اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امر روپلو کولہی، کارونجھر کا سورما (1)۔۔۔رانا محبوب اختر

امریکہ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی آبادیاں کم تھی۔نوآبادکاروں نے ان علاقوں کو خالی کرایا، قتل ِعام کیا اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے دو بر اعظم گورے کر دئیے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسروں کے گناہوں کے لئے پھانسی چڑھنے والے مسیحا ہوتے ہیں۔مسیحائی، بہادری ہے، فیاضی ہے، صدقہ ہے، خیرات ہے۔حریت پسند کی بہادری،ہر زمانے کے لئے سوغات ہے۔ہر یزید کے خلاف حسین کی للکار ہے۔کولہی ایسا بہادر سورما تھا جس کی بے سروسامانی نے طاقتور سامراج سے ٹکر لی۔

وفا کا پیکر جس کے نام کے دئیے لوک حافظے میں جلتے ہیں۔ننگر پارکر سے ذرا پہلے ایک اچھا گیسٹ ہاؤس سندھ حکومت نے بنایا ہے۔گیسٹ ہاؤس کے ماتھے پر روپلو کولہی کا نام، عمارت کو معتبر کرتا ہے۔وہاں مسافر قیام کرتے ہیں ، یاتری اساطیری سائبان اوڑھ کر سوتے ہیں۔پیپلز پارٹی کا تاریخی شعور اسطوری ماضی سے روشن ہے۔

روپلو سورما کے قبیلے کی خاتون کرشنا مورتی کو سینیٹر بناتی ہے۔ مصلحت سے مگر کارونجھر جیسے گلابی پہاڑ کو بیچتی ہے۔جہاں یاتری روپلو کی جنم بھومی اور کارونجھر کے گلابی جبل کا طواف کرتے ہیں۔سندھ کا کوہ ِطور ، کارونجھر، فطرت کے نور سے گلابی ہے۔جہاںپتھروں کی زبان سے آہستہ پا بہ نہہ کہ ملک سجدہ می کنم کی صدا آتی ہے!

نیند سے پہلے روپلو کولہی گیسٹ ہاؤس کے کمرہ نمبر 8 میں یاتری نے گیا دن ڈائری میں بند کیا اور ماضی کی کتاب کھول لی! انیسویں صدی استعمار کے عروج کی صدی تھی۔روشن خیالی اور جدیدیت نے خدا کو انسان کی زندگی سے بے دخل کر دیا تھا ۔یورپ نے آبادکاروں کو مشین گن اور مشنریوں کو بائبل کے نئے ایڈیشن دے کر دنیا پر قبضے کے لئے دخانی جہازوں پر بٹھا دیا تھا۔امریکہ سے آسٹریلیا تک زمیں زادوں پر سفید آدمی حکمران تھا۔ کروڑوں لوگ غلام تھے۔

زمیں زاد مرتے تھے اور روشن خیال یورپ ، لوٹ مار، قبضہ گیری اور غلاموں کی تجارت سے ترقی کی منزلیں طے کرتا تھا۔سفید آدمی تہذیب کا بوجھ اتارتا پھرتا تھا۔ قتل کرنا، غلام بنانا، لوٹ کھسوٹ، عصمت دری اور زمینوں پر قبضہ، تہذیب سکھانا تھا۔سرخ ہندی کے امریکہ پر قبضے کے بعد زراعت اور گنے کے کھیتوں پر جبری مشقت کو افریقہ سے بحری جہازوں میں غلام آئے تھے۔

سرخ ہندی کی زمین اور افریقی غلام کی محنت سے گورے آقا دولت کماتے تھے۔دولت کمانے اور تہذیب سکھانے کے لئے دوہری غلامی کا یہ نظام تاریخ نے پہلی بار دیکھا تھا۔افریقی غلاموں کے جسموں پر لوہے کی گرم سلاخوں سے نئے نام اور استعماری کمپنیوں کے ناموں کی مہریں لگتی تھیں۔نام اور زبان بدل کر سامراج مقامی آدمی کی شناخت بدلتا تھا۔نطشے ایک گھوڑے پر چابک پڑتے دیکھ کر پاگل ہو گیا تھا مگر اسی نطشے کے جرمنی میں 1884 میں افریقہ کو تقسیم کرنے کے لئے برلن کانفرنس ہوئی تھی۔

جس میں افریقہ کو برطانوی،فرانسیسی، پرتگیزی،جرمن، بلجیئن، اور ہسپانوی حصوں میں بانٹ کر یورپی چراگاہ بنایا گیا تھا۔ماوری لوگوں کا وطن، نیوزی لینڈ، 1840 میں برطانوی مقبوضہ علاقہ بن چکا تھا۔1840 میں ہی ایک برطانوی بحری جہاز چین کی بندرگاہ پر Opium Wars اور ہانگ کانگ پر قبضے کا سندیسہ لے کر لنگر انداز ہوا تھا۔آسٹریلیا میں 70 ہزار سال سے aborigins بستے تھے۔

یہ وداء سندھ کے پہلے باسیوں کے ہم عصر تھے۔1776 میں امریکی انقلاب کی ابتدا ہوئی تو امریکہ میں برطانوی مجرموں کا داخلہ بند ہوا، آسٹریلیا برطانوی مجرموں کا نیا وطن تھا۔آسٹریلیا میں کوئی ڈھائی لاکھ ایب اوریجن رہتے تھے۔آبادکاروں اور پادریوں نے ان کا قتل جائز قرار دیا، صرف 60 ہزار باقی بچے تھے جن کی اولادیں اپنے وطن میں اب حاشیے پر زندگی کرتی ہیں۔

یہی المیہ ریڈ انڈینز ، ایب اوریجنل لوگوں اور مااوری زمیں زادوں کا ہے۔گورے اب ان ملکوں کے مالک ہیں۔ٹرمپ ان گوروں کے ماضی کا بھوت ہے۔امریکی ریڈ انڈین خوب صورت لوگ تھے۔ایسے حسین اور خودبیں کہ جو یورپی چیچک جیسی بیماری سے بچ جاتے وہ اپنے منہ پر چیچک یا سیتلا کے داغ نہیں دیکھ سکتے تھے، خودکشی کر لیتے تھے۔ مقامی زبانیں مٹ گئیں اور اب امریکہ اور کینیڈا میں انگلش اور جنوبی امریکہ میں ہسپانوی، پرتگیزی، فرانسیسی اور انگریزی جیسی یورپی زبانیں رائج ہو گئیں۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی زبان بھی انگریزی ہے۔ مقامی زبانیں قتل ہوئیں اور جو بچ گئی وہ مٹ رہی ہیں کہ حاشیے پر زندہ زبان رہنے والی زبانیں سماجی رتبے اور معاشی مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتیں۔ظلم کی ایک خونچکاں کہانی ہے جس کا بیان منع نہیں تو معیوب ہے۔نصابی تاریخ میں ان چیرہ دستیوں کا ذکر نہیں اور انگریز سامراج کی تعریف میں سادہ دل لوگ مبالغے کی حد تک چلے جاتے ہیں!

امریکہ ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی آبادیاں کم تھی۔نوآبادکاروں نے ان علاقوں کو خالی کرایا، قتل ِعام کیا اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے دو بر اعظم گورے کر دئیے۔افریقہ کی آبادی بڑی تھی۔ یورپی نوآبادکاروں نے وہاں کے آدمی کو خام مال کی صورت slave trade میں استعمال کیا اور ان کے دماغ میں سامراجیت کا کالا باغ لگایا دیا۔نوآبادکار خدا کی زمین اور خدا کے بندوں کے جسم پر قبضہ کرتے ہیں۔

انسانوںکو کالے اور گورے، بھورے اور پیلے میں تقسیم کرتے ہیں۔ مذہبی تفرقہ بازی کو ہوا دیتے ہیں۔چنوا اچیبھے کے ناول Things Fall Apart میں ایک کردار کہتا ہے کہ گورے آدمی نے ہمارے ہاں چیزوں کو خنجر سے کاٹ کر جدا کر دیا ہے۔

وہ سب اقدار جنھوں نے ہمیں متحد رکھا ہوا تھا بکھر گئی ہیں۔نوآبادکاروں کی بوئی نفرت کی فصلیں ہم کاٹتے ہیں!ہندوستان کی خوشحالی ، زمین ، زبانیں، لوگ اور گوناگونی نے اسے خام مال کی فراہمی اور صنعتی اشیاء کی کھپت کے لئے پر کشش بنا دیا تھا۔یہاں پر سینکڑوں راجباڑے اور 563 آزاد اور نیم آزاد ریاستیں تھیں۔باہمی آویزش کی کیفیت سے حملہ آور کو ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے۔

مگر یہ ایک ترقی پذیر سماج تھا جو فیوڈل عہد سے صنعتی عہد میں داخلے کے درد_ زہ سے گزرتا تھا۔ وسیع سرپلس سرمایہ موجود تھا۔دلی میں ایک رو بہ زوال سلطنت کا چراغ ٹمٹماتا تھا مگر انڈیا اپنے فطری ارتقاء کے راستے پر تھا۔تجارت، صنعت، رسوئی اور فنون_ لطیفہ ترقی کرتے تھے۔ہندوستان کی دولت پورے یورپ سے زیادہ تھی۔

پال کینیڈی کے مطابق 1750 میں ہندوستان کی قومی دولت دنیا کی مجموعی دولت کا 26 فی صد تھی۔اورآبادی 18 کروڑ 21 لاکھ تھی۔ استعماری قبضے نے سب برباد کیا۔انڈیا کو اس کی دولت ، آبادی اور ایک بڑی منڈی کے امکان نے سرخ ہندی اور ایب اوریجن بننے سے تو بچا لیا مگر سامراج نے سماج کو عمودی اور افقی طور پر تقسیم کرکے نفرت کے جہنم میں دھکیل دیا.

ریلوے اور انہار بنا کر مقامی آبادی کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو ۔مقامی آدمی کے biomesیا قدرتی ماحول کو منڈی کی ضرورت کے تابع کرنا مستند سامراجی رویہ ہے۔غریب اور امیر کی بجائے فرقہ بندی سے سماج کو تقسیم کرنا بھی سامراجی قبضے کی ضرورت ہے۔

تمام سامراجی حربوں کے باوجود برطانوی سوداگروں کو انڈیا فتح کرنے میں لگ بھگ سو سال لگے تھے۔ان سو سالوں میں ہزاروں مزاحمت کار، عورتوں اور مردوں نے سامراج کا مقابلہ کیا۔ان میں وینس کی طرح حسین،کانپور کی عزیزاں رقاصہ کی کہانی تاریخ کی گرد میں گم ہے۔رانی آف جھانسی، لکشمی بائی کا قصہ بہادری کی تاریخ کا روشن باب ہے۔

احمد خاں کھرل اور داد فتیانے سروں کے چراغ لئے آزادی کی شاہراہ پر کھڑے ہیں۔منگل پانڈے حریت کا استعارہ ہے۔امر کوٹ کا رانا رتن سنگھ، مدھیا پردیش کا ٹاٹیا ٹوپ، لاہور کا ہرنام سنگھ ساہنی، فیصل آباد کا بھگت سنگھ،یو۔پی کا اشفاق اللہ خاں، سکھر کا ہیمو کالانی ،راجن پور کے غلام حسین مشوری اور بجر خاں گورچانی، ملتان کے حافظ جمال اللہ رح کے مرید غلام حسن گانمن شہید ملتانی اور الپہ ہراج ،رحیم یار خاں کا موسی لکھ پال،کھیری کا نصیرالدین اور بنگال کے علی مسلی بار مقامی لوگوں کے ہیرو ہیں۔پیر جو گوٹھ کے سوریا بادشاہ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی حریت کا مینار ہیں۔سامراج ، کسی کو ڈاکو اور کسی کو پیر کے روپ میں دیکھتا تھا مگر ڈاکو اور مرشد کے لئے ایک ہی پھانسی گھاٹ بناتا تھا۔روپلو کولہی،مقامی مشاہیر کے اس قافلے کے بڑے سورما تھے!!

1839میں گوجرانوالہ کے رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد پنجاب میں سکھ سلطنت رو بہ زوال تھی اور دلیپ سنگھ کے بچپن پر رانی جنداں سے زیادہ سامراجیوں کا سایہ تھا۔ملتان کا مول راج 1849 میں گورے کا قیدی ہو گیا تھا۔بہادر شاہ ظفر اپنی بوڑھی آنکھوں سے مغل شہزادوں کے سر طشتری میں دیکھنے کے بعد رنگون میں موت کے منتظر تھے۔سندھ کی جنگ ِمیانی میں جنرل ہوش محمد شیدی شہید ہو چکے تھے اور میر نصیر خان تالپور1843میں جنگ ہار گئے تھے۔سندھی عزم و حوصلہ زندہ تھا۔حیدر آباد کے پکا قلعہ پر جنرل نیپئر کا سامراجی جھنڈا لہراتا تھا۔کارونجھر، کچھ اور بھج کے علاقوں میں سوڈھے راجپوت اور دراوڑ کولہی مسلسل سولہ سال سے مزاحمت کرتے تھے۔کاورنجھر میں روپلو کولہی مقامی مزاحمتی تحریک کے سرِخیل تھے!(جاری ہے)

یہ بھی پڑھیے:

محبت آپ کی میز پر تازہ روٹی ہے۔۔۔رانا محبوب اختر

عمر کوٹ (تھر)وچ محبوبیں دا میلہ۔۔۔ رانا محبوب اختر

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

%d bloggers like this: