مئی 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سنٹرل لائبریری : ایرانی دانش اور انقلاب پہلو بہ پہلو(22)||نذیر لغاری

نذیر لغاری سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نامور صحافی اور ادیب ہیں اور مختلف قومی اخبارات ، رسائل ،جرائد اور اشاعتی اداروں میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں ، ان کی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم تہران یونیورسٹی کی لائبریری کی صدر ڈاکٹرفاطمہ ثقفی، ڈاکٹر نادر نقشینی، ڈاکٹر علی شہیدی، یزدان، علی فاطمی اور محمد بھائی کے ہمراہ لائبریری کی نشست گاہ سے اُٹھ کر باہر آگئے اور سنٹرل لائبریری کے شعبۂ مخطوطات کی جانب چل دیئے۔ یہاں پر سائنس، ٹیکنالوجی اور ادب کے مختلف شعبوں پر کتب اور مخطوطات کا وسیع ذخیرہ موجود ہے۔ اس لائبریری میں دس لاکھ فارسی کتب کے علاوہ ایک لاکھ 20 ہزار کتب انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، روسی، لاطینی اور دیگر زبانوں میں کتب موجود ہیں۔ 1967ء میں اس لائبریری نے لائبریریوں کے بین الاقوامی وفاق کی رکنیت حاصل کی۔ ڈاکٹر فاطمہ ثقفی نے ہمیں یونیورسٹی کی اس لائبریری کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں پرتاریخی دستاویزات، قلمی نسخوں، تاریخی تصاویر، نایاب کتب اور بعض نادر مجموعوں کی ترتیب، تدوین، فہرست سازی اور دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ یہاں پر ادب، مذہبیات، طب ، قانون ، سائنس، سماجی علوم، شاعری اور دیگر علوم پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں پر مائیکروفلم کی فہرستوں کی تین جلدیں، مخطوطات کی فہرستوں کی 21 جلدیں، تحقیقی مقالہ جات کی مدون کی گئی دو جلدیں موجود ہیں۔ وہ ہمیں ساتھ لے کر قلمی نسخوں کے شعبہ میں لے آتی ہیں۔ یہاں پر بھی پورے شعبہ کو خواتین دیکھ رہی ہیں۔ ایک بار پھر ہمیں خواتین کے زیادہ مقتدر ہونے کا احساس ہوتا ہے۔مخطوطات کا شعبہ لائبریری کی عمارت کی چوتھی منزل پر دو بڑے ہالوں میں قائم کیا گیا ہے، جہاں پر کام کرنے والا عملہ ہاتھوں پر یوں دستانے چڑھا کر کام کر رہا ہوتا ہے، جیسے ہمارے ہاں اسپتالوں کا طبی عملہ مریضوں کے معائنے سے پہلے ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیتا ہے۔ لائبریری کی پہلی منزل پر نصیرالدین طوسی ہال میں نایاب کتب کا ذخیرہ رکھا گیا ہے۔ اس شعبہ کی ڈائرکٹر پاریسا کرم رضائی نے ہمیں اپنے شعبہ کی کئی کتب دکھائیں۔ ہم مخطوطات کو نہایت احتیاط سے دیکھتے رہے اور ہمیں باربار ہمارے اردو کے نابغۂ روزگار شاعر مرزا غالب یاد دلاتے رہے
لےسانس بھی اہستہ کہ نازک ہےبہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
اس لائبریری میں آنے اور یہاں سے استفادہ کرنے والوں کیلئے بڑی سہولتوں اور آسائشوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ اگر واقعی یہاں پر کوئی ریسرچ کیلئے آتا ہے تو عملہ مطلوبہ مواد اور کتب تک رسائی میں بہت معاون اور مدد گار ثابت ہوتاہے۔ کتابوں کی فہرست سازی اس لائبریری کا خاص موضوع ہے۔ یہاں الگ الگ علوم کے الگ الگ شعبوں کی الگ الگ زبانوں میں کتب کی علیحدہ علیحدہ فہرست سازی کی گئی ہے۔ آپ کو کس علم کے کس موضوع پر کس زبان میں کیسی کتاب کی ضرورت ہے، لائبریری کا عملہ ہمہ وقت آپ کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے۔

    

Advertisement


ڈاکٹر فاطمہ ہمیں ریکارڈ سیکشن میں لے آئیں۔ یہاں پاکستان کے سربراہوں کے دورۂ پاکستان کے بارے میں کئی تصویری البم رکھے ہوئے تھے۔ ایک البم پاکستان کے آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر اسکندر مرزا کے دورۂ ایران کی تصویروں پر مشتمل تھا۔ ان کا اہلیہ ناہید مرزا کا تعلق ایران سے تھا۔ناہید مرزا نے پوری ایک صدی کی زندگی پائی۔ وہ 1919ء میں پیدا ہوئیں اور 2019ء میں فوت ہوئیں۔ وہ تہران میں پیدا ہوئیں اور اُن کا انتقال لندن میں ہوا۔ پیدائش کے وقت اُن کا نام ناہید امیر تیمور رکھا گیا، بعدازاں اُن کا نام اُن کے بنگالی شوہر اسکندر مرزا کی نسبت سے ناہید مرزا رکھا گیا۔ ناہید ایرانی اشرافیہ کے ایک اہم نمائندے امیرتیمور کالیلی کی صاحبزادی تھیں۔ناہید مرزا کی دادی شہزادی اشرف السلطانہ ایران کے بادشاہ محمد شاہ قاجار کی پوتی تھیں۔ ہمیں جو البم دکھائی گئی اس میں سابق شاہ ایران رضا شاہ پہلوی اور اسکندرمرزا کو بہت ہی خوشگوار موڈ مختلف تقریبات میں شریک ہوتے دکھایا گیا۔ ایسی ہی ایک اور البم پاکستان کے دوسرے فوجی صدر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورۂ ایران کے دوران مختلف مواقع پر لی گئی تصاویر پرمشتمل تھا۔ ایوب خان غیرملکی دوروں میں اپنی اہلیہ کو ساتھ نہیں لے جاتے تھے بلکہ اُن کی جگہ اپنی صاحبزادی بیگم نسیم اورنگ زیب کو لے جاتے تھے۔ وہ والیئ سوات میاں گل جہانزیب کی بہو اور سابق گورنر خیبرپختونخوا میاں گل اورنگ زیب کی اہلیہ تھیں۔ یہاں پر ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کا کوئی البم تو نہیں دیکھا البتہ یہاں ان کی تاریخی تقریر رکھی ہوئی دیکھی جو غالباً پی آئی ڈی نے چھپوائی تھی اور دنیا کے مختلف ممالک کی لائبریریوں کو بھجوائی تھی۔اس تقریر کے مطبوعہ مسودہ پر لکھا گیا تھا،” نئی زرعی اصلاحات” اس کے نیچے لکھا ہوا تھا،”وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قوم سے خطاب۔ اس کے سامنے تین الفاظ برابر برابر نیچے لکھے تھے،”آٹا، چاول، روٹی۔نیچے بھٹو صاحب کی تصویر اور تاریخ 17 جولائی 1976ء لکھی ہوئی تھی۔ ہم اس تاریخ کے 47 سال بعد 12 جولائی 2023ء کو یہاں ایران میں ان کی یہ تقریر دیکھ رہے تھے۔ جس کی بات مجھے آج بھی سنائی دے رہی ہے۔ اس روز زمینداروں کیلئے نہری اور بارانی زمینوں کی حد مقرر کر دی گئی تھی مگر پھر وہ زرعی اصلاحات غیراسلامی قرار دی گئی تھیں اور ان اصلاحات کے خلاف شہید بھٹو کے وزیر فاروق لغاری نے جنرل ضیاء کے دور میں عدالت میں جا کر فیصلہ حاصل کیا تھا۔ ہمارے ہاں جاگیرداری نے انقلاب کے آگے بند باندھا۔ ایران میں طبقاتی انقلاب کی راہ روک دی گئی تو انقلاب کی باگ ڈور مذہبی حلقہ نے تھام لی اور انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا مگر انقلاب ایک مسلسل عمل ہے۔ ایران کا انقلاب اب بھی رواں دواں ہے۔یہاں ایک اردو کتابچہ رکھا ہے جس کا عنوان ہے،”دُکھ پرایا اپنا سمجھ نپٹانا ہے” یہاں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے شائع ہونے والی ایک کتاب رکھی ہے۔ یہ کتاب “تاریخ ادبیات پاکستان وہند کا تعارف نامہ” ہے۔یہاں ایک اور کتاب” منشور آزادئ پاکستان” رکھی ہے۔ اس مقام پر کتاب،”اقتصادیات پاکستان” بھی رکھی ہوئی ہے۔ یہاں پر نادرنقشینی اور ڈاکٹر فاطمہ ثقفی کے علاوہ یہاں کے شعبہ کی سربراہ بھی ہمیں یہاں پر کتابوں کے خزانہ کے بارے میں تفصیلات بتا رہی ہیں۔ اس لائبریری میں دیکھنے کی اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ ساتھ چلئے۔ (جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: