اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اترائے ہوئے لوگوں کا شہر۔۔۔|| وجاہت مسعود

ضیا آمریت کے دوران داخلی قرضوں کا حجم 58 ارب روپے سے بڑھ کر 1988 میں 521 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ کل قومی پیداوار اور قرضوں میں تناسب 77 فیصد کی حد کو چھونے لگا۔ اس دوران قرضوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اخراجات پر کٹوتی لگائی گئی۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پت جھڑ کی رت ہے، بارش کا نشان نہیں۔ آلودہ دھند نے آسمان سے ابتدائی سرما کی روپہلی دھوپ چھین لی ہے۔ آنکھ اٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر ایک نامعلوم پرچھائیں کی چادر تنی ہے۔ بصیرت کا دامن تو مدت ہوئی تار تار ہو چکا، بصارت کا دائرہ بھی چشم حسود کی طرح تنگ ہو رہا ہے۔ صحافت کے پر کٹے طیور کی زبانی خبر ہے کہ رواں سہ ماہی کے اختتام تک عام انتخابات کا امکان پایا جاتا ہے۔ جمہوری بندوبست میں انتخابات کا موسم امید کے امکانات لیے نمودار ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں، معیشت، معاشرت اور بندوبست حکومت کے متبادل نمونے پیش کرتی ہیں۔ ہمارا معاملہ مختلف ہے۔ سازش، افواہ اور بے یقینی کے طویل سفر نے ہمیں اعتماد کا لامتناہی بحران بخشا ہے۔ سیاسی قیادت اور عوام میں نامیاتی ربط ہی موجود نہیں۔ سات دہائیوں سے سیاسی رہنماؤں کو بدعنوان، نا اہل اور قومی مفاد کی راہ میں رکاوٹ قرار دینے کی ناشدنی روایت سے جنم لینے والی اجتماعی نفسیات کو سیاسی عمل پر یقین ہے اور نہ جمہوریت پر اعتماد۔

 

جس جوش سے اہل فلسطین کے لیے آنسو بہائے جا رہے ہیں اسی شدت سے ملکی حالات میں بہتری کے لیے مسیحا اور معجزے کا انتظار ہو رہا ہے۔ فلسطین کے آتش و آہن کی بارش میں محصور مظلوموں کو ہمارے بے معنی بیانات اور خوش عقیدہ دعاؤں سے جو مدد مل سکتی ہے قریب ایسا ہی فائدہ ہماری سیاست کے دبیز پردوں میں مخفی پخت و پز سے پاکستانی عوام کے معیار زندگی کو پہنچ سکتا ہے۔ نان شبینہ، بنیادی ضروریات اور تعلیم سے محروم عوام تو ایک طرف، تعلیم یافتہ طبقے کا علمی معیار بھی ایسا بلند ہے کہ ان کی اکثریت اسرائیل اور فلسطین کے جغرافیائی اور تاریخی حقائق جانتی ہے اور نہ اپنے ملک کی معیشت کے خدوخال۔

ہماری ایک نسل اتاترک کمال پاشا اور سٹالن کے عشق میں مبتلا رہی، مسولینی، لینن اور ہٹلر کے قصیدے لکھے گئے۔ اگلی نسل جمال ناصر، ماؤزے تنگ اور ہوچی منہ کی مدح کے لئے وقف رہی۔ اسلامی سربراہ کانفرنس نے ہمیں شاہ فیصل، یاسر عرفات اور قذافی کے سنگی بت عطا کیے۔ خمینی، صدام، مہاتیر محمد اور اسامہ تو ابھی کل کی بات ہیں۔ ہم عصر دنیا کو سمجھے بغیر صنم تراشی کی اسی بے معنی مشق سے مقامی شعبدہ باز برآمد ہوئے۔ جمہوریت کی دیوار گریہ پر عمران خانی گولے کا شگاف تو سب کو نظر آتا ہے، یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ کینیڈا والے طبیب حاذق نے 2014 کے بعد اس ملک کی خبر کیوں نہیں لی۔ بنات امہ کو الہدیٰ کی راہ دکھانے والی فرحت ہاشمی بھی مدت سے کینیڈا میں مقیم ہیں۔ استاد دامن کے لفظوں میں جاگنے والوں نے سوئے ہوؤں کو جی بھر کے لوٹا ہے۔ اہل سیاست کی لوٹ مار تو برفانی تودے کا بالائی حصہ ہے۔ قوم کے خلاف حقیقی، سیاسی اور معاشی جرائم کی ہمیں خبر تک نہیں۔

 

1947 میں پاکستان بنیادی طور پر زرعی معیشت تھا۔ مغربی پاکستان کی آبادی ساڑھے تین کروڑ اور خواندگی کی شرح دس فیصد تھی۔ ملکی معیشت میں زراعت کا حصہ 53 فیصد تھا۔ صنعتی شعبہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ابتدائی برسوں میں درآمدات کی بجائے مقامی صنعتی بنیاد کو ترقی دینا حکومت کی معاشی پالیسی تھی۔ 1951 میں کولمبو پلان کی آمد اور کوریا کی جنگ سے تجارتی منافع میں اضافہ ہوا۔ پاکستان کا شمار تیزی سے ترقی کرنے والی اقوام میں ہونے لگا۔ ایوب آمریت کے دوران درآمدات کے لائسنس اور برآمدات پر بونس واؤچر کے اجرا سے مخصوص طبقے کو معاشی اجارہ حاصل ہوا۔ بیج، کھاد اور مشینی زراعت کے باعث زرعی شعبے میں سالانہ 7.7 فیصد اضافہ ہو رہا تھا۔ تاہم ملک کے مشرقی اور مغربی حصے میں معاشی تفاوت بڑھ رہا تھا۔ 60 ءکی دہائی میں امریکی امداد شروع ہوئی۔ معاشی ترقی کے پرفریب منظر کے پس پردہ مشرقی پاکستان کا معاشی استحصال، غیر ملکی امداد اور سبز انقلاب کے نتائج کارفرما تھے۔ اس عرصے میں مینو فیکچرنگ کا شعبہ 16 فیصد سالانہ کی رفتار سے ترقی کر رہا تھا۔ ستمبر 1965 کی سترہ روزہ جنگ نے معاشی ترقی کی رفتار پر کاری ضرب لگائی۔ ملک دولخت ہونے کے بعد صنعتیں قومیانے کی پالیسی نے رہی سہی کسر نکال دی۔ پٹ سن کی برآمد ہاتھ سے نکل گئی اور اس کی بجائے غریب ماؤں کے بچے خلیجی ممالک کو برآمد کیے گئے۔ 80 ءکی دہائی میں معاشی ترقی کا سراب دراصل افغان جنگ کے نتیجے میں ملنے والے ڈالروں سے عبارت تھا۔

ضیا آمریت کے دوران داخلی قرضوں کا حجم 58 ارب روپے سے بڑھ کر 1988 میں 521 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ کل قومی پیداوار اور قرضوں میں تناسب 77 فیصد کی حد کو چھونے لگا۔ اس دوران قرضوں کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوا چنانچہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اخراجات پر کٹوتی لگائی گئی۔ نتیجہ یہ کہ انسانی سرمائے کی ترقی کو شدید دھچکا پہنچا۔ 90 ء کی دہائی کی عکسی جمہوریت قرضوں کے بحران، افراط زر، مالی خسارے، بیروزگاری اور غربت میں اضافے سے دوچار رہی۔ آمریت جوابدہ حکومت نہیں ہوتی۔ ایسے بندوبست میں نمائشی ترقی کے پس پشت حقیقی معاشی بنیادوں میں پھیلتی ہوئی دیمک نظر نہیں آتی۔ 2008 ء میں ملکی معیشت کا کل حجم 191 ارب ڈالر تھا جو 2013 ء میں 260 ارب تک پہنچ گیا۔ نواز حکومت کے پانچ برس میں معیشت 356 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ 2020ء میں کووڈ سے متعلقہ بیرونی اعانت کے باوجود ملکی معیشت تیزی سے سکڑنے لگی اور آج 340 ارب ڈالر پر کھڑی ہے۔ گویا آج ملکی معیشت کا کل حجم 2018ء سے بھی کم ہے۔ 2018 میں فی کس آمدنی 1621 ڈالر تھی جو 2023 میں 1471 ڈالر رہ گئی ہے۔ یہ قومی معیشت کے چند بنیادی خد و خال ہیں۔ کیا ہماری سیاست پراجیکٹ عمران کے پندرہ برسوں میں نادیدہ قوتوں کے ہاتھوں پہنچنے والے معاشی اور تمدنی بحران پر قابو پا سکتی ہے؟ کسی سیاسی جماعت نے ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں دیا۔ ہم شخصی کرشموں کے اسیر اپنے حقیقی معاشی حقائق بھی نہیں جانتے اور آنے والے برسوں میں سیاست کی شاہراہ دھند آلود ہے۔

آسمان اپنا، زمیں اپنی، نہ سانس اپنی تو پھر
جانے کس بات پہ اترائے ہوئے لوگ ہیں ہم

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

%d bloggers like this: