نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسحاق ڈار صاحب کا آئندہ انتخابات کی نگرانی کے لئے بنائی عبوری حکومت کا وزیر اعظم ”نامزد“ ہونا میری دانست میں تو اب ناممکن ہو گیا ہے۔ ان کی ممکنہ ”نامزدگی“ کی داستان جس انداز میں پھیلی ہے اس نے مگر مسلم لیگ (نواز) کی سیاسی ساکھ کو شدید زک پہنچائی ہے۔ اس حوالے سے جو کہانی چائے کی پیالی میں طوفان کی طرح اٹھی اس کا ذمہ دار فقط میڈیا کو ٹھہرانا سراسر زیادتی ہوگی۔
ہمارے ایک نوجوان رپورٹر ہیں۔ نام ہے ان کا شہباز رانا۔ معاشی امور پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور دن رات مشقت کے ذریعے وزارت خارجہ سے جڑی خبریں ڈھونڈ کر حکومت کو پریشان کر دیتے ہیں۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں بڑھاپے میں موصوف کی توانائی کا رشک سے عموماً اس کالم میں ذکر کرتا رہتا ہوں۔
اتوار کی صبح شہباز نے اپنے اخبار ایکسپریس ٹربیون کے لئے ایک خبر لکھی۔ کلیدی نکتہ اس خبر میں یہ انکشاف تھا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل سے قبل شہباز حکومت الیکشن ایکٹ کی شق 230 میں ترمیم کرنا چاہ رہی ہے وہ ترمیم اگر پارلیمان سے منظور ہو کر الیکشن ایکٹ کا حصہ بن گئی تو ”نگران“ حکومت محض ”ڈنگ ٹپاؤ“ حکومت نہیں ر ہے گی۔ اپنے مختصر دورِ حکومت میں بھی اسے پاکستان کی معیشت کو درست راہ پر رکھنے کے لئے عالمی اداروں اور دوست ممالک کے ساتھ اہم معاہدے کرنے کا حق میسر ہو گا۔ اس کے علاوہ ”وسیع تر قومی مفاد میں“ وہ آرڈیننس کی صورت ناگہانی حالات سے نبردآزما ہونے کے لئے نئے قوانین کا اجراء بھی کر سکتی ہے۔
بات اگر مذکورہ بالا دو موضوعات تک ہی محدود رہتی تو اس کی وجوہات ملکی سیاست کے سنجیدہ شاہد بآسانی سمجھ سکتے تھے۔ طویل مذاکرات کے بعد بالآخر شہباز حکومت عالمی معیشت کے نگہبان ادارے یعنی آئی ایم ایف سے حال ہی میں ایک معاہدہ طے کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اس کی بدولت ہمیں آئندہ برس کے مارچ تک مختلف اقساط میں تین ارب ڈالر سے زیادہ رقم ”سہارے“ کی صورت فراہم کردی جائے گی۔ پہلی قسط ہمارے خزانے میں جمع ہو چکی ہے۔ دوسری قسط کے حصول کے لئے مگر بجلی کے نرخ بڑھانا لازمی تھا جس کا اعلان گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ہو گیا ہے۔ ”نگران“ حکومت کے لئے اس کے باوجود لازمی ہو گا کہ اپنے عرصہ اقتدار کے دوران وہ آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرائط پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ”ڈنگ ٹپاؤ“ تصور ہوتی حکومت مگر مطلوبہ اعتماد فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ اسی باعث حکومت میں شامل کسی سیانے نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کو ”کاٹنے والے دانت“ فراہم کرنے کی تجویز دی ہوگی۔
آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کے علاوہ ہمیں یہ توقع بھی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں موجودہ حکومت کی کاوشوں کے سبب سعودی عرب اور متحدہ امارات جیسے برا در ممالک کی جانب سے مختلف میگا پراجیکٹس میں بھاری بھر کم سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ توقع ان زرعی منصوبوں سے متعلق باندھی جا رہی ہے جو عسکری اداروں کی معاونت سے متعارف کروائے گئے ہیں۔ ”نگران“ حکومت مگر طویل المدت معاہدوں پر دستخط کی طاقت سے محروم تصور ہوتی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے اس کمزوری کا تدارک ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے معاشی بحران کو نگاہ میں رکھتے ہوئے نگران حکومت کو چند اہم معاملات کے تناظر میں با اختیار بنانے کی تجویز مجھ جیسے خبطی کو بھی ہرگز نامعقول محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ماتھا مگر اس وقت ٹھنکا جب اسی خبر میں یہ دعویٰ بھی ہوا کہ اگر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی بدولت نگران حکومت با اختیار ہو گئی تو موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس حکومت کے وزیر اعظم ہوسکتے ہیں۔ ڈار صاحب سے میری طویل شناسائی ہے۔ باہمی عزت و احترام کا رشتہ ہے۔ بطور متحرک رپورٹر نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران میں نے انہیں نہایت لگن سے پاکستان پر مئی 1998 ء کے ایٹمی دھماکوں کی بدولت نازل ہوئی مشکلات سے نبردآزما ہوتے دیکھا ہے۔ میرے ذاتی مشاہدے کے برعکس عالمی سطح پر مستند شمار ہوتی یونیورسٹیوں سے معیشت کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان دوستوں کی اکثریت اگرچہ مجھے سمجھاتی رہتی ہے کہ ڈار صاحب جس معیشت کے ”ماہر“ ہیں اب اس کا دور نہیں رہا۔ ان کے پاس جو نسخے موجود ہیں وہ دورِ حاضر کے پاکستان کے لئے شافی نہیں۔ علم معیشت سے قطعی نابلد ہوتے ہوئے میں اس ضمن میں البتہ حتمی رائے دینے کے قابل نہیں۔
میڈیا کا طالب علم ہوتے ہوئے تاہم نہایت اعتماد سے اصرار کروں گا کہ جیسے ہی نگران وزیر اعظم کے لئے اسحاق ڈار صاحب کا نام آیا تو میں نے فوراً طے کر لیا کہ الیکشن ایکٹ میں جن ترامیم کی بات ہو رہی ہے وہ اپنے تئیں ”فروعی“ ہیں۔ اصل مقصد ”محفل“ کو اسحاق ڈار صاحب کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی کے لئے سجانا ہے۔ سیاسی اعتبار سے ان کا ”انتخاب“ مجھے مسلم لیگ (نون) کے لئے خودکش حملے کی صورت محسوس ہوا۔ گزشتہ برس کے اپریل سے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے یہ جماعت ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت پر مہنگائی کا عذاب لانے کی مسلسل ذمہ دار تصور ہو رہی ہے۔ جان لیوا مہنگائی اور بے روزگاری سے بوکھلائے عوام یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ان دنوں نازل ہوئے عذاب کا اصل سبب عمران حکومت کے پہلے سال میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کے ذریعے آئی ایم ایف سے ہوا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے میں جن شرائط پر عملدرآمد کا وعدہ ہوا تھا انہیں گزشتہ حکومت نے مقبولیت کھو دینے کے خوف سے نظرانداز کرنا شروع کر دیا۔ حفیظ شیخ کو بھی اسی باعث ذلت آمیز انداز میں فارغ کر دیا گیا۔ ان کی جگہ آئے شوکت ترین نہایت رعونت سے ”سب اچھا“ کی کہانیاں سناتے ہوئے آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانا شروع ہو گئے۔
عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ وہ روزمرہّ زندگی کے کولہو میں جتے ہیں۔ عام آدمی بضد ہے کہ گزشتہ برس کے اپریل تک وطن عزیز میں ”سب ٹھیک“ تھا۔ عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹا کر شہباز حکومت آئی تو ”مہنگائی کا سیلاب“ ہمارے سروں کی جانب بڑھنے لگا۔ کسی حکومت کا وزیرخزانہ اس کی جانب سے نازل ہوئے عذاب کا واحد ذمہ دار تصور ہوتا ہے۔ کوئی پسند کرے یا نہیں ان دنوں ڈار صاحب کے ساتھ بھی ایسا ہی عالم ہے۔ انہیں نگران وزیر اعظم کے طور پر ”مسلط“ کرنا لہٰذا عوام کی اکثریت کو پنجابی محاورے والا ”مور اوور“ محسوس ہوا ہے۔ چونکہ ڈار صاحب نواز شریف کے ایک جذباتی رشتے کے حوالے سے قریب ترین عزیز بھی ہیں اس لئے ان کی بطور نگران وزیر اعظم نامزدگی کی خبروں نے ان کی سیاسی ساکھ کو بھی شدید ضرب لگائی ہے۔
کاش شہباز رانا کی خبر چھپ جانے کے دن ہی ڈار صاحب ڈان ٹی وی کے اینکر کو ایک انٹرویو کے ذریعے مذکورہ خبر کی ”اگر مگر“ والی زبان میں تقریباً ”تصدیق“ کرتے سنائی نہ دیتے۔ انگریزی والا ”ڈیمج (Damage)“ مگر ہو گیا ہے۔ اس کا ازالہ یقیناً دشوار تر ہو گا۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر