اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"خواب بینائی کھا گئے” ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجیب سے حالات ہیں۔ سفر حیات کے پینسٹھویں برس میں پچھلے ماہ و سال کی یادیں قطار اندر قطار چلی آتی ہیں۔ مسائل کا سورج سوا نیزے پر ہمیشہ کی طرح سے ہے۔ حالات اور مسائل سے گھبرا کر کتابوں کے اوراق میں پناہ حاصل کرتے طالب علم نے ایک دن فقیر راحموں سے کہا ” یہ ہمارے حصے کے امتحانی پرچہ کے سوالات کب پورے ہوں گے؟”

اس نے طالب علم کی طرف دیکھا اور کہا۔ تمہیں سمجھایا بھی تھا جیون کتھا زیادہ اہم ہے لیکن تم گریباں کو پرچم بنائے اپنے حصے کا سچ بولنے لکھنے پر مصر رہے۔

تو کیا جھوٹ کی چادر اوڑھے منافقت سے سیراب ہوتا رہے آدمی؟ طالب علم نے سوال کیا۔

جواب ملا’ ہم سبھی بھوک نگر کے باسی ہیں۔ بھائیوں بچوں کا گوشت کھاتے رتی برابر ملال بھی محسوس نہیں کرتے۔ چار اور دندناتے پھرتے لوگوں میں سے زیادہ تر ماضی کی مذمت میں وکھری قسم کی انتہا پسندی کے مظاہرے میں مصروف ہیں۔ طالب علم کو لگا کہ فقیر راحموں عصری سیاست کے کوچے میں پھنسانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

کتاب کے اوراق الٹے’ حسین بن منصور حلاج کہہ رہے تھے

” ہم نے تیرے ہونے سے انکار کب کیا۔ اپنے ہونے کا یقین ہی تو تیری ذات کی گواہی ہے۔ میرے دوستو! تم ابھی نہیں سمجھ پا رہے لیکن ایک دن جان لوگے۔ دوئی کوئی چیز نہیں۔ یکتائی ایک حقیقت ہے ”۔

دجلہ کے مغربی کنارے گاڑے گئے ستونوں سے بندھے’ حسین بن منصور حلاج نے پھانسی گھاٹ پر موجود ہجوم کی طرف دیکھا اور کہا

” لوگو! جو بھی اس کی تلاش میں نکلے یہ سوچ لے کہ اسے پانے کے لئے قربانی واجب ہے”۔

اگلا ورق پلٹنے کو تھا کہ سامت یاد آگئے۔ فرعونوں کا باغی سامت ‘ جس نے پھانسی گھاٹ پر موجود تماشائیوں سے کہا تھا

” یاد رکھو آدمی صرف دو وقت کی روٹی کے لئے زندگی کے سفر کی صبح و شام کے مرحلے طے نہیں کرتا’ قوت فیصلہ کے یقین سے محروم لوگوں کا نصیب بد ترین غلامی ہے۔ غلاموں کے ہجوم میں سانس لینے سے بہتر یہی ہے کہ مار دیا جائوں۔”

سامت کی بات جاری تھی کہ فرعون طیامس کے حکم پر جلاد آگے بڑھا اور اس نے پھانسی والا رسہ کھینچ لیا۔ سامت فضا میں تڑپا پھر ٹھنڈا پڑ گیا۔

لاش پھانسی گھاٹ پر لٹکتی رہی تماشائی گھروں کو چل دئیے۔ خاموشی کو ایک بوڑھی آواز نے توڑا۔ لوگوں نے سنا ایک بڑھیا کہہ رہی تھی

” طیامس’ بڑا بہادر بنا پھرتا ہے قبرستان میں آدمی کو پھانسی دے کر”

شاہی ہرکارے نے ایک راہگیر سے پوچھا یہ بڑھیا کون ہے؟ جواب ملا’ سامت کی دادی۔

قبرستان میں آدمی کو پھانسی دینے سے بہادری کا سکہ قائم کرنے والوں کی فہرست بڑی طویل ہے’ پھانسی چڑھنے والے بھی کم نہیں تھے ایک سے بڑھ کر ایک فرزانہ کوئے یار سے نکلا سوئے دار کے سفر کو۔

اس لئے تو سرمد کہتے تھے

"میں ان لوگوں پر حیران ہوتا ہوں جن کی کمریں جھوٹ و منافقت کے بوجھ سے دوہری نہیں ہوتیں بلکہ اکڑ اکڑ کر چلتے ہیں”

فضیل بن عیاض کی یادوں نے دستک دی۔ فضیل کہتے ہیں ” آدمی کا محض زندہ رہنا اور رخصت ہو جانا کافی نہیں حق بندگی یہ ہے کہ آدمی اپنے عہد میں گم ہو جانے کی بجائے بے نوائوں کی آواز بنے”۔

بے نوائوں کی آواز بننے میں امر مانع تو کوئی نہیں بس اس چلن کی بنا پر جو مشکلات مقدر بنتی ہیں ان سے نبرد آزمائی بھی لازم ٹھہرتی ہے۔

 

معاف کیجئے گا یہ جنوں کے قصے ہیں ہم جس عہد نفساں میں جی رہے ہیں اس میں جیتے لوگوں کے لئے دوسروں سے زیادہ اپنی ذات اور خوشیاں عزیز تر ہیں۔

کیوں نہ ہوں آنکھوں میں جو خواب کاشت کئے تھے وہ بینائی کھا گئے۔بینائی ہی نہ ہو تو چار اور کیسے دیکھے بندہ۔

یہاں حالت یہ ہے کہ ماضی کے ماہ و سال اور تعلق لوگوں کو جرم کااحساس دلاتے ہیں اور وہ نئے تعلقوں کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے سارے الزام پچھلے تعلقوں پر دھرے جا رہے ہیں۔

جانے دیجئے رواں عہد کی تلخیوں اور حالات کے جبر و ستم کے قصوں پر نیر بہانے کی بجائے ہم کتاب زندگی کا ورق الٹ لیتے ہیں۔

دو عشروں سے کچھ برس اوپر ہوئے ہوں گے جب ایک سپہر اپنے استاد مکرم سید عالی رضوی کی خدمت میں عرض کیا’ استادمحترم فریب زندگی کو حقیقت مسلسل کیوں سمجھتے ہیں لوگ؟۔

انہوں نے عینک تھوڑی سی کھسکائی اور شیشوں کے اوپر سے طالب علم کو دیکھتے ہوئے کامل محبت و مہربانی سے فرمایا

” مذاہب سے ادب تک ہر چیز ملاوٹ شدہ ہو تو جھوٹ ہی سچ کے طور پر دام کھرے کرتا ہے”

عین ان سموں تلسی داس یاد آگئے۔ طالب علم نے تلسی داس کا کہا استاد مکرم کے حضور عرض کیا۔ جواب ملا تلسی درست کہتے ہیں

” پیٹ کا کنواں بھرنے میں مشقت کرتے بیلوں کی دنیا کھانے، کام اور سستانے کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی”۔

استاد محترم مسکرائے اور پھر شفقت بھرے انداز میں فرمایا۔ لیکن تمہیں یہ بات ہرگز نہیں بھولنی چاہئے کہ زندگی محض جیتے رہنے کو نہیں کہتے’ اصلِ زندگی یہ ہے کہ حاصل مطالعہ میں لوگوں کو شریک کرو۔ ظلم پر خاموشی سے عبارت منافقت سے جی بہلانے کی بجائے اپنی بساط مطابق آواز بلند کرو۔

سیدی رضوی لمحہ بھر کے لئے رکے اور پھر یاد دہانی کراتے ہوئے فرمایا۔

مولائے سید ابوالحسن امام علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا جناب مالک اشترؓ کے نام لکھا مکتوب سال میں دوچار بار پڑھ لیا کرو ۔ جی بہتر طالبعلم نے عرض کیا

یہ سطور لکھ رہاہوں تو حسین بن منصور حلاج ۔ سامت و سرمد اور وہ نابغہء روزگار یاد آرہاہے جس نے جیل کی کال کوٹھری کے عذابوں سے گھبرانے اور معافی نامہ لکھنے کی بجائے کہا تھا ” میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کی بجائے جرنیلوں کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا”

لیجئے مکرر مرشدی بلھے شاہ رح یاد آگئے فرماتے ہیں ” سب سے افضل کام یہ ہے کے تماری زبان سے دوسروں کے جذبات مجروع نہ ہوں بندہ جوچاہے بس میں آنے پر گرادے مگر انسان کا دل نہ توڑے دل رب کا ٹھکانہ ہے ”

یادوں کی دستک جاری ہے اور اوراق ابھی باقی ہیں سانس چل رہاہے ہائے مگر ہمارے عہد کا سچ یہی ہے کہ ” آنکھوں میں کاشت کئے خوابوں نے بینائی کھا لی ”

چار اور نابیناوں کا ہجوم ہے کیا کوئی معجزہ رونما ہوگا ؟

سادہ سا جواب یہ ہے کے

” جاگتی آنکھوں کے خواب فروخت ہوتے ہیں ان کی تعبیریں نہیں ملتیں ”

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: