مئی 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ڈسکہ میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار شاہد لطیف کون ہے؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے علاقے منڈیکی میں واقع ’’مسجدالنور‘‘ میں بدھ (11اکتوبر) نماز فجر کی ادائیگی کے دوران ہونے والی فائرنگ میں 2 نمازی جاں بحق اور مسجد کے پیش نماز (امام مسجد) سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ کی ابتدائی اطلاعات کے ساتھ ہی کچھ فرقہ پرستوں نے اپنی دکانیں کھولنا شروع کی ہی تھیں کہ ایک نئی اطلاع کے باعث نہ صرف یہ دکانیں بند ہوگئیں بلکہ جتنے منہ اتنی باتیں والی صورتحال پیدا ہوگئی۔

بدھ کی نماز فجر کے وقت مسجد کے اندر فائرنگ کرنے والے تینوں افراد بھی ایک اطلاع کے مطابق نمازیوں میں شامل تھے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق نماز فجر کے وقت چھ سات افراد تین موٹرسائیکلوں پر مسجد النور پہنچے ان میں تین افراد وضو کے بعد نماز میں شریک ہوئے۔ بعدازاں انہی تین افراد نے فائرنگ کی جس سے دو نماز جاں بحق اور امام مسجد سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے۔

پاکستان میں جہاں مسجدوں اور دوسری عبادت گاہوں پر اس طرح کے حملے معمول کا حصہ سمجھے جاتے ہیں منڈیکی ڈسکہ کی مسجد النور میں نماز فجر کے دوران ہونے والی فائرنگ اور اموات کی خبر فوری طور پر مختلف مقامی و بین الاقوامی میڈیا ہائوسز کے لئے اہمیت اختیار کرگئی۔

اس واقعہ کی اہمیت غالباً اس لئے بن گئی کہ نمازیوں پر فائرنگ میں جاں بحق ہونے والے دو افراد میں سے ایک شاہد لطیف (مولانا شاہد لطیف) بارے بتایا جاتا ہے کہ وہ کالعدم جیش محمد کے اہم کمانڈر تھے۔ آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے مولانا شاہد لطیف مسجد النور کے انتظامی سربراہ کے طور پر معروف تھے۔

وقوعہ والے دن سوشل میڈیا پر مقتول شاہد لطیف کو کالعدم جیش محمد پنجاب کا نائب امیر (کمانڈر) بھی بتایا گیا۔ البتہ یہ درست ہے کہ وہ پچھلے دو عشروں سے کالعدم جیش محمد سے منسلک تھے۔

ابتداً وہ جموں و کشمیر میں سرگرم عمل ایک جہادی تنظیم حرکت المجاہدین کا حصہ تھے۔ حرکت المجاہدین کی جانب سے ہی وہ 1993ء میں آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے اور پھر لگ بھگ 1997ء میں انہیں بھارتی سکیورٹی فورسز نے گرفتار کیا۔ سری نگر اور پھر بھارتی جیل بنارس میں ان کے جیش محمد سے تعلق رکھنے والے قیدیوں سے مراسم قائم ہوئے اور وہ حرکت المجاہدین کی بجائے کالعدم جیش محمد سے منسلک ہوگئے۔

اس فکری و تنظیمی تبدیلی کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی رہی ہے کہ شاہد لطیف کو شکوہ تھا کہ جس شخص کی مخبری پر وہ بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے حرکت المجاہدین نے اس شخص کے خلاف اعلان کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی۔

شاہد لطیف کی حرکت المجاہدین سے علیحدگی بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حرکت المجاہدین میں جنم لینے والے اندرونی اختلافات سے ہوئی گروہ بندی میں تنظیم کے ایک معروف کمانڈر سجاد افغانی کے گروپ کا حصہ تھے۔ اس گروپ کے زیادہ تر لوگ آگے چل کر مسعود اظہر کی جیش محمد کا حصہ بنے۔

گرفتاری اور ابتدائی تحقیقات کے بعد انہیں بھارت کی بنارس جیل منتقل کردیا گیا۔ 1999ء میں بھارتی طیارہ اغوا کرکے قندھار افغانستان لے جانے والوں نے جن 40 افراد کی بھارتی جیلوں سے رہائی کا مطالبہ کیا ان میں یہ بھی شامل تھے لیکن بھارت مسعود اظہر سمیت افراد 5 افراد کو رہا کرنے پر رضامند ہوا۔

شاہد لطیف 2010ء میں بھارت سے رہا ہوکر واپس پاکستان آئے ان کی رہائی اور پاکستان واپسی پر ان کی ساقبہ تنظیم کے ساتھ خود کالعدم جیش محمد کے اندر سے بھی بعض سوالات اٹھائے گئے۔ اپنی زندگی میں انہوں نے ان سوالات اور اپنے سابق دوستوں کے بعض اعتراضات کا جواب دینے سے گریز کیا۔

2012 ء میں حرکت المجاہدین اور کالعدم جیش محمد کے درمیان مالیاتی اور چند دیگر امور پر جنم لینے والے تنازع میں بھی انہوں نے خود کو اس معاملے سے الگ تھلگ رکھا۔

اسی طرح کا تنازع دونوں تنظیموں میں 2009-2010ء میں بھی سرپھٹول کا سبب بنا تھا۔

البتہ یہ امر اپنی جگہ ہے کہ ان کی بنارس جیل سے رہائی اور پاکستان واپسی کا پس منظر راز ہی رہا۔

شاہد لطیف کو بھارتی حکومت نے 2016ء کے پٹھانکوٹ ایئربیس والے واقعہ کے بعد درج کرائے جانے والے تین مقدمات میں ملزم نامزد کیا تھا۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ تھا کہ شاہد لطیف پٹھانکوٹ واقعہ کے منصوبہ کاروں میں شامل تھے۔ پٹھانکوٹ ایئربیس حملہ نے بھارت کی داخلی سکیورٹی کی بنیادیں ہلادی تھیں ۔

اس حملے کے بعد سترہ گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے مقابلہ میں بھارت کے مطابق 9 حملہ آور اور 6 بھارتی سکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گئے تھے۔ بھارت نے پٹھانکوٹ واقعہ کےبعد درج کرائی گئی تین ایف آئی آرز کی بنیاد پر شاہد لطیف کا انٹرپول سے ریڈ وارنٹ بھی جاری کروایا تھا۔

چند دن قبل آزاد کشمیر میں بھی کشمیری تحریک کے ایک رہنما ابو قاسم کو قتل کیا گیا تھا۔ ان کا تعلق کالعدم لشکر طیبہ سے تھا۔ اس سے قبل کالعدم جیش محمد کے ابراہیم مستری، حزب المجاہدین سے تعلق رکھنے والے امتیاز عالم بھی اسی طرح کی ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق ہوئے تھے۔

پاکستان اور آزاد کشمیر میں موجود کشمیر کی جہادی تنظیموں کے جن رہنمائوں کو اب تک ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا شاہد لطیف سمیت یہ سبھی پچھلے چند برسوں سے جہادی سرگرمیوں سے دور اور غیرفعال تھے۔

قتل ہونے والے ان کشمیری تحریک کے کمانڈروں سے قبل افغان شہریوں کے ذریعے چند برس پہلے جوہر ٹائون لاہور میں کالعدم لشکر طیبہ کے بانی پروفیسر حافظ محمد سعید کی ایک اقامت گاہ پر بھی حملہ ہوا تھا اس حملے میں بارود سے بھری گاڑی استعمال کی گئی تھی۔ تب بھارتی ذرائع ابلاغ دعویدار تھے کہ اقوام متحدہ کی جاری کردہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل لشکر طیبہ کے بانی حافظ سعید جیل کی بجائے جوہر ٹائون میں اپنی تیسری اہلیہ کے ساتھ مقیم ہیں۔

اس دعوے کے درست یا غلط ہونے کی بحث سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کشمیری تحریک مزاحمت میں شریک تین مختلف تنظیموں کے جو چار افراد ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہوئے وہ ماضی میں اپنی تنظیموں کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے تھے مگر اب وہ پچھلے چند برسوں سے زندگی کے مختلف شعبوں میں مصروف عمل تھے جیسا کہ شاہد لطیف منڈیکی کی مسجد النور کے انتظامی سربراہ تھے۔ وہ مسجد اور قیام گاہ کے علاوہ تین چار برسوں سے بہت کم کہیں جاتے تھے۔

بعض تجزیہ نگار بھارتی پنجاب کی خالصتان تحریک اور کشمیری تحریک میں شامل تنظیموں میں اہمیت رکھنے والے ماضی کے معروف کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کو ایک ہی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ بظاہر یہ قابل غور معاملہ ہے۔

ماضی میں جس طرح جوہر ٹائون لاہور میں حافظ سعید کی ایک اقامت گاہ پر حملہ ہوا اور پھر پچھلے چند برسوں میں کشمیری تحریک کا حصہ رہنے والے بعض کمانڈروں کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی اس سے سوالات کا جنم لینا یا چند تجزیہ کاروں کا یہ کہنا کہ بھارت، مشرقی پنجاب اور کشمیری تحریک سے منسلک بعض لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ کے پیچھے ہے والی بات کو محض ہوائی کہہ کر رد کرنا مشکل ہے۔

منڈیکی ڈسکہ کی مسجد النور کے حالیہ واقعہ پر سیالکوٹ کے ڈی پی او کا کہنا ہے کہ اسے دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کہا جاسکتاہے۔ مزید تفتیش جاری ہے۔

یہ امر البتہ درست ہے کہ شاہد لطیف بھارت کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے۔ بھارت کی درخواست اور پیش کردہ شواہد پر ہی انٹرپول نے ان کے ریڈ وارنٹ جاری کئے تھے۔ بادی النظر میں یہی لگتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے لئے ادائیگی نماز کے مرحلہ کا انتخاب اس لئے کیا گیا کہ یہ ہدف کے حصول کا آسان طریقہ ہے۔

تین حملہ آور خود بھی نمازیوں کی صف میں شامل تھے جبکہ تین یا چار وقوعہ کے وقت مسجد کے باہر کھڑے رہے۔ واقعہ کے بعد وہ اطمینان کے ساتھ موٹرسائیکلوں پر سوار ہوکر فرار ہوئے۔ ایک طرح سے یہ واقعہ طویل ریکی سے حاصل اطمینان کا نتیجہ لگتا ہے۔

حملہ آوروں اور ان کے پیچھے موجود منصوبہ سازوں کے پاس شاہد لطیف کی آمدورفت بارے مکمل معلومات تھیں۔ بی بی سی اردو ایک ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شاہد لطیف کے ایک قریبی عزیز نے دعویٰ کیاہے کہ انہیں کچھ عرصہ سے دھمکیاں مل رہی تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کردی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: