نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

“مولوی مدن” والی بات۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ واقعہ ہوئے تقریباََ 6 ہفتے گزر چکے ہیں۔دل سے مگر اسے نکال نہیں پایا ہوں۔ دل سے زیادہ اثر اس واقعہ کا بلکہ میرے ذہن پر ہوا ہے۔ اس کے ذکر سے قبل البتہ تفصیل بیان کرنا ضروری ہے۔

میرے ایک بھائیوں سے بھی زیادہ عزیز دوست ہیں۔انسان دوست، مخلص اور یاروں کے یار قسم کے مہربان ہیں۔ساری عمر سرکاری نوکری میں گزاری۔سی ایس ایس کے بعد جس شعبے میں گئے ان کی دوستیاں فقط وہیں تک محدود نہیں رہیں۔ وفاق میں شاید ہی کوئی ایسی وزارت ہو جہاں کے سینئر افسروں میں ان کے مداح موجود نہیں۔ طبعاََ حدسے زیادہ میزبان ہیں۔دوستوں کے بغیر رات کا کھانا انہیں انتہائی دشوار محسوس ہوتا ہے۔ موصوف کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں تقریباََ ہر شام ان کی سجائی محفل میں موجود ہوں۔ ان کا گھر تاہم میرے اسلام آباد والے گھر سے بہت دور ہے۔ وہ اگرچہ ڈرائیور بھیج کرمجھے بلاتے اور گھر واپس بھجواتے ہیں لیکن میں سفر سے تھک جاتا ہوں۔کمر کی تکلیف اس کا بنیادی سبب ہے۔

بہرحال آج سے تقریباََ چھ ہفتے قبل انہوں نے مجھے احساس جرم میں مبتلا کردیا۔ایک اور صحافی دوست کے ہمراہ ان کے ہاں جانا ضروری ہوگیا۔ ہم دونوں کے علاوہ اس محفل میں کوئی اور صحافی موجود نہیں تھا۔وہاں میزبان سمیت تمام شرکا کا تعلق بیورو کریسی سے تھا۔ اتفاق یہ بھی ہوا کہ ان کی اکثریت حال ہی میں وزارت خارجہ کے اہم مناصب سے ریٹائر ہوئی تھی۔ ان دنوں کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو یہ جان کو ہرگز حیرت نہیں ہوگی کہ مذکورہ محفل کا مرکزی موضوع آئندہ انتخاب کی تاریخ رہا۔ اس وقت تک نجانے مجھے کیوں یقین تھا کہ موجودہ حکومت کی تحلیل کے بعد نئے انتخابا ت رواں برس کے اکتوبر یا نومبر میں ہر صورت منعقد ہوجائیں گے۔ شرکا کی اکثریت نے تاہم میری رائے سے حد درجہ مہذب انداز میں اختلاف کیا۔ اکثریتی رائے مصررہی کہ آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کی پہلی قسط مل جانے کے بعد نگران حکومت ہی کو مذکورہ معاہدے کی شرائط پر کامل عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا۔ اس ضمن میں نگران حکومت کی ممکنہ قیادت کے لئے بیورو کریسی سے ریٹائرڈ ہوئے چند سینئر ترین افراد کے نام بھی لئے گئے۔ باتوں باتوں میں یہ بھی ”طے ہوگیا“ کہ غالباََ نیا منتخب وزیر اعظم اگلے برس کے 23 مارچ کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھاسکتا ہے۔ اکثریتی رائے کو رد کرنے کے لئے مجھے کج بحثی کی عادت نہیں۔اپنی رائے کی حمایت میں چند دلائل فراہم کرنے کے بعد خاموش ہو گیا۔

جس روز یہ محفل برپا ہوئی اس دن تک مجھے یہ بھی اعتماد تھا کہ انتخابات کو نوے دنوں سے زیادہ ایام تک موخر کرنے کے لئے نئی مردم شماری کو جواز بنایا نہیں جاسکتا۔ یہ بات بھی میرے سمیت اس محفل میں شریک کسی ایک فرد کے ذہن میں بھی نمودار نہ ہوئی کہ نگران حکومت کے وزیر اعظم کو باقاعدہ طورپر منتخب وزیر اعظم کے اختیارات فراہم کرنے کے بعد مسلم لیگ (نواز) موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کو نگران وزیر اعظم نامزد کروانا چاہے گی۔

آئندہ انتخابات کی تاریخ اور نگران وزیر اعظم کا نام مگر اس محفل کے تناظر میں میرے لئے اہمیت کے حامل نہیں ہیں۔ جو واقعہ ذہن سے نہیں اترا وہ میری ذات سے متعلق ہے۔ کھانے کی میز لگ گئی تو میری نشست کے عین سامنے والی کرسی پر جو صاحب بیٹھے تھے بہت ہی نفیس اور ملکی سیاست کے سنجیدہ طالب علم تھے۔حال ہی میں مشرقی ایشیا کے ایک اہم ملک میں سفیر رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے تھے۔ہم دونوں کی نشستیں میز کے پہلے سرے پر تھیں۔ کھانے کی میز کے مرکز سے مگر ایک مہمان نے کوئی موضوع چھیڑا جس نے کافی شرکاکو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ ہم دونوں کو مگر وہ دلچسپ نہ لگا۔ دونوں نے بہتر سمجھاکہ ایک دوسرے سے تعلقات میں مزید قربت کی کوشش ہو۔

اِدھر ادھر کی تعارفی گفتگو کے بعد ان صاحب نے انتہائی شائستہ لہجے میں مجھے اطلاع دی کہ وہ رواں صدی کے آغاز تک مختلف اخبارات کے لئے پارلیمانی کارروائی کے بارے میں انگریزی میں لکھا میرا کالم بہت شوق سے پڑھتے رہے ہیں۔ کئی برسو ں تک تو ملکی سیاست کو سمجھنے کے لئے یہ کالم ان کی دانست میں Must Read تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے مگر وہ اخباروں میں چھپے کالم باقاعدگی سے نہیں پڑھ رہے۔ٹی وی ٹاک شوز سے بھی ان کا جی اکتا چکا ہے۔خود کو ”باخبر“ رکھنے کے لئے وہ اب فقط یوٹیوب سے رجوع کرتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اپنے دو پسندیدہ افراد کے نام بھی لئے جو میری دانست میں تحریک انصاف کا بیانیہ جذباتی تندہی سے اجاگر کرتے ہیں۔ان کی دی ”خبریں“ اگرچہ مجھ پرانی وضع کے صحافی کو یاوہ گوئی کی حدیں پار کرتی محسوس ہوتی ہیں۔

مذکور بالارائے کا اظہار تاہم میں نے معزز مہمان سے نہیں کیا۔منافقت سے زیادہ اس ضمن میں میری خاموشی کا حقیقی مقصد اس امر کا ادراک تھا کہ بنیادی طورپر میں پرنٹ صحافت سے وابستہ رہا ہوں۔زمانہ اب ڈیجیٹل ہوچکا ہے۔اس کی بدولت یوٹیوب چینلوں کی اپنی اہمیت ہے۔ ان کا مذاق اڑانا مجھے احساس کمتری یا ماضی کا اسیر رویہ محسوس ہوتا ہے۔ بات مگر یہاں ختم نہیں ہوئی۔ان صاحب نے نہایت خلوص سے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ وہ کئی برسوں تک مجھے انسانی حقوق اور جمہوری نظام کا بے باک پرچارک شمار کرتے رہے ہیں۔ ان دنوں مگر ان دونوں موضوعات پر انہیں میرے خیالات مختلف ٹی وی سکرینوں پر ماضی کی طرح بلند آہنگ سنائی نہیں دئے۔ قصہ مختصر عمر کے آخری حصے میں گویا اگر میں انہیں ”بکاﺅ“ صحافی محسوس نہ بھی ہوا ہوں تب بھی ”مولوی مدن“ والی بات نہیں رہی۔

جس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے میں عموماََ ایسے واقعات کو ”رات گئی بات گئی“ تصور کرتے ہوئے بھول جاتا ہوں۔ بڑھاپے میں داخل ہوکر غالباََ ضرورت سے زیادہ حساس ہوگیا ہوں۔ مجھے گماں ہے کہ یہ کالم لکھتے ہوئے میری ترجیحات اب بھی وہی ہیں جو 1985ء کے مارشل لاءکی چھتری تلے اگائے ”جمہوری نظام“ کے دوران تھیں۔سوال اٹھتا ہے کہ میرے اس ضمن میں یقین کی حد تک گماں کے باوجود جو مہمان 6 ہفتے قبل ایک محفل میں ملے تھے ان جیسا پڑھا لکھا شخص بھی مجھے ”بکری“ ہوا کیوں محسوس کررہے ہیں۔ یقین مانیں جب بھی یہ کالم لکھنے کیلئے قلم اٹھاتا ہوں تو مذکورہ سوال ابتدائیہ لکھنے کے لئے کافی وقت لگانے کو مجبورکر دیتا ہے۔

 

(بشکریہ نوائے وقت)

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author