اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ویسے عشق اور شاعری ، عورت کے دو روپ ہیں۔ماروی، مومل،سسی، سوہنی، نوری، لیلا اور سورٹھ کے عشق کو شاہ لطیف نے زبان دی ہے!

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کوٹ میں شاعر کوتوال ہے
عمر کوٹ میں ایک شاعر کوتوال ہے۔شاعری کا سکہ چلتا ہے۔شہر میں ہندو مسلم آبادی برابر برابر ہے اور مذہبی رواداری کا یہ عالم ہے کہ شہر میں بڑے گوشت دوکان نہیں۔مذہبی تعصب کے مارے ملک میں عمر کوٹ ایک معجزہ ہے۔ شاعری ہیجانی جذبات کو نظم دیتی ہے۔اونچی چھت والے کولونیل کمرے میں ہم ایک شاعر کے ساتھ بیٹھے تھے۔ کوتوال کی وردی دیوار پہ ٹنگی تھی اور چونے کا پلستر پیلا ہو رہا تھا۔سادہ لباس میں ایک سانولا سا لمبا آدمی دھیما بولتا بھلا لگتا تھا۔سال بیلو کے ایک ناول میں بیٹا اپنے باپ کے بارے میں کہتا ہے کہ "میرے باپ کی داڑھی اس کی روح سے احتجاج کی صورت پھوٹتی تھی”۔شاعر کی مختصر سی داڑھی سے شانتی پھوٹتی تھی۔کالے بالوں میں کچھ سفید بال امن کے جھنڈے تھے۔ایک پرسکون آدمی یوگیوں کے سیمی لوٹس آسن میں بیٹھا بات کرتا تھا۔ترکٹی پر اداسی لگی تھی۔دسویں دوار پہ شاعری تھی۔ دیکھنے والے کو وہ شاعر سے زیادہ بالی وڈ کا ایکٹر نانا پاٹیکر لگتا ہے۔ آواز میں تھر کے صحرا سی گھمبیرتا ہے۔پوسٹ ماڈرن سندھی نظم کے شاعر خلیل کمبھار سے یہ پہلی ملاقات تھی۔اس کا فن آفاقی سچائی کو مقامی اور ذاتی بنا کر حیرتوں کے در وا کرتا ہے۔ تھر کی امیجری رنگ بھرتی ہے۔ماروی ، انیلا ہے۔ انیلانے تھر کی امیجری کی اجرک اوڑھی ہے۔زندگی کی تلخیوں اورخیال کی رعنائیوں سے خلیل کمبھار کی شاعری کی قوسِ قزح بنتی ہے۔ نظم "انیلا” کا آخری حصہ دیکھئے:
یہ کمانیدار آنکھیں، کالی آنکھیں، تیری آنکھیں
میں نے کیں محفوظ اپنی شاعری میں
تم رہتی ہو سکھ سے روشنی کے شہر میں
میں سرابوں میں ہوں بھٹکا ہوا چیخ بن کر مور کی
زرد ہوکر جب گرے پتا کوئی ، گروں میں اس کیساتھ
میں نے تم کو دیکھا ہے ہر ہرن کی جست میں
بن میں تم تو گونجتی ہو کوئلوں کی کوک بن کر
تم پڑی ہو میرے اندر پھیل کے اک ہوک بن کر
پیاسے صحرا بارشوں سے گلے ملتے ہیں جیسے، ایسا گر ہو اپنا ملنا
اے انیلا تمہارا حسن سے بھرپور ہونا!
کم لوگ جانتے ہیں کہ شاعری دنیا کے سب سے قدیم پیشے سے پہلے موجود تھی۔حسن کا پہلا کلمہ شاعر نے پڑھا تھا،عاشق نے چرایا تھا!عاشق اور شاعر میں فرق یہ ہے کہ عاشق محبوب کا جلوہ دیکھ کر گونگا ہو جاتا ہے۔شاعر کلام کرتا ہے۔سندھ وادی کی عورت عاشق ہے۔مرد شاعر ہے۔عورت نے اگر شاعری کرتی بھی ہے تو پہلے وہ میرا کی طرح کرشن کی عاشق بنتی ہے۔ودیا سمیٹتی ہے۔ شاعر عورت کی زبان میں بولتے ہیں۔بھگت بن گیروا لباس پہنتے ہیں۔ سرخی نہیں لگاتے کہ مرد کو سرخی عار ہے۔ہٹلر کو سرخی سے نفرت تھی۔عاشقوں کے امام، خواجہ غلام فرید اس پیراڈائم کو توڑتے ہیں:
سرخی لایم کجلا پایم کیتم یار وسارا
ویسے عشق اور شاعری ، عورت کے دو روپ ہیں۔ماروی، مومل،سسی، سوہنی، نوری، لیلا اور سورٹھ کے عشق کو شاہ لطیف نے زبان دی ہے!وہ عشق کو جنس، جنم اور دھرم سے ماورا کرنے والے مہان کوی ہیں۔شاعری کو منطق، تنقید اور فلسفے کی کسوٹی سے آزاد کرتے ہیں۔ ان کی مقامی سورمیاں آفاقی جذبوں کا استعارہ ہیں۔وارث شاہ ہیر کے سراپے میں پنجاب کاحسن دیکھتے ہیں۔ہیر کی انگلیاں رواں پھلیاں ہیں۔”سرخی ہوٹھاں دی لوڑھ دنداسڑے دا” ہے۔خواجہ فرید کی نازک نازک جٹیاں روہی کی تصویر ہیں۔ وطن محبوبہ ہے۔خلیل کمبھار انیلا کے جسم میں تھر کی چاندنی بھرتا ہے۔شاعر بیجل کی طرح کے چارن ہوتے ہیں جو لفظوں کے طلسم سے رائے ڈیاچ کو مسحور کرتے ہیں۔ نظم کی نے میں نغمے بھرتے ہیں۔غزل میں چھپ کر عورتوں سے باتیں کرتے ہیں۔عمر کوٹ کی شام اور طعام ایک شاعر کے نام تھے۔خلیل کمبھار کے ہاں سلیمان راحموں ، سائیں داد منگھریو، سہیل کمبھار اور امید علی راحموں آئے تھے۔ وتایو فقیر اور صوفی فقیر کو رفعت عباس لائے تھے۔ حلیم باغی کی جنم بھومی میں خلیل کمبھار میزبان تھے۔عشاق کا قافلہ ہندوستان کے بادشاہ اکبرِاعظم کی جنم بھومی میں رات بھر رکا تھا۔دوستوں کی کچہاری ، کھمبیوں کے ذائقے اور لذیذ کرڑو مچھلی سے ایک طویل دن کی تکان غائب ہو گئی تھی۔کھمبیوں سے مجھے آبائی گھر کے ساتھ ٹیلے سے لائی تازہ کھمبیاں یاد آئیں۔ کھمبیوں کے سالن میں ایسا ذائقہ ہوتا کہ مجھے گمان ہوتا کہ کھمبیاں خلدِبریں سے آتی ہیں۔ اماں پکاتی ہیں۔اس شام تازہ کھمبیاں تھر کی جنت سے آئی تھیں۔کھمبی دل کو تقویت دیتی ہے۔تھر کے دہانے پر میرا مسافر دل شاعری اور تالو کھمبیوں سے نہال تھے۔ کرڑو مچھلی بکار جھیل سے آئی تھی اور جس ٹیلے پر ہم بیٹھے تھے وہاں پہلے سمندر تھا۔شام سے ذرا پہلے صوفی فقیر کے مزار پر جس بے نام محبوب کا تذکرہ ہوا تھا وہ ذائقوں، دوستوں اور رنگوں میں عیاں تھا۔ایک شعر سے شروع ہونے والا تھر پارکر کا سفر ایک شاعر کی صورت منکشف ہو رہا تھا۔مارو تھل بارشوں سے جنت نظیر تھا۔تھرپارکر کی پہلی شام نے مسحور کر دیا تھا۔محبت کے دارالخلافے میں نیند حرام تھی!
صبح ہو گئی تھی۔ شہر ایک روشن دن کی حضوری میں تھا۔دن کا آغاز شہر کے پہلو میں اکبرِاعظم کے جنم استھان سے ہوا۔ہمایوں شیر شاہ سوری سے ہار کر پناہ کی تلاش میں نگر نگر پھرتا سندھ کے تاریخی شہر پاٹ آیا اور ستمبر 1541میں ایرانی نژاد شیخ علی اکبر جامی کی بیٹی حمیدہ بیگم سے شادی کر لی۔1542 میں جیسلمیر گیا اور پھر عمر کوٹ کے رانا پرساد کا مہمان ہوا۔سہیل کمبھار نے پختہ اینٹوں کا وہ چھتری نما گزیبو دکھایا جہاں اکتوبر 1542یں ہندو مسلم رواداری کو رواج دینے والا ہندوستان کا پہلا سیکولر بادشاہ پیدا ہوا تھا۔برصغیر میں آگ لگی ہو تب بھی عمر کوٹ میں مذہبی رواداری کا پرچم بلند رہتا ہے۔اکبر سے کئی صدیاں پہلے متحدہ ہند کا ایک سمراٹ اشوک ِاعظم تھا۔ایک ایسا بادشاہ جس نے دنیا میں پہلی مذہبی ریاست قائم کی تھی۔ مسلمان اکبر سیکولر اور بدھ اشوکا مذہبی بادشاہ تھے۔اکبر کی بادشاہی میں عمر کوٹ پر کوئی ٹیکس نہیں تھا!
شہر کے اندر ایک گلی میں کرشن سویٹس کی قدیمی دوکان ہے۔اس دوکان کی مشہوری کی بڑی وجہ پستے کا حلوہ ہے۔برفی، برفی کی ٹافیوں، سوہن حلوے، فالودے اور دودھ کا ذائقہ اب تک دہن میں ہے۔دوکان کی فرنچائز دبئی میں بھی ہے۔اگلی منزل عمر کوٹ کا قلعہ تھا۔یہ قلعہ مارواڑ اور سندھ کے راستے پر ہونے کی وجہ سے اہم ہے۔قلعے کی تعمیر اور شہر کے نام کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔امر سنگھ سوڈھا اور عمر سومرا سے منسوب یہ قلعہ شہر کا بڑا لینڈ مارک ہے۔دروازے کے ساتھ رتن سنگھ کی گھوڑی کے پاوں کا نشان ہے۔گھوڑی جو آخری بار رانے کو وہاں لائی تھی ۔ یاتری کو اداسی نے آن لیا تھا۔اندر ایک ویرانی سی ویرانی تھی۔سومرا حکمرانوں سے یہ قلعہ سوڈھا راجپوتوں نے لے لیا تھا۔انھی راجپوتوں میں سے رانا پرساد سنگھ ہمایوں کا میزبان تھا۔پھر کلہوڑا خاندان قلعے پر قابض ہوا اورکلہوڑوں سے یہ قلعہ جودھ پور کے راجہ نے خرید لیا۔جودھ پور عمر کوٹ سے 343کلومیٹرز کے فاصلے پر ہے۔1813میں قلعہ تالپوروں کے زیرِتسلط آ گیا اور 1843 کے بعد انگریزی قبضہ قائم ہوا۔ قلعہ کے اندر ایک اونچا چبوترہ ہے۔ جہاں رانا رتن سنگھ کو انگریزی استعمار نے پھانسی دی تھی۔رتن سنگھ نے ظالمانہ انگریزی ٹیکسوں کے خلاف مزاحمت کی۔ محمد علی شاہ انگریز کے لئے ٹیکس اکٹھا کرتا تھا۔مرشد نے سامراج کے ہاتھ پر بیعت کی تو رتن سنگھ نے اسے قتل کر دیا۔رانا سے پھانسی کے وقت آخری خواہش پوچھی گئی۔بہادر آدمی نے کہا” میرے ہاتھ کھول دو۔”کھلے ہاتھ رانا نے اوپر اٹھائے ، مونچھوں کو تاو دیا اور کہا کہ اب میں پھانسی کو تیار ہوں۔تھر کے لوگ موت کو قریب سے جانتے ہیں۔رانا کے لئے بھی موت ناٹک تھی۔قلعے میں انگریز ڈپٹی کمشنر واٹسن کی خستہ حال قبر سامراج کا حال کہتی ہے!حافظے میں رتن سنگھ ہیرو ہے۔واٹسن ، قبر ہے۔ بائیں طرف ماروی کے قید خانے میں قلعہ قیدہے۔موت کی بے گورو کفن لاش پڑی ہے۔ محبت شاعری کی اجرک اوڑھے زندہ ہے۔شہرزاد کے بغداد میں بھی ایسا نہ تھا!ماروی ، مومل ، رانو اور رتن سنگھ کے داستانوی شہر میں ایک شاعر ثقافت کا سفیر اور دوسرا کوتوال ہے!

%d bloggers like this: