مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اصل مجرم تلاش کیجئے ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مکرر عرض کئے دیتا ہوں تاریخ و سیاست اور صحافت کے طالب علم کے طور پر میں سیاستدانوں کو ساری خرابیوں کا ذمہ دار اور برائیوں میں لتھڑا ہوا نہیں سمجھتا۔ سیاستدان بھی آپ کی اور میری طرح اسی سماج سے اٹھے ہیں خوبیاں بھی ہیں خامیاں بھی۔

یقیناً کچھ داغ بھی ان کے دامن پر ہوں گے ا لبتہ میں نے ہمیشہ یہ عرض کیا کہ سیاستدانوں کا احتساب رائے دہندگان کرتے ہیں چلیں ہم عدالتوں کے احتسابی عمل کو لمحہ بھر کے لئے درست اور ضروری سمجھ لیتے ہیں۔

مجھے بتادیجئے کہ جہاں دوسو روپے کے عوض اگلی تاریخ سماعت ملتی ہو، مخصوص چیمبروں سے ’’اہل‘‘ افراد اعلیٰ عدلیہ کے جج بنتے ہوں گاہے اس عمل میں رشتہ داریاں بھی میرٹ کا حصہ سمجھی جائیں تو کیا احتساب کا یہ عمل مبنی بر انصاف کہلائے گا؟

درجن بھر سے زائد مثالیں پیش کرسکتا ہوں۔ باپ، جج بیٹا اور داماد بھی جج بنا۔ تب کسی نے نہیں کہا کہ یہ تو موروثیت ہے۔ کرپشن اور اقربا پروری کیونکہ پتہ تھا بات کرنا خطرے کو دعوت دینا ہے۔

پچھتر برسوں کے دوران یہاں سول و ملٹری بیوروکریسی کی کرپشن کہانیوں پر جذبہ حب الوطنی کے طورپر پردے ڈالے گئے۔ نصف صدی سے قلم مزدوری کرتے ہوئے ہمیشہ یہی محسوس کیا کہ سول و ملٹری بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ نے ہمیشہ ایک دوسرے کی پشت پناہی کی۔

یہ تینوں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لتے لینے میں پیش پیش رہے۔

چلیں ایک کام کرتے ہیں گو یہ ہونا نہیں۔ صرف پچھلے 20برسوں میں اسمبلیوں کا رکن وزیرمشیر بننے والوں، سول و ملٹری بیوروکریسی کے گریڈ اٹھارہ اور اس سے اوپر کے بڑوں اور اعلیٰ عدلیہ کے جج کے طور پر رخصت ہونے والوں کے اثاثوں کی تحقیقات کے لئے ایک قومی کمیشن بنانے کا مطالبہ مل کر کرتے ہیں فوراً تین شعبوں فوج، سول بیوروکریسی اور عدلیہ سے جواب آئے گا احتساب کاہمارا انٹرنل نظام ہے۔

کیا بات ہے یہ تینوں تو سیاستدانوں اور سیاسی عمل کو ’’رج کے‘‘ ذلیل کریں اور عوامی احتساب نہ ہونے دیں لیکن جب ان کے احتساب کی بات ہو تو جواب ملے ہمارا انٹرنل احتساب کا نظام موجود ہے۔

تمہید قدرے طویل ہوگئی عرض یہ کرنا چاہتاتھا کہ گزشتہ کالم میں بٹوارے کے وقت لاہور اور راولپنڈی میں ہوئے فسادات کو متحدہ ہندوستان کی سول ملٹری اشرافیہ کے مسلم حصے کے بعض کرداروں کی سازش لکھا تھا۔ اس پر ایک دوست معترض ہوئے۔ اختلاف رائے ان دوستوں اور دیگر کا حق ہے۔ تحریر نویس نے یہ رائے مطالعے کے بعد قائم کی ہے۔

میرا خیال یہ ہے کہ مصنوعی دو قومی نظریہ جسے خود جناح صاحب نے 11اگست 1947ء والی تقریر میں دفن کردیا تھا کی بنیاد پر طویل المدتی نفرتوں کا کاروبار پھل پھول ہی اسی طور سکتا تھا کہ عدم برداشت کا ننگا ناچ ہو۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ برٹس انڈیا کی سول ملٹری بیوروکریسی کے مسلم کرداروں میں سے اہم منصبوں پر فائر افراد کی بڑی تعداد کا تعلق متحدہ ہندوستان کے ان صوبوں سے تھا جہاں مسلمان اقلیت میں تھے۔

آگے بڑھنے سے قبل یہ ضرور عرض کردوں کہ ہم فی الوقت اس موضوع پر بات نہیں کررہے کہ پاکستان یا دو قومیہ نظریہ متحدہ ہندوستان کے مسلم اقلیتی صوبوں کی ضرورت تھی مسلم اکثریتی صوبوں کے لوگوں کی نہیں۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ بٹوارے کے فسادات کی دوطرفہ مطالعہ پاکستان و مطالعہ بھارت کی کہانیوں سے ہٹ کر یہ دیکھا جانا ازبس ضروری ہے کہ مخالف طبقہ کی نسل کشی اور ان کی املاکوں پر قبضے کی مہم شروع کس نے کی۔

مجھے یہی سمجھ میں آیا کہ شاہ عالمی لاہور، لال کرتی راولپنڈی کے فسادات اور پشاور سے کلکتہ جانے والی ٹرین کے ہندو سکھ مسافروں کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک ہوا باقی ماندہ فسادات اس کا ردعمل تھے۔

یہ تینوں خونی واقعات طویل المدتی بیوپار کے منصوبے کا حصہ تھے۔ مثال کے طور پر بھارتی پنجاب اور ملحقہ علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان خاندانوں کی بھارت یا ہندو سکھ نفرت کا تجزیہ کیجئے اس نفرت کے ڈانڈے بٹوارے کے دوران ہوئے وحشیانہ قتل عام سے جاملتے ہیں۔ سرحد کے دوسری طرف بھی ایسی ہی دلخراش کہانیاں نسل در نسل منتقل ہوئیں۔

ان کہانیوں میں رنگ بھرنے کا سامان کرنے والے سازشی عناصر بخوبی واقف تھے کہ صرف چند چنگاریاں کافی ہیں پھر الائو بھڑکیں گے اور اس سے جو نفرت کے چشمے پھوٹیں گے ان سے اسٹیبلشمنٹ کو لازوال طاقت ملتی رہے گی۔

آپ دیکھ لیجئے ہمارے ہاں پچھتر سال سے اندھی بھارت و ہندو دشمنی کے سودے کون کس کی معرفت بیچ رہا ہے۔ تازہ مثال عرض کئے دیتا ہوں۔

سانحہ جڑانوالہ کے سارے منفی کردار اور پس منظر بہت واضح تھا پھر بھی صوبائی حکومت کے بعض ذمہ داروں نے یہ سودا بیچنے کی کوشش کی کہ سانحہ جڑانوالہ کے پیچھے کہیں نہ کہیں بھارت موجود ہے۔

برسوں پہلے کی ایک بات بار دیگر لکھے دیتا ہوں۔ چند صدیوں سے مسلم اشرافیہ اور ملا نے ہمارا یہ مزاج بنادیا ہے کہ ہمیں زندہ رہنے کے لئے ایک کافر ایک مشرک اور ایک یہودوہنود کا ایجنٹ ہمیشہ ’’زندہ و تابندہ‘‘ رکھنا پڑتا ہے تاکہ دال روٹی چلتی رہے۔

وہ ابتدائی تین واقعات جو آگے چل کر وسیع خونی فسادات میں تبدیل ہوئے ایک سازش کا حصہ تھا اس سازش کو مزید وضاحت سے سمجھنا چاہتے ہیں تو بٹوارے کے بعد پاکستان کے حصے میں آئی سول ملٹری بیوروکریسی اور مسلم اقلیتی صوبوں کی مسلم اشرافیہ کے طور طریقوں کا تجزیہ کیجئے۔

تب آپ کو آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ آپ ان 10برسوں میں سول و ملٹری بیوروکریسی کے ماہرین اور ذرائع ابلاغ کے مفاد پرستوں کے مشترکہ پروپیگنڈے کو ایمان کے ساتویں رکن کے طور پر تسلیم کرلیں یا پھر تجزیہ اٹھانے کی ہمت کریں اور یہ جاننے کی کوشش کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بٹوارے کے بعد کے پچھتر برسوں کے عرصے میں پاکستان میں تو چار بار فوج کی براہ راست حکمرانی ہوئی (یہاں ہم ساجھے داری کے ادوار کی بات نہیں کررہے) لیکن بھارت میں ایک بار بھی مارشل لاء نہیں لگا۔

اس کی ایک سے زائد وجوہات ہیں۔ بھارت نے بٹوارے کے بعد ریاستیں اور جاگیرداریاں ختم کردیں سول و ملٹری بیوروکریسی کو کینڈے میں رکھنے کے انتظام کئے۔ دستور سازی پر توجہ دی۔ ان کی لیڈر شپ ہماری لیڈر شپ کی طرح اناپرست نہیں تھی ہماری ساری لیڈر شپ نوابوں، مخدوموں، خان بہادروں، سرداروں اور مسلم اقلیتی صوبوں سے آئی مسلم اشرافیہ پر مشتمل تھی یہ سبھی ایک سے بڑھ کر ایک مفاد پرست ثابت ہوئے

ان میں سے بعض کی سفید پوشی کی گھڑی ہوئی کہانیاں ان الاٹ منٹوں کی پردہ پوشی کے لئے تھیں جو بٹوارے کی گنگا سے حاصل کی گئیں۔

تلخ حقیت یہ ہے کہ مسلم اقلیتی صوبوں کی مسلم اشرافیہ ہو یا مغربی پاکستان کی مسلم اشرافیہ کے مختلف گروہ یہ سبھی ابن الوقت مفاد پرست اور عوام دشمن تھے اسی لئے انہوں نے عوام اور جمہوریت پر اعتماد کرنے کی بجائے سول ملٹری بیوروکریسی کی چوب داری کو ترجیح دی۔

عقل مندی انہوں نے یہ کی کہ پہلے سے موجود بعض مذہبی اختلافات پر قائم کٹھ ملائیت کو ساجھے دار بنالیا تاکہ اگر کبھی عوام سے کوئی خطرہ محسوس ہو تو ان کے مذہبی جذبات بھڑکاکر مفادات کا تحفظ کیا جائے۔

ہم پچھلے پچھتر برسوں سے جس جبروستم استحصال اور گراوٹ کا شکار ہیں ان سے نجات ملنے کی واحد صورت ایک ہی ہے وہ ہے سیکولر جمہوریت اس کے لئے اب نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔

نیا عمرانی معاہدہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ اجتماعی شعور نہ جاگے کہ مذہب اور عقیدہ فرد اور افراد کے ذاتی معاملات ہوتے ہیں نظام حکومت چیز دیگر است۔

اس کے ساتھ ساتھ طبقاتی بالادستی کی وجہ سے پیدا ہوئی خلیج کم کرنا ہوگی ان دونوں کاموں کے بغیر ہم اسی طرح رہیں گے سسکتے روتے شکوے کرتے اور مطالعہ پاکستان کی ڈھمکیریوں کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: