نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند روز قبل انگریزی روزنامہ ڈان کا سنڈے ایڈیشن پڑھتے ہوئے اچانک دریافت ہوا کہ اردو میں افغان جہاد سے جڑے معاملات پر حال ہی میں ایک کتاب لکھی گئی ہے۔ ”جنگ نامہ“ اس کتاب کا عنوان ہے اور اسے ہمارے دوست سید فخر کاکاخیل نے لکھا ہے۔ موصوف کی لکھی کتاب پر تبصرہ پڑھتے ہی میں نے کاکاخیل کو فون کیا۔ میری دانست میں کتاب لکھ کر اس نے خود کو چھپارستم ثابت کیا ہے۔ ستائش کا مستحق وہ اس لئے بھی ہے کہ زندگی کے طویل برس فیلڈ میں رہ کر مختلف معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے بتدریج اس لگن اور مشقت بھرے صبر سے کامل محروم ہو جاتے ہیں جو کتاب لکھنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ میرے بے شمار دوست مسلسل اصرار کرتے ہیں کہ مجھے ”جومیں نے دیکھا“ مارکہ کتاب لکھنا ہوگی۔ متعدد بار مطلوبہ کتاب لکھنے کا عہد باندھا۔ قلم اٹھاکر اس کے مختلف ابواب کا خاکہ بھی لکھ ڈالا۔ وقت نکال کر مگر بھرپور توجہ سے درکار بقیہ کام ”کل“ پر چھوڑتا رہا اور بالآخر دل ہی دل میں اعتراف کر لیا کہ میں کتاب لکھنے کی صلاحیت سے قطعاً محروم ہو چکا ہوں۔ اپنی یادوں اور مشاہدات کو وقتاً فوقتاً اس کالم کے ذریعے ہی بیان کرپاؤں گا۔
سید فخرکاکاخیل ”آج“ ٹی وی کا بیورو چیف رہا ہے۔ اس چینل کے لئے ایک شو کرتے ہوئے مجھے دہشت گردی کے اسباب وواقعات کی رپورٹنگ کے لئے 2008 ءسے 2010 ءتک متعدد بار پشاور وسوات جانا پڑا۔ فیلڈ میں جانے سے قبل مجھے گھنٹوں تنہائی میں کاکاخیل کے ساتھ بیٹھ کر دہشت گردی کے پس منظر اور اس کے نمایاں کرداروں کے بارے میں تفصیلی گفتگو درکار ہوتی۔ بیورو چیف کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھی وہ نہایت خلوص اور انکساری سے میرے لئے اندھے کی لاٹھی ثابت ہوتا۔
کاکاخیل نے ”جنگ نامہ“ انتہائی سادہ اردو میں لکھی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک رپورٹر کے تجربات ومشاہدات کو تحقیقی مقالے کی صورت نہیں بلکہ داستان گوئی کے انداز میں بیان کرتی ہے۔ باجوڑ کے ایک مدرسے میں 30 اگست 1991 ءکے روز ہوئے ایک قتل سے داستان کا آغاز ہوتا ہے۔ جو صاحب ایک عرب دہشت گرد کے ہاتھوں قتل ہوئے وہ شیخ جمیل الرحمان کے نام سے مشہور تھے۔ اصل نام ان کا مولوی محمد حسن تھا۔ افغانستان کے صوبہ کنڑ سے ابتداً مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے سوات، چارسدہ اور راولپنڈی کے مختلف مدرسوں میں تعلیم کی غرض سے پاکستان آتے رہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیخ صاحب گل بدین حکمت یار کی ”حزب اسلامی“ کے متحرک ترین اراکین میں شامل ہو گئے۔
1990 کی دہائی کے آغاز میں شیخ جمیل ا لرحمان کا ایک مصری دہشت گرد کے ہاتھوں ہوا قتل دراصل اس حقیقت کی نشاندہی کر رہا تھا کہ نظام اسلام کے نام پر منظم ہوئی جماعتوں میں ”نظریاتی اختلافات“ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان میں سے ایک فریق فقط مقامی یا وطنی تناظر میں اپنے ہاں اسلام کے کامل نفاذ کا خواہاں تھا۔ دوسرے فریق کی نگاہ میں پورے عالم اسلام کو ایک اکائی مانتے ہوئے اسے ”خلافت“ کے تحت چلانا تھا۔
بدقسمتی یہ رہی کہ افغان جہاد اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں شدید تر ہوئی مذہبی انتہا پسندی کو پاکستانی اور عالمی صحافیوں نے محض ”دہشت گردی“ کے تناظر میں دیکھا اور رپورٹ کیا۔ دہشت گردی کو اکساتی تمام تحاریک کو بنیادی اعتبار سے ایک سا سمجھا گیا۔ ”جہادی تنظیموں“ کے مابین نظریاتی اعتبار سے ہوئی تقسیم وتخصیص کو ہم نے بروقت جان لیا ہوتا تو شاید ”داعش“ جیسی تنظیموں کا رونما ہونا ہمیں حیران نہ کرتا۔ پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات نے افغان جہاد کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں مختلف عرب ممالک سے پاکستان آ کر متحرک ہوئے ”جہادیوں ’“ کو بھی نظرانداز کیے رکھا۔ اس ضمن میں اردو صحافت میں حامد میر اور انگریزی صحافت میں مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی اگرچہ وقتاً فوقتاً چند کرداروں کا ذکرکرتے رہے۔ ان کے علاوہ کسی نمایاں رپورٹر نے اس جانب توجہ نہیں دی۔
عرب ممالک سے ”جہاد“ کی خاطر آئے نوجوانوں کے بارے میں بھرپور توجہ کے ساتھ رپورٹنگ ہوئی ہوتی تو ہم بآسانی سمجھ لیتے کہ ”خراسان“ اسلامی خلافت کے کٹر حامی کے ذہن میں کون سے خیالات ابھارتا ہے۔ وہاں سے ”لشکر خراسان“ نمودار ہونے کی امید کیوں باندھی جاتی ہے۔ اس لشکر کا جھنڈا کالے رنگ کا کیوں ہے اور بالآخر اس لشکر کو خراسان سے چل کر شام پہنچ کر کیا فریضہ سرانجام دینا ہے۔
”خراسان“ فقط ایک زمینی علاقے کانام نہیں ہے۔ احیائے اسلام کے بنیاد پرست اور متشدد حامیوں کے لئے یہ امکانات سے بھرپور علامت بھی ہے جو انتہاپسندی کی شدید ترین پیش قدمی کو دینی اعتبار سے جائز ہی نہیں بلکہ واجب بھی ٹھہراتی ہے۔ کا کا خیل کی بدولت ہم جان سکتے ہیں کہ عراق پر امریکہ کے حملے کے بعد صدام حسین کی بنائی فوج کے کئی افسروں اور جوانوں کو زرقاوی نام کے شخص نے منظم کیا تھا۔ اردن سے تعلق رکھنے والا یہ ”مجاہد“ بھی افغان جہاد کے دوران پاکستان آیا تھا۔ اس کے علاوہ مصر سے آئے ایمن الظواہری کا کردار بھی ”جنگ نامہ“ میں کافی تفصیل سے بیان ہوا ہے۔
فخر کا کا خیل کی کتاب کا مطالعہ ہر اس شخص کے لئے لازمی ہے جو سنجیدگی سے یہ سوچتا ہے کہ طالبان کی افغانستان واپسی کے بعد سے ”جہاد“ کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ مذکورہ واپسی بلکہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی مسلمان ممالک کے نوجوانوں کو ”غلبہ اسلام“ کی جدوجہد کو اکسائے گی اور یہ جدوجہد ہمارے خطے کو آنے والے کئی برسوں تک عدم استحکام سے دو چار رکھ سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر