نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت مہارت سے ہمیں گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی یہ امید دلائی گئی تھی کہ اکتوبر کا مہینہ ختم ہونے کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ہوگی۔ چند امیدپرستوں نے اس ضمن میں متوقع کمی کو 20 روپے کے عدد کے ساتھ بیان بھی کردیا تھا۔ پٹرول کی قیمت میں مزید کمی کے بجائے لیکن اب ہمارے لئے گیس کی قیمتوں میں ہوشربااضافے کی صورت نیا عذاب مسلط کردیا گیا ہے۔سرما کا آغاز ہوتے ہی ہمارے چولہے روشن رکھنے والی گیس کی قیمت میں یک مشت سو فیصد نہیں بلکہ تقریباََ دو سو فیصد اضافہ کا اعلان ہوا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ حالیہ تاریخ میں کسی بھی ملک میں گیس جیسی کلیدی شے کی قیمت میں ایسے ہوشربا اضافے کا اعلان ہوا ہو گا۔
ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کو بے چین سرکاری اہلکار تاہم مصر ہیں کہ مذکورہ اضافے کے بغیر آئی ایم ایف ہمیں ”امدادی پیکیج“ کی دوسری قسط ادا کرنے کو رضا مند نہیں ہوگا۔ اس کا وفد یہ کالم چھپنے کے دن پاکستان پہنچے گا۔ اس کی آمد سے قبل عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو ہماری جانب سے یہ دکھانا لازمی تھا کہ ہم بجلی اور گیس کی قیمتوں کا تعین کرتے ہوئے ”طلب ورسد“ کے حقائق کا اتباع کر رہے ہیں۔ علم معیشت کے بنیادی اصول کے مطابق صارف کو اس امر پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے زیر استعمال سہولتوں کی واجب قیمت ادا کرے۔ حکومت سے کسی رعایت کی توقع نہ باندھے۔
طلب ورسد کے جس اصول پر توجہ دلائی جا رہی ہے علم معاشیات سے قطعاََ نابلد ہوتے ہوئے بھی میں اسے تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔یہ اصول مگر ان بڑی کمپنیوں پر لاگو کیوں نہیں ہورہا جو مثال کے طورپر سیمنٹ یا کھاد تیار کرنے کے لئے قدرتی گیس بے دریغ انداز میں استعمال کرتی ہیں۔ کھاد کی تیاری کے لئے استعمال ہونے والی گیس کو ریاست کی جانب سے ”قابل برداشت“ رکھا جاتا ہے تانکہ ”غریب کسان“ کی زندگی اجیرن نہ ہو۔وہ اپنی زمین میں کھاد ڈال کر زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرسکے۔سیمنٹ اور ٹیکسٹائل ایسے شعبے بتائے جاتے ہیں جو برآمدات کی بدولت ہمیں غیر ملکی کرنسی کما کردیتے ہیں۔آج تک مگر مجھے کوئی ایک سرکاری اہلکار بھی تفصیل سے نہیں سمجھا پایا کہ ہمارے نام نہاد غیر ملکی کرنسی کمانے والے سیٹھ حکومت سے سستے داموں گیس لینے کی بدولت کمائے منافع میں سے قومی خزانے کو کتنا فائدہ پہنچاتے ہیں اور اس فائدے سے میرے اور آپ جیسے کم آمدنی والوں کی روزمرہّ زندگی میں کونسی آسانیاں یقینی بنائی جاتی ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک کے مقابلے میں سستی ترین گیس حاصل کرنے کے باوجود ہمارے صنعت کار وہ کھاد تیار نہیں کرپائے ہیں جو مثال کے طورپر گندم کی بوائی سے قبل زمین کوزرخیز بنانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔کھاد کی اس قسم کو ہم وسیع پیمانے پر غیر ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔ نومبر کا آغاز ہو چکا ہے اور گندم زیادہ سے زیادہ ر واں مہینے کی 20 تاریخ تک بونا لازمی ہے۔ بازار سے کھاد البتہ تقریباََ نایاب ہوچکی ہے۔منہ مانگے داموں پر بھی دستیاب نہیں ہورہی۔ریگولر اور سوشل میڈیا میں لیکن اس نایابی کا ذکر نہیں ہو رہا۔ فرض کیا کہ کھاد کی نایابی برقرار رہی تو کاشت کار اس کے بغیر ہی گندم کی بوائی کو مجبور ہوگا۔اس کے نتیجے میں بالآخر اس کی پیدوار میں کم از کم 15 سے 20 فی صد کمی ہوگی۔اس کی وجہ سے ہم آئندہ برس ایک بار پھر گندم کے بحران کا سامنا کررہے ہوں گے۔
گندم کی مناسب کھاد کی مدد سے تسلی بخش پیداوار اس لئے بھی لازمی ہے کہ پنجاب کے بے تحاشہ زرعی رقبوں میں جو چاول کی وجہ سے مشہور ہیں اس برس غیر موسمی ڑالہ باری کی زد میں آ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے چاول کی تقریباََ تیار ہوئی فصل تباہ وبرباد ہو گئی۔ گزشتہ تین سے چار برسوں سے ہمارے ہاں چاولوں کی پیداوار میں قابل رشک اضافہ ہورہا تھا۔ اسے بیرون ملک بیچ کر ہمارے سیٹھوں نے خوب مال کمایا ہے۔ان کے پاس آج بھی چاول ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ تعداد میں ذخیرہ ہوئے پڑے ہیں۔وہ مگر چاول کو مارکیٹ میں نہیں لارہے اور گھریلو صارفین کے لئے اس کی قیمت ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔
معاشیات کے ”بنیادی اصولوں“ اور ”بازار کے حقائق“ پر ہم جاہلوں کی توجہ دلانے والے ”ماہرین“نہ جانے اس حقیقت کو دریافت کیوں نہیں کرپاتے کہ پاکستان جیسے نسبتاََ پسماندہ ممالک میں ”اقتصادیات کے بنیادی اصول“ اس انداز میں لاگو نہیں ہوسکتے جو مثال کے طورپر امریکہ اور یورپ کے سرمایہ دار ممالک کا معمول ہے۔”سرکار“ کو ہم جیسے ممالک میں ”مائی باپ“ کا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔”مائی باپ“ کے لئے لازمی ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے کمزور طبقات کو خصوصی شفقت کا مستحق گردانے۔ہمارے ہاں کم آمدنی والے فرد سے تو طلب ورسد کی منطق کے مطابق بجلی اور گیس کی قیمت طلب کی جاتی مگر ”برآمدات“ کے ذریعے غیر ملکی کرنسی کمانے کا ڈھونگ رچانے والے سیٹھوں کے ساتھ خصوصی شفقت برتی جاتی ہے۔
مسلم لیگ (نون) کے سینیٹرڈاکٹر مصدق ملک کئی دنوں سے دہائی مچائے چلے جارہے ہیں کہ ہمارے ہاں کھاد پیدا کرنے والے گیس کی جو قیمت ادا کرتے ہیں اس سے کم از کم دو گنی قیمت سعودی عرب میں کھاد تیار کرنے والے کو ادا کرنا ہوتی ہے۔ موصوف کا اصرار یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں کھاد پیدا کرنے والوں کے منافع کا تناسب 50فی صد کی خیرہ کن حد کو چھورہا ہے۔شاید ہی کسی اور دھندے میں منافع کی شرح اس حد تک حیران کن ہوگی۔کاش اقتصادی امور کے بارے میں جناتی انگریزی میں لکھنے والا کوئی ”ماہر“ اس جانب توجہ دے۔ڈاکٹر مصدق ملک اگر درست ہیں تو 50 فی صد منافع کمانے والوں سے ہم غریبوں کے لئے ”صدقے“ کی صورت کچھ حصہ کیوں طلب نہیں کیا جارہا؟
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر