نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"سر منڈاتے ہی اولے پڑے”۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نگران حکومت کے ساتھ’’سرمنڈاتے ہی اولے پڑے‘‘ والا معاملہ ہوگیا ہے اور میرا نہیں خیال کہ وہ اس کے منفی اثرات سے اپنی بقیہ مدت کے دوران سنبھل پائے گی۔ حقیقت اگرچہ یہ بھی ہے کہ اس کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے اس کی وہ بذاتہی ذمہ دار نہیں ہے۔
ہمارے گھروں میں رواں مہینے کا آغاز ہوتے ہی بجلی کے جو بل آنا شروع ہوئے ہیں ان میں طلب کردہ ناقابل برداشت رقوم نگران حکومت نے طے نہیں کیں۔ جو ’’بندوبستِ وصولی‘‘ ان بلوں کا باعث ہوا وہ شہباز حکومت کا عالمی معیشت کے نگہبان ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ ہوا معاہدہ ہے۔مذکورہ معاہدے کی بدولت پاکستان کو آئندہ برس کے مارچ تک 3ارب ڈالر کی ’’امدادی رقم‘‘ملنا ہے۔تین قسطوں میں میسراس رقم کے بلاتعطل حصول کے لئے تاہم چند کڑی شرائط پر عملدرآمد لازمی ہے۔شرائط میں اہم ترین اس گردشی قرضے کی ادائیگی ہے جو کئی برسوں سے نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والوں کے حساب میں جمع ہورہا ہے۔مذکورہ قرض کے ابھرنے سے قبل ہی آئی ایم ایف ہمیں کئی دہائیوں سے بتائے چلے جارہا تھا کہ ہمارے گھروں میں جو بجلی آتی ہے اس کے فی یونٹ کی قیمت اس ’’رقم‘‘کے برابر بھی نہیں جو ایک یونٹ کو بجلی پیدا کرنے والوں سے خریدنے اور ہمارے گھروں تک پہنچانے میں خرچ ہوتی ہے۔ہماری ہر حکومت مگر نجی شعبے سے مہنگی بجلی خریدنے کے بعد اسے قومی خزانے سے ’’امدادی رقوم‘‘ فراہم کرتے ہوئے گھریلو صارفین کو نسبتاََ سستے داموں بیچتی رہی۔
حکومت کا یہ رویہ معاشیات کے کلیدی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔کسی بھی جنس کی قیمت کا تعین طلب ورسد کے علاوہ اس تناظر میں بھی طے ہوتا ہے کہ اسے پیدا کرنے میں کتنی لاگت صرف ہوئی اور بازار میں اسے بیچ کر کم از کم کتنا منافع کمایا جائے۔ بجلی کے ضمن میں ’’منافع‘‘ حکومت کو آج تک مل نہیں پایا۔ اسے پیدا کرنے اور گھروں تک پہنچانے پر ہوئے خرچ کے برابر رقم کوئی حکومت بھی وصول نہیں کرپائی ہے۔ آئی ایم ایف نے لہٰذا تقاضہ شروع کردیا کہ حکومت اگر بجلی کی فروخت سے منافع نہ بھی کمائے تو کم از کم اس کی پیداواری لاگت تو صارفین ادا کریں۔انگریزی زبان میں اس عمل کو Cost Recoveryپکارا جاتا ہے۔فقط معاشی اصولوں کی بنیاد پر اس کی ادائیگی کا تقاضہ بھی واجب ومعقول سنائی دیتا ہے۔ ہمارے حاکموں کو تاہم ’’مائی باپ‘‘ کہلوانے کا جنون لاحق ہے۔ وہ عوام کے روبرو شفیق والدین کی مانند نظر آنا چاہتے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بارے میں فکر مندی کا ناٹک رچاتے ہوئے وہ ہم سے کامل اور غلاموں جیسی اطاعت وفرمابرداری کا تقاضہ بھی کرتے ہیں۔بہرحال گھریلو صارفین کی ’’سہولت‘‘ کے نام پر بجلی کے استعمال کے لئے ’’امدادی رقوم‘‘ کا سلسلہ برقرار رہا۔ اس کا اطلاق کرتے ہوئے ابتداََ امیر اور غریب میں کوئی فرق بھی ملحوظ خاطر رکھا نہیں گیا۔ ’’سرکار‘‘ کے روبرو’’ محمود وایاز‘‘ ایک ہی تصور ہوئے۔عالمی معیشت کے نگہبان ادارے بھی اس رویے کو نظرانداز کرتے رہے۔ وجہ اس نظراندازی کی افغانستان کے خلاف مسلط ہوئی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ تھی جسے کامیاب بنانے کے لئے پاکستان امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا کلیدی حلیف تھا۔2007کا آغاز ہوتے ہی مگر ہمارے ’’اتحادیوں‘‘ نے الزام لگانا شروع کردیا کہ پاکستان ان کا بھرپور ساتھ دینے کے بجائے ’’ڈبل گیم‘‘ کھیلتے ہوئے طالبان کوبھی زندہ رکھے ہوئے ہے تاکہ مغربی ممالک مبینہ طورپر اس کی ضرورت محسوس کرتے رہیں۔
شک وشبے کے اس موسم میں مشرف حکومت کے آخری سالوں میں بجلی کی قیمت اور گردشی قرضے کی بابت میڈیا میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ ان کا مناسب حل میسر نہ ہوا تو مشرف کے مستعفی ہوجانے کے بعد آئی پیپلز پارٹی کی گورنمنٹ دن میں اوسطاََ 8سے 10گھنٹے عوام کو لوڈشیڈنگ کے ذریعے بجلی سے محروم رکھنے کی ذمہ دار تصور ہوئی۔ عوام نے اس کا بدلہ 2013ء کے انتخابات کے دوران لیا۔
مذکورہ انتخابات کی بدولت نواز شریف تیسری بار ہمارے وزیر اعظم بنے تو لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اپنی اولین ترجیح ٹھہرادی۔ چین کے ساتھ ہوئے معاہدوں نے اس ضمن میں کامیابی کویقینی بنایا۔لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے شاداں محسوس کرتے عوام مگر اپنے ساتھ ہوئے ’’معجزے‘‘ کی قیمت کا اندازہ نہ لگاپائے۔اسے ادا کرنے کو آمادگی تو بعد کی بات ہے۔دریں اثناء عمران خان نے پہلے دھرنے اور بعدازاں پانامہ پیپرز کے منکشف ہونے کے بعد نواز حکومت کو مسلسل دبا? میں رکھا۔معاشی استحکام کے خواب لہٰذا سیاسی انتشارکی نذر ہوگئے۔
مسلم لیگ (نون) کی حکومت فارغ ہوگئی تو ’’سیم پیج‘‘ کی برکتوں سے عمران خان برسراقتدار آئے۔بجلی کا بحران مگر اس حکومت سے بھی حل نہ ہوا۔آئی ایم ایف سے برتے رویے نے بلکہ اسے گھمبیرسے گھمبیرتر بنادیا۔گزرے برس کے اپریل میں عمران حکومت کی فراغت کے بعد برسراقتدار آئی شہباز حکومت کوبالآخر کئی دہائیوں سے مسلسل ٹالتے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ آئی ایم ایف کا رویہ بھی اب سخت سے سخت گیر ہوچکا تھا۔ بالآخر بے تحاشہ منتوں اور ترلوں کے بعد عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے شہباز شریف کی ذاتی کاوشوں سے ایک معاہدہ یقینی بنایا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے یقینا بجائے گا مگر اس سے محفوظ رہنے کی قیمت میرے اور آپ جیسے بے اختیار پاکستانی آنے والے کئی دنوں تک بجلی،گیس اور پٹرول کے ناقابل برداشت نرخوں کی صورت ادا کرتے رہیں گے۔
چند دنوں کے لئے آئی نگران حکومت کے پاس آئی ایم ایف سے طے ہوئے بندوبست کو ٹالنے کی سیاسی واخلاقی قوت موجود نہیں ہے۔وہ اگر مذکورہ بندوبست سے روگردانی کرتی نظر آئی توآئی ایم ایف ہمیں ایک ارب ڈالر کی دوسری قسط فراہم کرنے سے انکار کردے گا۔وہ قسط اگر رواں برس کے نومبر میں ہمارے خزانے کو منتقل نہ ہوئی تو ہمارے ہاں ایک بار پھر ’’دیوالیہ-دیوالیہ‘‘ کی تکرار شروع ہوجائے گی۔بہتر تو یہی تھا کہ بجلی کے بلوں کے خلاف عوامی احتجاج کا آغازہوتے ہی نگران وزیر اعظم قوم سے خطاب کرتے ہوئے حقائق کو عاجزی اور انکساری سے ہوبہو بیان کردیتے۔ عوام کو یہ طفل تسلی دینے کی ہرگز ضرورت نہیں تھی کہ ’’آئندہ 48گھنٹوں میں‘‘ بجلی کے بلوں کے حوالے سے کچھ ’’ریلیف‘‘ فراہم کردیا جائے گا۔لوگوں کے ساتھ ہوا وعدہ اب عمل پیرا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ نگران حکومت کی ساکھ لہٰذا اپنے اقتدار کے پہلے دس دن گزرنے کے بعد ہی ختم ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author