھی ایسا جو باآواز بلند کہہ رہا تھا

’’ہمارا دل تو پابندِ غم الفتِ دلدار ہے۔ ہر کس و ناکس اپنا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ دنیا مجھے مکڑی کے جالے میں پھنسانے کی سعی کرتی ہے مگر میں تو اس کے دیدار کے شوق میں چل رہا ہوں۔ وہ جہاں لے جائے فیصلہ اس کو کرنا ہے‘‘۔

یا پھر یہ کہ

’’دنیا پرستوں سے مل کر شاد نہ ہوا کر، یہ تو غافلوں کا ٹولہ ہے۔ ان کی صحبت راہ کھوٹی کرتی ہے، فریب کھانے کے بجائے چلتے رہنا زیادہ بہتر ہے‘‘۔

سرمد کا قصور فقط اتنا تھا کہ انہوں نے بھید کھولا اور وہ بھی کم ظرفوں کے درمیان۔ بھلا درباری ملا اور صدقے خور مخلوق کیا جانے عشق کیا ہوتا ہے۔ روٹیوں پر جھپٹتے ہوئوں کے لئے تو نفس پرستی ہی کامل عشق ہے اور سرمد، وہ تو حلاجی تھے، پکے حلاجی۔ نیلا آسمان اپنے نیچے زمین پر ایک نئے اور پرجوش حسین بن منصور حلاج کو دیکھ رہا تھا۔ سرمد، منصور ثانی تھے۔ اسی راہ کے مسافر۔

دوسرے بہت سارے الزامات کی طرح ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے لوگوں کو دارا شکوہ کے حق اورنگزیب کی مخالفت میں اُکسایا۔ واہ کیسی بات ہے۔ اورنگزیب بھائیوں کی لاشوں پر تاج پوشی کرکے بھی خادم اسلام اور سرمد کلمۂ حق بلند کر کے سزا وار۔

بادشاہ کانوں کے کچے اور تخت کے معاملے میں کتنے حریص ہوتے ہیں۔ ایسے حریص کہ کبھی سامت کو سولی چڑھاتے ہیں، کبھی حلاج کو اور کبھی سرمد کی گردن مارنے کا حکم جاری کرتے ہیں لیکن ان بادشاہوں سے زیادہ حریص اور عجیب ملائوں کی مخلوق ہے جو فقط پیٹ کی آنکھ سے دیکھتی ہے اور نفسِ امارہ کے گھوڑے پر سواری کو حاصل زندگی سمجھتی ہے۔

18 ربیع الثانی 1070ھ کو جب زنجیروں میں جکڑے سرمد کو شہادت گاہ کی طرف لے جایا جارہا تھا تو شوق دیدار میں سارا شہر امڈ آیا۔ شوق دیدار کو یا پھر شاہ سے وفداری کے اظہار کو؟ مگر اس ہجوم میں سینکڑوں ایسے بھی تھے جو منہ لپیٹ کر کہہ رہے تھے

’’جاہل ملاں علم کا خون بہانے پر تل گئے ہیں‘‘۔ سرمد کا خون بہا مگر اس سے پہلے انہوں نے ایک شان بے نیازی سے بہ تکرار کہا ’’معلوم ہے ہر جگہ ہر بات کرنے کے لئے نہیں ہوتی۔ مجھ میں دلدار کے دیدار کے لئے اور انتظار کی تاب نہیں۔ یہ جس کو کفر جان رہے ہیں وہ تو ملاقات کے انتظام کا بہانہ تھا‘‘۔

یہی وجہ ہے کہ جب جلاد نے ان (سرمد) سے دریافت کیا موت کا خوف تو نہیں؟ وہ جھوم کربولے

’’یہ تو ملاقات کا انتظام ہے خوف کیسا‘‘ کہتے ہیں جلاد نے بزرگی پر ترس کھاتے ہوئے کہا ’’بادشاہ بڑا رحم دل ہے، معافی مانگ لو‘‘۔ سرمد نے قتل گاہ کے اوپر آسمان کو بغور دیکھتے ہوئے کہا

’’بادشاہ ہی تو رحم دل ہے آدمی جانوروں سے بدتر‘‘۔

عشق جس ایثار کا طلب گار ہوتا ہے سرمد اس دولت سے مالامال تھے۔ راہ عشق میں ان کے قدم کسی بھی مرحلہ پر لڑکھڑائے ہرگز نہیں بلکہ وہ ثابت قدمی سے قدم بہ قدم منزلیں طے کرتے ہوئے بالآخر اس منزل پر آن پہنچے جس کے لئے انہوں نے ایک لمبا سفر کیا تھا۔

کہاں کاشان اور کہاں دہلی۔ سرمد اپنے اس ہی شعر کی کامل تفسیر بن گئے۔

’’یار کے کوچہ میں سر ہتھیلی پہ لئے قدم قدم چلنے میں جو سرشاری ہے وہ تاج و تخت میں کہاں۔ عاشق محبوب کو پانے کے لئے اپنی قربانی دیتے ہیں‘‘۔

گو سرمد دربار اور مُلا کی ملی بھگت سے جام شہادت چکھنے والے پہلے شخص نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ وہ عاشقوں کی آبرو ہیں اور رہیں گے۔

یہ سرمد ہی تھے جنہوں نے ایک موقع پر کہا تھا

’’یار نے ملاقات کے لئے جو مقام پسند کیا ہے وہ مجھے معلوم ہے یا یار کو‘‘۔

سرمد کہا کرتے تھے

’’زندہ رہنے کے لئے مرنا ایک سودا ہے جو دو دوستوں کے درمیان طے پاتا ہے۔ دنیا کی محبت میں گرفتار کج فہم کیا سمجھیں گے‘‘۔ عہدِ عالمگیری کے اس مقتول کا جرم وہی تھا جو منصور سے سرزد ہوا تھا۔ حلاج کی طرح فکری استقامت کے مظاہرے نے ان کو اس بلندی پر لے جاکھڑا کیا جہاں دیکھنے کے لئے اورنگزیب عالمگیر کے سر سے تاج گرجاتا۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: