نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

غلط بیانی کا مرتکب ٹھہرائے صدر کا نیا حکم نامہ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے نام نہاد’ ’تحریری آئین“ کی اصل اوقات عموماََ ان ہی افراد کے ہاتھوں بے نقاب ہوتی رہی ہے جو اپنے تئیں ”آئین کے تحفظ  کیلئے“ اساطیری دلاوروں کا روپ دھارے میدان میں نکل آتے ہیں۔ان دنوں ایسے ”ڈرامے“رچانے پر عارف علوی کا اجارہ ہے۔ موصوف 2018ء سے ایوان صدر میں براجمان ہیں۔عمران خان کی دیوانہ وار محبت نے انہیں اس مقام تک پہنچایا تھا۔ سابق وزیر اعظم سے وفاداری بشرط استواری نبھانے کو بے چین رہتے ہیں۔یہ حقیقت مگر سمجھ نہیں پارہے کہ ان کی جانب سے برتے حربے وطن عزیز کو مزید اضطراب کے سوا کچھ فراہم نہیں کرتے۔ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہنے کے باوجود دنیا کو یہ پیغام پہنچانے میں البتہ کامیاب ہو جاتے ہیں کہ پاکستان ایک بے لگام ریاست ہے جہاں آئین اور قانون محض دکھاوا ہے۔ اس کا احترام ہرگز نہیں ہوتا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ اور دنیا کو خوب خبر ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں ”لاٹھی“ کس ریاستی ادارے کے پاس ہے۔

گزرے اتوار کی سہ پہر موصوف نے ”اللہ کو گواہ“ بنا کر ایک ٹویٹ لکھا۔ جس کی بدولت دہائی مچائی کہ انہوں نے آرمی اور ریاستی رازوں کے متعلق قوانین میں ہال ہی میں ہوئی سخت گیر ترامیم پر اجرائی دستخط نہیں کئے تھے۔ ان کے دعویٰ پر اعتبار کریں تو حکومت وقت نے مذکورہ ترامیم کو جو پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئی تھیں ”نوسربازی“ سے گزٹ نوٹیفکیشن کے ذریعے باقاعدہ قانون کی صورت لاگو کر دیا ہے۔

حکومت کی مبینہ ”نوسر بازی“ کو بے نقاب کرنے کے لئے ایوان صدر میں براجمان شخص نے عارف علوی کی شناخت سے مذکورہ ٹویٹ لکھا تھا۔ اپنی شناخت کے ساتھ بے بسی کا اظہار کرتی ٹویٹ نے دنیا کو درحقیقت یہ پیغام دیا کہ 25 کروڑ آبادی کے حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو ایٹمی قوت بھی ہے ”صدرِ پاکستان“ کی کوئی وقعت ہی نہیں۔وہ اپنے دفتر میں کسی مغوی کی صورت مقید ہے۔ ہماری ریاست کے ”اصل مالک“ اپنی ترجیح کے کسی قانون کو متعارف کروانے کے لئے اس کے دستخطوں کے محتاج نہیں۔ اس کا دفتر ”شوشا“ کے سوا کچھ بھی نہیں۔

پاکستان کے ریاستی بندوبست کی اپنے تئیں ”حقیقت“ بیان کرنے کے بعد عارف علوی پھر ”صدر پاکستان“ بن گئے۔ اس شناخت کے ساتھ موصوف نے پیر کے روز ایک اور ٹویٹ لکھ کر ہم عامیوں کو آگاہ کیا کہ انہوں نے اپنے سیکرٹری وقار احمد کو اپنے منصب کے خلاف ہوئی واردات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایوان صدر سے نکالنے کا حکم جاری کردیا ہے۔ان کی جگہ حکومت وقت سے محترمہ حمیرہ احمد کی خدمات طلب کر لی گئی ہیں۔ جمعرات کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔وقار احمد مگر ابھی تک صدر مملکت کے سیکرٹری کے عہدے سے باقا عدہ انداز میں فارغ نہیں ہوئے۔ حمیرہ احمد صاحبہ کی تعیناتی کا حکم بھی متعلقہ محکمے سے جاری نہیں ہوا۔

معاملہ فقط اس پہلو تک ہی محدود نہیں۔وقار احمد کے خلاف ”عارف علوی“ نے دھوکہ دہی کی دہائی مچائی تو جواب آں غزل کے طورپر ریاست پاکستان کے گریڈ 22 کے اس افسر نے عارف علوی کو یاد دلایا کہ اس کے دفتر سے فلاں فلاں دن فلاں فلاں وقت پر آرمی اور ریاستی رازوں سے متعلق قوانین میں ترامیم کے پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظورہوئے مسودے صدر کے دستخطوں کے لئے بھیجوادیے گئے تھے۔وہاں سے ابھی تک وہ سیکرٹری کے دفتر نہیں لوٹے ہیں۔ سادہ ترین الفاظ میں گریڈ 22 کے افسر نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کو غلط بیانی کا مرتکب قرار دیا۔”غلط بیانی“ اگرچہ میری دانست میں ”جھوٹ“ کا مہذب اور شائستہ متبادل ہے۔

عارف علوی مگر ڈھیٹ ہڈی کے حامل ہیں۔ اپنے ”ماتحت“ کے ہاتھوں غلط بیانی کا مرتکب ٹھہرائے جانے کے باوجود اضطراب کی آگ بڑھانے سے باز نہیں آ رہے۔ بدھ کے روز انہیں ”اچانک“ یاد آ گیا کہ ہمارا ”تحریری آئین“ انہیں قومی اسمبلی تحلیل ہوجانے کے بعد ”نوے روز کے اندر“ نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنے کا پابند بناتا ہے۔ مذکورہ ”آئینی فریضہ“ ادا کرنے کے لئے موصوف نے چیف الیکشن کمشنر کے نام ایک چٹھی لکھی ہے۔اس کے ذریعے آئینی اعتبار سے ”خود مختار“ ٹھہرائے اس عہدے دار کو ”حکم صادر“ ہوا ہے کہ وہ ”ایک دو روز میں“ ایوانِ صدر حاضر ہو اور عارف علوی کے ساتھ بیٹھ کر نئے انتخاب کی تاریخ طے کرے۔

یہ کالم لکھنے تک مجھے ہرگز خبر نہیں کہ الیکشن کمیشن کیا لکھے گا جواب میں۔ صحافتی تجربہ اگرچہ یہ سوچنے کو آکسا رہا ہے کہ آئین ہی کی بدولت ”خودمختار“ ٹھہرائے چیف الیکشن کمشنر صدر کو ہمارے تحریری آئین ہی کی وہ شقیں ایک جوابی چٹھی میں یاد دلاسکتے ہیں جو مردم شماری ہو جانے کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے نئی حلقہ بندیوں کا تقاضا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اصول بھی آئین کے آرٹیکل 51 میں طے کر دیا گیا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر تک پہنچا ہر پاکستانی ووٹ ڈالنے کا حق دار ہوگا۔اسے مذکورہ حق سے محروم رکھنا غیر آئینی عمل ہو گا۔

اس سے قبل الیکشن کمیشن تفصیل سے ایک پریس ریلیز جاری کرچکا ہے۔اس کے ذریعے عوام کو ان تمام مراحل سے تفصیلاً بتا دیا گیا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کا عمل کیسے اور کب تک (14 دسمبر 2023) تک مکمل کر دیا جائے گا۔”نوے دنوں کے اندر“ کی بات کریں تو نئی قومی اسمبلی کا انتخاب رواں برس کے نومبر میں ہونا چاہیے۔نئی حلقہ بندیوں کا تقاضا مگر اس امکان کو رد کردیتا ہے۔اسی باعث آئندہ برس کے فروری کے آخری ہفتے میں نئے انتخاب کی امید باندھی جا رہی ہے۔ اگرچہ اب کنوردلشاد جیسے ماہرین مئی 2024 کے اشارے بھی دینا شروع ہو گئے ہیں۔

بہرحال ”تحریری آئین“ کی بنیاد پر صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان اور آئینی اعتبار سے ”خودمختار“ چیف الیکشن کمشنر نئے انتخاب کے حوالے سے دو مختلف موقف اختیار کر چکے ہیں۔ ان دونوں میں کون درست ہے؟ اس کا فیصلہ میرے اور آپ کے بس سے باہر ہے۔ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ ہی کو طے کرنا ہو گا۔

اس کورٹ نے مگر 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے حوالے سے بھی ایک فیصلہ کیا تھا۔ وہاں مگر اب بھی محسن نقوی کی قیادت میں نگران صوبائی حکومت کی عمل داری برقرار ہے۔ اس ”نظیر“ پر اعتبار کریں تو ”نوے دنوں کے اندر“ والی بات نئی اسمبلیوں کی تشکیل کا سبب ہوتی بھی نظر نہیں آرہی۔

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author