نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موسم کے سرد ہوتے ہی نگران حکومت نے میرے اور آپ کے گھروں تک پہنچائی گیس کی قیمت میں ہوشربااضافہ کر دیا ہے۔ فرض کیا آپ ماہانہ اس مد میں چار ہزار روپے ادا کیا کرتے تھے تو اب کم از کم آٹھ ہزار روپے کی ادائیگی کیلئے تیار رہیں۔آمدنی جبکہ میرے اور آپ جیسے محدود تنخواہ والوں کے لئے ویسی کی ویسی ہی رہے گی۔مہنگائی کی یہ نئی لہر اس حکومت نے متعارف کروائی ہے جسے انگریزی میں Caretaker کہا جاتا ہے۔ عموماََ یہ اصطلاح ایسے افراد کے لئے استعمال ہوتی ہے جو بچوں یا بوڑھے لوگوں کا ان کے والدین یا قریبی عزیزوں کی عدم موجودگی میں ”خیال“ ر کھتے ہیں۔ نگران حکومت کا رویہ اگرچہ اس میڈ (Maid) جیسا ہو رہا ہے جو ماں کی عدم موجودگی میں اس کے بچے کے لئے مختص اشیاءاور سہولتوں کو اپنی ذات کے لئے استعمال کرلیتی ہے۔یوں اس کا رویہ Caretaker والا نہیں بلکہ Undertakers جیسا ہوجاتا ہے جو قبرستان میں خدمت گزاری کو مامور تصور ہوتے ہیں۔
بہرحال گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے حوالے سے میں اس کالم کے ذریعے آپ کو کئی روز قبل خبردار کر چکا ہوں۔ اس کے علاوہ اطلاع آپ کو یہ بھی دے چکا ہوں کہ اخباروں اور ٹی وی پروگراموں کے ذریعے لوگوں کی ”ذہن سازی“ پر مامور افراد کے لئے حکم حاکم ہے کہ مایوسی نہ پھیلائیں۔”وقت اچھا بھی آئے گا ناصر“ کا جھانسہ دیتے رہیں۔ کئی دہائیوں تک امید پرستی میرے ایمان کا حصہ تھی۔ برے سے برے وقت میں بھی ”لازم ہے کہ ….“ والا نعرہ بلند کرتا رہا۔ اس گما ں میں مبتلا رہا کہ ”نظام کہنہ“ کی دیوار گرنے کو ہے۔اسے بس ”ایک دھکا اور دو“ کے ساتھ اب بآسانی گرایا جاسکتا ہے۔ دھکے مار مار کر مگر اب تھک گیا ہوں اور ”دیوار “مضبوط سے مضبوط تر ہورہی ہے۔ایسے عالم میں ”امید پرستی“ کو افیون کی صورت بانٹ نہیں سکتا۔ اپنا اور آپ کا جی بہلانے کو البتہ پھکڑپن سے مسلسل رجوع کرنا ہو گا۔
پھکڑپن کی تمنا میں توجہ راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراط عصر پر مرکوز ہو گئی ہے۔ آج سے چند روز قبل کئی دنوں کی گمنامی یا روپوشی کے بعد وہ عوام کے روبرو آئے۔ایک ٹی وی انٹرویو کے ذریعے ہمیں مطلع کیا کہ ان کی روپوشی یا سیاسی منظر نامے سے عدم موجودگی کا سبب ”چلہ“ تھا۔ ”چلہ“ ایک ایسی مشق کا استعارہ ہے جو مجھ جیسے گناہ گاروں کو چند دنوں کے لئے دنیاوی امور سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بعد گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر خود شناسی کو اکساتا ہے۔”چلہ“ کی مشق سے گزرنے کے بعد لوگوں کی اکثریت حرص و طمع کی جبلت سے نجات نہ بھی پائے تو کم از کم اسے اپنے قابو میں لانے کے قابل ہو جاتی ہے۔
راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے بقراطِ عصر مگر ”چلہ“ کاٹنے کے باوجود ”وکھری ٹائپ“ کے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ لال حویلی متروکہ املاک ہے۔موصوف نے اسے کئی دہائیوں سے اپنا ”سیکرٹریٹ“ بنارکھا تھا۔ رواں برس کی نو مئی کے واقعات کے بعد مگر وہ اپنی جان بچانے کی خاطر عوام سے کنی کترانا شروع ہو گئے۔ کبھی کبھار ٹویٹر پر کوئی وڈیو پوسٹ کردیتے۔اس کے ذریعے ہمیں یاددلاتے کہ وہ ”اصلی ونسلی“ ہیں۔ عمران خان کے ساتھ تاحیات دوستی نبھائیں گے۔پولیس کے چند افسران کے نام لے کر انہیں خبردار کرتے کہ ان کے ذاتی ملازموں اور قریبی عزیزوں کو تنگ نہ کیا جائے۔پولیس افسران باز نہ آئے تو وقت آنے پر ان سے ہر ظلم کا حساب لیا جائے گا۔
بقراطِ عصر کی گمنامی یا روپوشی کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ اس کے بعد خبر آئی کہ وہ گرفتار ہوگئے ہیں۔گرفتاری کے بعد مگر کسی عدالت میں انہیں پیش نہیں کیا گیا۔ ان کے مداحین نے فرض کرلیا کہ موصوف بلوچستان کے چند ”تخریب کاروں“ کی طرح ”مسنگ پرسن“ ہوچکے ہیں۔”مسنگ پرسن“والے پہلو کو میں نے اگرچہ ایک لمحے کو بھی سنجیدگی سے نہیں لیا۔ پنجاب کے راولپنڈی کی لال حویلی سے ابھرے ”انقلابیوں“کو عموماً”مسنگ پرسن“ بنانے سے اجتناب برتا جاتا ہے۔ربّ کا صد شکر کہ اس حوالے سے میری امید پرستی درست ثابت ہوئی۔چند روز گمنامی یا روپوشی کے بعد وہ ہنستے مسکراتے اچانک ایک ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہو گئے۔وہاں دئیے انٹرویو کے دوران انکشاف کیا کہ وہ خاموشی سے ”چلہ“ کاٹ رہے تھے۔ان کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ چلہ کی ریاضت نے انہیں ایک مختلف یا نیا شخص بنادیا ہے۔
پیر کے دن مگر وہ حرص وطمع ہی کے اسیر سنائی دئے۔ ان کی گمنامی یا روپوشی کے دوران حکام نے لال حویلی کو متروکہ املاک بورڈ کی ملکیت ٹھہراتے ہوئے کسی ”غیر“ کو اس کے استعمال سے روکنے کے لئے ”سیل“ کردیا تھا۔تالہ لگی حویلی کھلوانے بقراطِ عصر عدالت چلے گئے۔پیر کے دن عدالت نے حویلی کو ڈی سیل کرنے کا حکم دے دیا۔ متروکہ املاک بورڈ کے ساتھ گفتگو کے ذریعے اب طے کیا جاسکتا ہے کہ راولپنڈی کے بقراطِ عصر اسے ”عوامی رابطے“ کے لئے مزید استعمال کرسکتے ہیں یا نہیں۔خود سے زبردستی منسوب کی حویلی کی بازیابی کے بعد بقراطِ عصر 9 مئی 2023 کے دن فوجی تنصیبات پر حملہ آور ہوئے افراد کو نہایت حقارت سے ”لعنتی“ پکارتے رہے۔ اچانک انہیں یہ بھی یاد آ گیا کہ ان دنوں کے آرمی چیف بھی ان ہی کی طرح فرزند راولپنڈی ہیں۔ موصوف نے انہیں ”عظیم سپہ سالار“ قرار دیا۔اشاروں کنایوں میں اس خواہش کا اظہار بھی کردیا کہ وہ ان سے ملاقات کے متمنی ہیں۔اگر مطلوبہ ملاقات ہو گئی تو وہ ان معصوم اور غریب کارکنوں کی جاں بخشی کی فریاد کریں گے جو ”لعنتیوں“ کے بہکانے کی وجہ سے پاک فوج سے منسوب عمارت پر حملوں میں ملوث ہوئے۔
جس ملاقات کی تمنا کا اظہار ہوا ہے وہ ہوتی ہے یا نہیں میں اس کے بارے میں تبصرہ آرائی کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ لال حویلی کی بازیابی کے بعد البتہ موصوف نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ راولپنڈی سے قومی اسمبلی کی دوسیٹوں میں سے ایک پر وہ خود اور دوسری پر ان کے بھتیجے اور سیاسی وارث ”پی ڈی ایم“ کے خلاف الیکشن لڑیں گے۔”چلّے“ نے گویا ان صاحب کو سیاست سے کنارہ کشی کو ہرگز مائل نہیں کیا ہے۔ اس کے دوران لال حویلی بازیاب کرنے کی خواہش بھی برقرار رہی۔”چلّے“ نے بلکہ موصوف کو اپنے تئیں راولپنڈی کا ”مہاراجہ“ بنا دیا ہے جو ”عوام کے ووٹوں سے “ اس شہر کو ان کا ذاتی راجواڑہ ثابت کرے گا۔اردو لغت میں ”چلّہ“ کو یقینا اب نئے معنی فراہم کرنا ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر