اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرانے شکاری‘ پرانے جال۔۔۔||رؤف کلاسرا

اب عمران خان کی اداکاری کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ جنہیں گالیاں دیتے رہے‘ اب ان سے سیاست کے نام پر ہاتھ ملانا چاہتے ہیں۔ وہی پرانے شکاری اور پرانے جال۔ سیاست نام ہی اداکاری کا ہے۔ جو دوسرے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر ے وہی سکندر۔ جو بڑا اداکار وہی بڑا سیاستدان۔ زرداری‘ نواز اور عمران میں مقابلہ سخت ہے ‘دیکھتے ہیں آسکر کون جیتتا ہے۔

رؤف کلاسرا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ویسے تو ہم انسان زندگی میں ہر لمحے اداکاری ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ہم اداکاری ختم کرتے ہیں تو ہمارے اندر کا اصلی انسان باہر نکل آتا ہے جو اتنا اچھا نہیں ہوتا‘ اس لیے اکثر جب ہم دوسروں کا یہ روپ دیکھتے ہیں یا ہمارا یہ روپ سامنے آتا ہے تو لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آپ تو ایسے نہ تھے۔ ہم تو کچھ اور سمجھے تھے‘ آپ کچھ اور نکلے۔ وجہ وہی تھی کہ آپ اس وقت اداکاری کررہے تھے اور دوسروں پر اچھا امیج ڈال رہے تھے۔ اس وقت آپ کو ضرورت تھی کہ اس بندے کو اپنے اچھے رویے سے متاثر کیا جائے۔ جب محسوس ہوا کہ ضرورت ختم ہو گئی اور اب خود کو زیادہ مشکل میں ڈال کر اس بندے کو خوش یا مطمئن کرنے کی ضرورت نہیں رہی تو ہم اپنا اصلی روپ سامنے لے آتے ہیں۔ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ محبت کی شادیاں ناکام ہو جاتی ہیں‘ کیونکہ شادی سے پہلے دونوں پارٹیاں اپنی اچھی اچھی چیزیں سامنے لا رہی ہوتی ہیں‘ سارا زور اداکاری پر ہوتا ہے‘ ایک دوسرے کا خیال رکھنے کا جنون کہ اگلے کو ایسا لگے کہ میرے بغیر یہ بندہ تو مر جائے گا۔ کیونکہ ایک دوسرے کو چند گھنٹوں کیلئے ملنا ہوتا ہے لہٰذا اتنی دیر میں اپنی کونسلنگ کر لی جاتی ہے کہ اچھا اچھا دکھنا ہے‘ اچھی اچھی باتیں کرنی ہیں‘ کہیں سے اسے میری کسی نیگٹو بات کا پتا نہ چلے‘ یوں جسے ہم محبت میں قربانی سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ جہاں اکثر جذبات کی بھرمار کا نتیجہ ہوتا ہے وہیں ہماری اداکاری بھی ہوتی ہے‘ چاہے یہ اداکاری فطری ہی کیوں نہ ہو۔ اکثر بڑے اداکاروں بارے کہا جاتا ہے کہ وہ پیدائشی ایکٹر ہوتے ہیں لیکن وہ جوڑا شادی کے کچھ عرصہ بعد وہ رنگ ڈھنگ کھو بیٹھتا ہے جس پر اکثر شکایت ہوتی ہے کہ آپ شادی سے پہلے تو ایسے نہ تھے‘ اس وقت تو میرے لیے مرے جاتے تھے‘ گھنٹوں میری باتیں سنتے تھے‘ پوری توجہ دیتے تھے‘ اب یہ حالت ہے کہ میری پوری بات نہیں سنتے‘ مجھے وقت ہی نہیں دیتے۔ میری تعریف نہیں کرتے جیسے شادی سے پہلے کرتے تھے۔ آپ بدل گئے ہیں۔ دراصل کچھ نہیں بدلا۔ آپ وہی ہیں جو شادی سے کچھ عرصہ پہلے تھے۔ آپ ہرگز نہیں بدلے نہ ہی آپ کی عادتیں یا شخصیت بدلی ہے۔ فرق یہ ہے کہ آپ اس وقت اداکاری کررہے تھے کہ میں اچھا لگوں۔ کوئی ایسا کام نہ کروں جو برُا لگے‘ لہٰذا ہر وقت یہی کوشش رہتی تھی کہ میں نے سب اچھا کرنا ہے۔ اب مقصد پورا ہوگیا تو کون اداکاری کرے۔ چلیں ایک دو گھنٹہ تو بندہ کر لے لیکن 24گھنٹے کون خود کو اس حالت میں رکھے اور اداکاری کرتا رہے۔ چند دن بھی چلیں بندہ کر لے‘ چلیں چند ہفتے یا چند ماہ یا چند سال‘ اب تیس سال تک کون اداکاری کرے؟ لہٰذا پھر آپ فطری حالت میں آ جاتے ہیں اور اداکاری چھوڑ دیتے ہیں‘ یہیں سے مہا بھارت شروع ہو جاتی ہے اور آپ جانتے ہیں پھر نتائج کیا نکلتے ہیں۔
آپ بھی سوچیں گے کہ اتنی لمبی تمہید کس لیے باندھی جا رہی ہے۔ اس تمہید کی وجہ اس وقت پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان جاری لفظی گولہ باری ہے۔ یہ وقت ان دونوں کی اداکاری کا ہے۔ ان کا اصل کردار اس وقت سامنے آیا تھا جب وہ سولہ ماہ تک اکٹھے پاور میں رہے اور سب فائدے مل کر اٹھائے‘ مزے کیے‘ مگر حکومت ختم ہوتے ساتھ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت لیں۔ ان کی باتوں سے کہیں سے نہیں لگتا کہ چند ماہ پہلے تک یہ ایک دوسرے کے ساتھ کابینہ میں بیٹھتے تھے‘ سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ اسحاق ڈار کے مقدمات سیٹل ہورہے تھے‘ مفرور کے سٹیٹس سے اچانک وہ وزیر خزانہ بن گئے اور ملک کی معیشت چلانے بیٹھ گئے اور آئی ایم ایف کو تڑیاں لگا کر اس عالمی ادارے کا کم اور پوری قوم کا تراہ زیادہ نکال رہے تھے۔ یہی تڑیاں لگاتے لگاتے وہ ڈالر کو 220 سے 280 روپے تک لے گئے اور حکومت ختم ہوتے ہی دوبارہ فلائٹ لے کر لندن پہنچ گئے۔ سلمان شہباز بھی طویل عرصہ مفرور رہنے کے بعد وطن لوٹ کر ضمانتیں لے رہے تھے۔ آصف زرداری بھی چالیس ارب روپے کے سکینڈل کا سامنا کررہے تھے جب فالودہ والوں کے اکاؤنٹس استعمال کرکے منی لانڈرنگ کا الزام ان پر لگا تھا اور انہیں اس میں ایف آئی اے نے طویل عرصہ گرفتار بھی رکھا۔ اس طرح شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی سولہ ارب روپے منی لانڈرنگ سکینڈل میں پھنس چکے تھے اور جس دن وزیراعظم بنے‘ ان پر یہ مقدمہ قائم تھا بلکہ یہ مقدمہ اتنا واضح تھا کہ اس میں سزائیں یقینی تھیں۔ دونوں باپ بیٹا اس کیس میں طویل عرصہ گرفتار بھی رہے۔ اب اگر وہ یہ ڈیل نہ کرتے تو یقینا دونوں کو سزائیں ہوتیں اور وہ نااہل بھی ہوتے‘ اور یہی کوشش اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی تھی کہ اگلے الیکشن سے پہلے شہباز شریف کا پتا کاٹا جائے جیسے نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ پاناما کیس میں ہو چکا تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز کے بعد شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی منی لانڈرنگ کیس میں فارغ ہو جاتے تو گلیاں ہو جاتیں سنسان اور مرزا یار اکیلا پھرتا۔ یوں جب (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی والے بڑی مظلومیت سے ہمیں یہ کہانی سناتے ہیں کہ انہوں نے حکومت لے کر اپنا سیاسی ووٹ بینک خراب کر لیا اور ملک کو عمران خان کے عذاب سے بچا لیا تو اس کہانی پر یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ملک کو فائدہ ہوا یا نہیں لیکن اس پورے کھیل میں شہباز شریف‘ حمزہ شہباز ‘ مریم نواز‘ زرداری‘ اسحاق ڈار کو فائدہ ہوا اور نیب قانون بدل کر سب کچھ اپنے حق میں کرا لیا۔ جو کسر رہ گئی تھی‘ نواز شریف کی واپسی کا راستہ جس طرح صاف کیا گیا اس نے پوری کر دی۔ یہ کام عمران خان کے وزیراعظم ہوتے ہوئے نہیں ہو سکتا تھا۔ شہباز شریف کی حکومت میں ہی سب کو سمجھا بجھا کر نواز شریف کی واپسی کا راستہ صاف کیا گیا۔
اس کھیل میں پیپلز پارٹی نے پورا پورا فائدہ اٹھایا‘ لیکن اب ان دونوں پارٹیوں کا فائدہ اس میں ہے کہ یہ دوبارہ وہی پرانی سیاسی اداکاری شروع کر دیں جو برسوں سے کرتی آئی ہیں۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ شہباز شریف اور نواز شریف کی پارٹی یا پیپلز پارٹی اس ملک کے لیے کتنی خطرناک ہے۔ اب دونوں کی پوری کوشش ہے کہ وہ الیکشن میں ایک دوسرے کے سیاسی دشمن کے طور پر سامنے آئیں۔ لوگوں کو کہیں سے نہ لگے کہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ اس وقت عمران خان کی پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہی ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی ہیں‘ لہٰذا وہ ان میں سے ایک پارٹی کو چن لیں۔ کل کو الیکشن کے بعد دونوں پارٹیاں مل کر پھر حکومت بنا لیں گی۔ ایک وزیراعظم اور دوسرا وزیر خارجہ بن جائے گا‘ لیکن الیکشن رزلٹ تک یہ اداکاری جاری رہے گی کہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ اسی میں ان کا فائدہ ہے‘ جیسے کبھی عمران خان کو سیاسی اداکاری میں فائدہ تھا کہ پرویز مشرف انہیں وزیراعظم بنائے گا‘ لہٰذا تین سال اس کا ساتھ دیا‘ ریفرنڈم میں ووٹ ڈلوائے‘ پھر ناراض ہوگئے اور 2007ء میں لندن جا کر نواز شریف سے سیاسی اتحاد کر لیا۔ اب وہی مولانا فضل الرحمن کے پاس اپنے بندے بھیج رہے ہیں‘ جن پر ہر وقت تبرا کرتے تھے۔ کچھ دنوں میں عمران خان شاید نواز شریف اور زرداری کے پاس بھی اپنے بندے بھیجنے والے ہیں جیسے مولانا کے پاس بھیجے۔ اب عمران خان کی اداکاری کا وقت شروع ہو رہا ہے۔ جنہیں گالیاں دیتے رہے‘ اب ان سے سیاست کے نام پر ہاتھ ملانا چاہتے ہیں۔ وہی پرانے شکاری اور پرانے جال۔ سیاست نام ہی اداکاری کا ہے۔ جو دوسرے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر ے وہی سکندر۔ جو بڑا اداکار وہی بڑا سیاستدان۔ زرداری‘ نواز اور عمران میں مقابلہ سخت ہے ‘دیکھتے ہیں آسکر کون جیتتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا

کپتان کا شکوہ ۔۔۔رؤف کلاسرا

آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا

پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا

ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا

پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا

رؤف کلاسرا کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: