نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدنان حیدر ایک ہونہار نوجوان ہیں۔ انجینئرنگ سے فلم سازی کے علاوہ دیگر کئی شعبوں میں بھی مہارت کے حصول کے لئے کئی ڈگریاں حاصل کررکھی ہیں۔ ”انجام“ فی الوقت البتہ میرے ساتھ ایک ٹی وی شو کی میزبانی کی صورت ہوا ہے۔ میری دلی تمنا ہے کہ خود کو ہر فن مولاکے جنون میں مبتلا رکھنے کے بجائے موصوف کسی ایک شعبے میں اپنی صلاحیتیں نکھارنے پر توانائی مرکوز کردیں۔اس خواہش میں اکثر انہیں ڈانٹنے کو بھی مجبور ہو جاتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میری ڈانٹ کو مروتاًوہ دل ہی دل میں ”سگ باش ….“ سوچتے ہوئے برداشت کرتے ہوں گے۔
گزشتہ کئی دنوں سے ہمارے ہاں ایک ”چلے“ کا ذکر ہورہا ہے جو راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراطِ عصر نے حال ہی میں سیاسی منظرنامے سے پراسرار گم شدگی کے دوران کاٹا ہے۔”چلے“ کی مشقت سے فراغت کے بعد وہ ایک ٹی وی انٹرویو میں نمودار ہوئے۔ اس کے دوران دعویٰ کیا کہ ”چلے“ نے انہیں قطعاًبدل دیا ہے۔موصوف کے دعوﺅں پر جبلی طورپر میں اعتبار کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ انہیں ہمیشہ اقبال کا بیان کردہ وہ ”اپدیشک“ ہی شمار کیا جو من باتوں میں موہ لیتا ہے۔ یوں گفتار کا غازی تو بن جاتا ہے مگر کڑے وقت میں ڈٹ کر کھڑا ہونے کی جرات سے قطعاً محروم۔
بہرحال ”چلہ“ گزارنے کے بعد راولپنڈی کے ”اپدیشک“ نے نومئی کے واقعات پر ”لعنت“ بھیجی ہے۔ اس کے ذمہ داروں کا تعین کئے بغیر ان کی لعن طعن بھی کردی۔پاک فوج سے اپنی محبت وعقیدت کا ڈٹ کر اظہار کیا۔ ”چلے“ کے بعد ”بدلے بدلے ….“ صاحب کی زندگی بھی اب آسان ہونا شروع ہوگئی ہے۔ متروکہ وقف املاک کی ایک حویلی جسے وہ کئی دہائیوں سے اپنے ”سیکرٹریٹ“ کے طورپر استعمال کررہے تھے ان کی روپوشی یا گم شدگی کے دوران سرکار نے سیل کردی تھی۔ اسے ڈی سیل کردیا گیا ہے۔اس کی ”تزئین وآرائش“ کے بعد راولپنڈی کے ”اپدیشک“وہاں باقاعدگی سے بیٹھا کریں گے۔
کئی برسوں سے انہوں نے اپنی ایک ”جماعت“ بھی قائم کر رکھی ہے۔ وہ مسلم لیگ ہی کا ایک ورژن ہے جسے وہ ”عوامی“ پکارتے ہیں۔میں اسے تاہم پاکستان مسلم لیگ (مداحین رشید)کا نام دینا چاہوں گا۔قلم دوات مذکورہ جماعت کا انتخابی نشان ہے۔ 2018ء کے انتخاب میں وہ اس کی ٹکٹ پر راولپنڈی کے اس حلقے سے منتخب ہوئے جو 1985ء سے تقریباً ان کے نام سے منسوب ہوچکا ہے۔ اس کے بالمقابل حلقے سے حنیف عباسی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے تھے۔ تعلق ان کا جماعت اسلامی سے تھا مگر عملی سیاست نے انہیں مسلم لیگ (نون)کے قریب تر بنادیا۔ لال حویلی سے ابھرے ”اپدیشک“ کی طرح وہ بھی خاصے ”زبان دراز“ ہیں۔ گردن میں لیکن سریا نہیں آیا۔اپنے حلقے میں لوگوں کے درمیان عاجزی کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ان کی محنت ولگن عندیہ دے رہی تھی کہ حالات ایسے ہی رہے تو حنیف عباسی بالآخر ”فرزند راولپنڈی“ کی مشعل لال حویلی والے سے چھین لیں گے۔
عباسی صاحب کو مگر نام نہاد ”ایفی ڈرین“ کیس میں ملوث کردیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات سے چند روز قبل تقریباً رات گئے انہیں ”ملزم“ ٹھہرانے کے لئے عدالت سے ”انصاف“ فراہم کروایا گیا۔ وہ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے ”نااہل“ ہوگئے تو لال حویلی کے ”انقلابی“ اپدیشک“ نے اپنے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو وہاں سے قومی اسمبلی کارکن منتخب کروالیا۔راولپنڈی کی دونشستوں کی بدولت ”عوامی مسلم لیگ“ عمران حکومت کی کماﺅپوت جیسی اتحادی بن گئی۔وزارت داخلہ جیسا تگڑا محکمہ بھی ہتھیا لیا۔
عمران حکومت کے اختتام کے بعد خود کو ”اصلی ونسلی“ کہتے ہوئے راولپنڈی کے اپدیشک قائد تحریک انصاف کے ساتھ ڈٹ کرکھڑے رہنے کی بڑھکیں لگاتے رہے۔بالآخر مگر ”چلہ“ کاٹنے کو مجبور ہوئے اور اب ”آنے والی تھاں‘ ‘ یعنی ”قلم دوات“ کے انتخابی نشان والی جماعت کے احیامیں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ آئندہ انتخاب کے دوران راولپنڈی شہر سے قومی اسمبلی کی دونوں نشستیں ان کے قبضے میں رہیں۔ اپنے بھتیجے کو اب انہوں نے ”بیٹا“ اور ”وارث“ بھی ڈکلیئر کر دیا ہے۔
آگے بڑھنے سے قبل کھلے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ چند ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر میں راولپنڈی سے ابھرے اپدیشک کو سخت ناپسند کرتا ہوں۔ صحافت برداشت کا تقاضا کرتی ہے۔ موصوف کے چلن نے تاہم مجھے اس سے محروم بنا دیا ہے۔ ان کا نام لینا بھی گوارا نہیں کرتا۔ راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے شخص کو ”بقراطِ عصر“ پکارتا ہوں۔اپنے تعصب کے دیانتدارانہ اعتراف کے باوجود میں ان کی روپوشی یا گم شدگی کے دوران دل سے متفکر رہا۔مجھے شبہ تھا کہ ”اصلی ونسلی“ ہونے کے دعوے دار کو تحریک انصاف کے قائد سے دوری اختیار کرنے کو مجبور کیا جارہا ہے اورنہ جانے مجھے کیوں یہ گماں لاحق ہوگیا کہ عمر کے اس حصے میں وہ چودھری پرویز الٰہی کی طرح مزاحمت کو ڈٹ جائیں گے۔ ”چلہ“ مگر ان کی اس تناظر میں تبدیلی قلب میں ناکام رہا۔موصوف اسے گزار کر بلکہ اپنی ”اصل“ کو لوٹ آئے۔
ان کی ”چلے“ سے واپسی کے بعد میری بہت خواہش تھی کہ لال حویلی کے گردونواح میں رہائش پذیر عام افراد سے گفتگو کی جائے۔اس کی بدولت یہ معلوم کرنے کی کوشش ہوکہ وہ ان کے ووٹوں سے قومی اسمبلی کیلئے تقریبا ًمسلسل منتخب ہونے والے رکن کے بارے میں اب کیا محسوس کر رہے ہیں۔ بڑھاپے نے مگر اب فیلڈ کی اذیت سے گھبراہٹ کو مجبور کردیا ہے۔عدنان حیدر کو لہٰذا دودنوں تک اکساتا رہا کہ وہ کیمرہ لے کر لال حویلی جائے اور وہاں کے گردونواح میں کئی دہائیوں سے آباد لوگوں سے گفتگو کی بدولت ان کے جذبات ریکارڈ کرے۔
عدنان کی عمر دراز ہو۔ بدھ کے دن وہ کیمرہ لے کر لال حویلی پہنچ ہی گیا۔وہاں اس نے بے شمار لوگوں کے روبرو سوالات اٹھاکر طویل گفتگو ریکارڈ کی۔وہ گفتگو جب ایڈٹ ہورہی تھی تو میں نے اس کے کافی حصے دیکھے۔نہایت پریشانی سے اعتراف کرتا ہوں کہ لوگوں کی اکثریت کا رویہ اور ردعمل میری توقعات کے عین برعکس تھا۔ مجھے گماں تھا کہ عدنان سے گفتگو کرنے والے اشاروں کنایوں میں یہ پیغام دینے کی کوشش کریں گے کہ ان کے ”دلدار“ کو ریاست کی ”قوت نافذہ“ والوں نے کئی دنوں تک مہمان بنانے کے دوران سیاسی رویہ بدلنے کو مجبور کیا ہے۔یوں کسی نہ کسی سطح پر تاسف کا اظہار ہوتا سنائی دیتا۔
ایسا مگر ہوا نہیں۔”چلے“ کا ذکر کیمرے کے روبرو آئے چہروں کو فی الفور طنزیہ ہنسی کو اکساتا۔ چند لوگوں نے ”چپیڑوں“ کا ذکر بھی حیران کن سفاکی سے کیا۔نتیجہ مگر یہ ہی نکالا کہ لال حویلی سے ابھرے گفتار کے غازی بالآخر وہ ”سبزی ہی ثابت ہوتے ہیں جو ہر ہانڈی میں“ گوشت کے ساتھ پکائی جا سکتی ہے۔ ان کے کاٹے ”چلے“ سے ہمدردی دکھانے کے بجائے ان کی تازہ ترین تبدیلی قلب کو ”ابن الوقتی“ گردانا گیا جس کے موصوف عادی بھی ٹھہرائے گئے۔ یقین مانیں ایک گھنٹے تک پھیلی جو گفتگو عدنان نے لال حویلی کے گردونواح میں چلتے پھرتے ریکارڈ کی تھی اسے میرا بزدل وکمزور دل فقط چند ہی منٹوں کو دیکھ پایا۔ کاش ہمارے سیاست دان سمجھ پائیں کہ خلق خدا میں ان کے خلاف کس نوعیت کا غصہ اور لاتعلقی ابھر رہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر