مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فیکلٹی برائے ادبیات و علوم انسانی اور فردوسی کی یاد(25)۔۔۔||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جہاں ادب اور انسانی علوم کا شعبہ ہو اور وہاں داخل ہونے سے پہلے آپ فردوسی کا مجسمہ دیکھ لیں تو آپ کی کیا کیفیٹ ہو گی یہ تو کوئی فردوسی کا عاشق ہی بتا سکتا ہے۔ ابوالقاسم فردوسی طُوسی ایک ہزار 83 سال قبل 940ء میں خراسان کے شہر پاژ میں پیدا ہوئے۔ پھر وہ پاژ سے طوس آگئے اور اس وقت طُوس اور پاژ دونوں مشہد کا حصہ بن چکے ہیں۔اس وقت مشہد کے چوک ، میدانِ جانباز سے ذرا آگے پاژ شاپنگ سنٹر شہر کا بہت مصروف بازار ہے۔ فردوسی اور فارسی ادب کا لازوال ادبی شہپارہ شاہنامہ ہے۔ اسے آپ بادشاہوں کی داستان کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح 740 قبلِ مسیح کے یونانی شاعر ہومر نے اپنی طویل لازوال نظم اوڈیسی لکھ کر یونانی زبان وادب اور ثقافت کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا بالکل اسی طرح ہومر کے ٹھیک 16 صدیاں بعد پیدا ہونے والے فردوسی نے فارسی زبان و ادب اور تہذیب وثقافت کو ہمیشہ کیلئے امر کر دیا۔ فردوسی سامانی سلطنت کے دور میں ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس سلطنت کا دارالحکومت پہلے سمرقند تھا اور بعد میں چند برسوں کیلئے بخارا بھی رہا۔ یہ سلطنت فردوسی کی زندگی میں ہی 999ء میں زوال کا شکار ہوئی اور اس کا آخری بادشاہ احمدبن اسد عبدالملک دوئم تھا۔بعد میں سلطان محمود غزنوی نے خراسان کو فتح کرکے اپنی قلمرو میں شامل لرلیا۔فرودسی شاہنامہ لکھ کر محمود غزنوی کے دربار میں آیا تھا اور اسے شاہنامہ پیش کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ غزنوی کا درباری شاعر تھا۔
سلطان محمود غزنوی اور فردوسی کا قصہ عجیب ہے۔ اسے آپ بھی سن لیں۔ جب فردوسی نے نامکمل شاہنامہ کے بعض اشعار غزنوی کو سُنائے تو غزنوی نے کہا کہ اس شاہنامہ کی تکمیل کے بعد اس ایک ایک شعر کے انعام کے طور پر سونے کی ایک ایک اشرفی پیش کی جائے گی۔ فردوسی نے 60 ہزار اشعار لکھ کر شاہنامہ مکمل کیا۔ غزنوی کو اس قدر سونا دینا کچھ بھاری لگا اس نے فردوسی کو چاندی کی اشرفیاں بھجوائیں۔ جب چاندی کی اشرفیاں پہنچیں تو فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا۔ وہ باہر نکلا تو اسے چاندی کی اشرفیوں کا پتہ چلا۔ اس نے اپنی ناراضگی کے اظہار کے طور پر وہ اشرفیاں حمام کے مالک کو دے دیں۔ جب چاندی کی اشرفیاں لے جانے والے قاصد نے محمود غزنوی کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی تو اس نے فردوسی کو دربار میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ مگر فردوسی قاصد کے آتے آتے غزنی سے طُوس چلا گیا تھا اور پھر وہ زندگی بھر وہیں رہا۔ بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ غزنوی کو اپنی وعدہ خلافی پر ندامت محسوس ہوئی اور اس نے سونے کی 60 ہزار اشرفیاں طُوس بھجوائیں۔ مگر جب اشرفیاں فردوسی کے گھر پہنچیں تو اس وقت فردوسی کا جنازہ اُٹھایا جا رہا تھا۔

   
ہم فردوسی کے مجسمے کے سامنے احتراماً گردن جھکا کر فیکلٹی برائے ادبیات کے دروازے پر پہنچ جاتے ہیں۔ ڈاکٹر علی شہیدی ہماری رہنمائی کر رہے ہیں۔ وہ ہمیں ایک کانفرنس ہال میں لے آتے ہیں۔ اس کانفرنس ہال کی صدارتی نشست کے پیچھے آیتہ اللہ خمینی اور آیتہ اللہ خامنہ ای کی ایک ہی فریم میں تصویر لگی ہوئی ہے۔ اس فریم کے بالکل نیچے گھڑی وقت کا اعلان کر رہی ہے۔ اس وقت صبح کے 11 بج کر 42 منٹ ہو رہے ہیں۔ گویا ابھی دوپہر ہونے میں چند منٹ باقی ہیں۔ ڈاکٹر شہیدی ہمیں اپنی اپنی نشستیں سنبھال لینے کیلئے کہتے ہیں۔ یہاں پر ہمیں فیکلٹی برائے ادبیات کے بارے میں بریفنگ دی جاتی ہے۔ یہ شعبہ یونیورسٹی کے قیام کے ساتھ ہی1935ء میں قائم ہوا تھا۔ 1958ء میں یہ شعبہ یونیورسٹی کی نئی عمارت میں منتقل ہوا۔شروع شروع میں یونیورسٹی آف تہران کی 6 فیکلٹیز تھیں جن میں سے ایک یہی فیکلٹی برائے ادبیات و انسانی علوم بھی تھی۔یہ فیکلٹی 1937ء سے ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کیلئے طلباء سے ریسرچ کا کام لے رہی ہے۔ پھر اس یونیورسٹی کو فارسی انسائیکلوپیڈیا تیار کرنے کو کہا گیا۔ بیسویں صدی کے فارسی کے نامور شاعر، ممتازمحقق، بے مثل ادیب اور اہم ماہر تعلیم علی اکبر دھخدا نے نومبر 1956ء میں لغت نامۂ دھخدا کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔قبل ازیں 1953ء سے ایک مستند مواد پرمشتمل تحقیقی جریدے کی اشاعت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ اب اس فیکلٹی سے زبان کی تحقیق، فارسی ادب، فلسفہ، مطالعۂ آثارِ قدیمہ، تاریخی علوم کی تحقیق، عربی ادب، ایرانولوجی اور ادبی تنقید پر الگ الگ جرائد شائع کئے جاتے ہیں۔
ہمیں بتایا گیا کہ اس فیکلٹی میں 12 شعبہ جات میں ماسٹرز کے پروگرام کرائے جاتے ہیں جن میں آرکیالوجی، تاریخ، سوشیالوجی، چینی زبان، روسی زبان، جرمن زبان وادب، انگریزی زبان و ادب، عربی زبان و ادب، فارسی زبان و ادب، فرانسیسی زبان و ادب اور فلسفہ شامل ہیں۔

Advertisement

 

 

ہماری اس فیکلٹی کے مختلف ارکان اور پروفیسر صاحبان سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔ ہمیں پروفیسر افخامی بتاتے ہیں کہ وہ 40 سال سے شعبۂ لسانیات میں پڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ پہلے شعبۂ اردو میں بھی رہے۔ جب 18 سال پہلے وہ اس فیکلٹی کے ڈین تھے تو اُن کے زمانے میں پاکستان سے بہت سے طلباء نے اس فیکلٹی کے مختلف مضامین میں داخلے لئے تھے۔ پروفیسر محمود فیضی بھی ہمیں بہت متاثرکن شخصیت محسوس ہوئے۔ ڈاکٹر پوفیسر الیہائی نے بھی دلچسپ گفتگو کی۔ فیکلٹی کے ڈین پروفیسر عبدالرزاق تاخیر سے آئے۔ انہوں نے اپنی مصروفیات کے باعث دیر سے آنے پر افسوس کا اظہار کیا۔ یہاں پر کانفرنس ہال میں پروفیسر فراسیف، پروفیسر الحیرجان، ڈاکٹر فدایان اور ڈاکٹر اعظمی سے بھی ہمارا تعارف ہوا۔ ہمیں ملٹی میڈیا کے ذریعے پاور پوائنٹ پر اس فیکلٹی کے بارے بعض ضروری تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا، جن کا ذکر پہلے فیکلٹی کے تعارف میں کیا جاچکاہے۔ اس کانفرنس ہال میں ہماری چائے، بسکٹ اور پانی سے تواضع کی گئی۔
کچھ دیر تک یونہی غیررسمی سی بات چیت کرنے کے بعد ہم اس کانفرنس ہال سے اُٹھ آئے۔ ڈاکٹر علی شہیدی اب بھی ہمارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ گویا انہوں نے اب بھی ہمیں ہمارے گائیڈ علی فاطمی کے حوالے کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ڈاکٹر علی شہیدی نے کانفرنس سے باہر نکل کر میرا بازو تھام لیا اور سامنے ایک بڑے دروازے کی طرف چل دیئے۔اس دروازے کے دائیں جانب اوپر آیتہ اللہ خمینی اور بائیں جانب آیتہ اللہ خامنہ ای کی رنگین تصاویر لگی ہیں۔دروازے کے اوپر جلی الفاظ میں تالار فردوسی لکھا ہوا ہے اور اس کے نیچے قدرے باریک الفاظ میں”ورودی 1″ لکھا ہوا ہے۔ گویا یہ فردوسی آڈیٹوریم کا دروازہ نمبرایک ہے۔ (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: