اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! تیسری قسط!!||ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

سیمی جیسی لڑکیوں پر کبھی محبت کرنے کا شک بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ لجاتی شرماتی تو ہیں نہیں کہ آدمی اندازے لگا سکے۔ سیمی جلتا کوئلہ تھی۔ بھڑکیلا سرخ۔ بھلا اس پر کوئی کیسے شبہ کر سکتا تھا کہ وہ شعلہ اندر ہی اندر جل بجھا ہے۔

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چار حصے، بے شمار کردار، نظریے، فلسفے، سوشیالوجی، جنس، اور کلاس سسٹم، تصوف، نیم مذہب، پیرا سائیکالوجی، سائیکالوجی، اور توہم پرستی کے فریم ورک میں بنا یا گیا یہ ناول؛ پڑھنے میں خاص طور پر نوعمروں اور کچے ذہنوں کے لیے ایسا پر کشش کہ صفحے پر صفحہ پلٹتے جائیں۔ ضروری سے ضروری کام کے لیے اٹھتے اٹھتے بھی دو چار صفحے پڑھ جائیں اور ختم ہونے کے بعد بھی ناول ذہن میں گردش کرتا رہے۔

 

کیوں نہ مزید سمجھنے کی کوشش کرنے سے پہلے مرکزی کرداروں کی پہچان کو تازہ کر لیا جائے۔
پہلی عورت۔ سیمی؛

راوی قیوم کی زبانی : بیس اکیس برس کی لڑکی، شوخ و چنچل، حسین، امیر، بیوروکریٹ کی بیٹی، گلبرگ کی رہائشی۔ دیکھئے مصنفہ اس کا تعارف کیسے کرواتی ہیں۔

 

”پروفیسر سہیل نے نئی کار جیسی اس لڑکی سے سوال کیا، اپنا تعارف کروائیے! وہ چولستانی ہرنی اٹھی، سر میرا نام سیمی شاہ ہے اور میں نے کنیئرڈ کالج سے بی اے کیا ہے۔

سیمی شاہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی۔ اس نے موری بند جینز کے اوپر سفید وائل کا کرتا پہن رکھا تھا۔ گلے میں حمائل مالا نما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔ کندھے پر لٹکنے والے بیگ میں غالباً نقدی، لپ اسٹک، ٹشو پیپر تھے۔ ایک ایسی ڈائری جس میں کئی فون نمبر اور برتھ ڈے درج تھے۔ اس کے سیاہ بالوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔ اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں اس کے بال آگ پکڑنے ہی والے لگتے تھے۔ کلاس میں پہلے دن چھڑنے والی بحث کو خود کشی کی طرف لے کر جانے والی سیمی ہی تھی۔

اس سوال کا جواب دینے کے لئے جب آفتاب اٹھا اس نے اپنے دونوں بازو صلیب کی طرح اٹھائے۔ آدھی آستین والی قمیض میں اس کے دونوں بازو سنہری گھاس سے اٹے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ کھڑکی سے آنے والی روشنی اس کی براؤن آنکھوں میں چمکتے شہد جیسی روشنی پیدا کر رہی تھی اور اس وقت وہ اولمپک کھیلوں میں آگ کی مشعل اٹھانے والے کھلاڑی کی طرح خوبصورت، کنوارہ اور مقدس نظر آ رہا تھا۔ شاید اسی لمحے سیمی نے اس کی طرف دیکھنے کی کوشش کی اور دیوانی ہو گئی۔

سیمی شاہ کو کرسی پر کھڑے آفتاب کے عشق لاحاصل نے سر کر لیا۔ وہ گلبرگ کی ساختہ تھی۔ اس کی ساری عمر کانونٹ سکولوں اور کالجوں میں گزری تھی۔ اپنے خالی اوقات میں وہ انگریزی موسیقی سنتی، ٹائم اور نیوز ویک پڑھتی، ٹی وی پر امریکی سیریز دیکھتی۔ اس کی وارڈ روب میں گنتی کے شلوار قمیض تھے۔ وہ شیمپو، ہیر سپرے، ٹشو پیپر کولون اور سینٹ سپرے کے بل بوتے پر سنگھار کرتی تھی۔ اس نے کبھی لوٹے اور بالٹی سے غسل نہیں کیا تھا۔ بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دختر گلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ وہ ایک کشمیری بچے سے اور وہ بھی اندرون شہر کے رہنے والے سے عین اس وقت جب وہ عشق لاحاصل کا نعرہ لگا رہا تھا، مات کھا گئی۔

اس سے پہلے سیمی اور آفتاب کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔ لیکن اس پیریڈ میں دونوں کی نگاہوں میں استعجاب اترا، پھر پہچان پیدا ہوئی اور ایک ہی سیشن میں سب اعتراف میں بدل گیا۔ کلاس کے بعد دونوں اٹھے، ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلنے لگے اور باہر پہنچ کر سیمی شاہ بغیر کچھ کہے آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ آفتاب نے سوال نہ کیا کہ اسے کہاں جانا ہے اور وہ دونوں کسی فلمی منظر کی طرح آہستہ آہستہ سڑک پر فیڈ آؤٹ ہو گئے۔

سالانہ سپورٹس کے دن سارے کالج میں سیمی اور آفتاب کا سکینڈل تھا۔ اتنی جلدی اس قدر دیدہ دلیری سے کوئی طالب علم کسی لڑکی کی طرف بڑھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

 

سیمی اپنی ہم جماعت لڑکیوں سے مکمل طور پر کٹی ہوئی تھی۔ آفتاب اور سیمی ساتھ ساتھ بیٹھتے تھے ان کے نوٹس سانجھے تھے، کتابیں ایک تھیں وہ ایک پن سے باری باری لکھتے تھے۔ کیفے ٹیریا پر وہ ایک گلاس میں دو سٹرا ڈال کر مشروب پیتے۔ کالج میں سب ایک کی خیریت دوسرے سے پوچھتے۔

سیمی ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتی رہتی یا کھانا چاہتی۔ جب کبھی وہ کلاس میں داخل ہوتی اس کے منہ میں چیونگم ہوتی۔ جونہی پروفیسر کلاس سے جاتا وہ اپنے کینوس کے تھیلے سے سیب نکالتی اور آستین پر رگڑ کر صاف کر کے کھانے لگتی۔ سیب کھانے کا بھی اس کا عجیب طریقہ تھا۔ وہ سیب میں تیکھے دانت اتارتی اور کڑک کی آواز کے ساتھ منہ پرے کر لیتی۔

بھوک کے معاملے میں وہ بہت بودی تھی۔ گھنٹے گھنٹے کے بعد بھوکی ہو جاتی یا یوں سمجھئے کہ یہ اس کا لاڈ تھا۔ شروع شروع میں سیمی ایسی سپورٹی لڑکی نظر آئی کہ کلاس والوں کو شبہ تک نہ ہوا کہ وہ آفتاب کی ہپ پاکٹ میں ہے۔

 

سوشیالوجی کی کلاس میں وہ سب سے باتونی لڑکی تھی۔ پروفیسرز کے نظریات سے ٹکر لینا اور چھوٹے سے لطیفے پر دیر تک ہنستے رہنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ دراصل اس میں خود اعتمادی کا وہ خمیر تھا جس سے اس کی شخصیت کی تمام دل آویزی میں پھول کھل اٹھے تھے۔

سیمی کی ہنسی میں بڑی جنسی کشش تھی۔ وہ عموماً گردن پیچھے کر کے غرغرے کرنے کے انداز میں منہ کھول کر پاٹ دار آواز میں ہنستی۔ ایسے میں اس کے کندھے بازو پیٹ چھاتیاں سب ہلکورے لینے لگتے۔ بناوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ لپ اسٹک، بریزیر اور سینٹوں کے اشتہاروں کی طرح کوئی چیز آپ کو یقین دلاتی تھی کہ قہقہہ محض اشتہار ہے، اصل سیمی اس اشتہار سے زیادہ اچھی ہو گی۔

سیمی جیسی لڑکیوں پر کبھی محبت کرنے کا شک بھی نہیں گزر سکتا۔ وہ لجاتی شرماتی تو ہیں نہیں کہ آدمی اندازے لگا سکے۔ سیمی جلتا کوئلہ تھی۔ بھڑکیلا سرخ۔ بھلا اس پر کوئی کیسے شبہ کر سکتا تھا کہ وہ شعلہ اندر ہی اندر جل بجھا ہے۔

 

سیمی کی ہر بات کو غلط سمجھنا آسان تھا۔ وہ ہر لڑکے کو دلچسپی اور تجسس سے دیکھنے کی عادی تھی۔ جنس مخالف سے ایک خاص حد تک دوستی کو وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتی تھی۔ وہ ان لڑکیوں میں سے تھی جو گھر آئی محبت کو سوغات کی طرح سمجھ کر تھینک یو کہہ کر رکھ لیتی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ کبھی کبھی ایسے رویے سے معتوب عشق اس وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ آگ دونوں طرف ہے اور برابر کی لگی ہے حالانکہ وہ صرف نائس ہو رہی ہوتی ہیں ”۔

یہ بھی پڑھیے

ایک مثالی عورت کیسی ہونی چاہیے

%d bloggers like this: