اپریل 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کئی ادوار‘ ایک کہانی۔۔۔||رسول بخش رئیس

رسول بخش رئیس سرائیکی وسیب کے ضلع راجن پور کی تحصیل روجھان کے رہنے والے ہیں وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ ملکی ،علاقائی اور عالمی معاملات پر مختلف اخباروں ،رسائل و جرائد میں لکھ بھی رہے ہیں، انکی تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جمہوری اور غیرجمہوری سیاست میں آج کے زمانے میں بھی کسی کو فرق محسوس نہیں ہوتا تو ہم دعا گو ہوں گے کہ اسے فہم و فراست کی توفیق ملے۔ اس کا دل اور دماغ بھی روشن ہوں۔ اگر کوئی جمہوریت کو فضول نظامِ زندگی سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی بات کرے تو سوائے خاموش رہنے کے ہم کر ہی کیا سکتے ہیں۔ چونکہ ہم ایک زرعی ملک ہیں اور آج کل ہمارے حکمران زرعی انقلاب کی نوید سنا رہے ہیں تو ہم بھی پودے کی مثال دینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ تجربے میں ہے کہ ایک جگہ پودا لگایا‘ جگہ پسند نہ آئی‘ اکھاڑ کر کہیں اور لگایا‘ کچھ عرصہ بعد سوچا کہ کہیں اور لگائیں۔ دیکھا کہ ان تبدیلیوں کی وجہ سے پودا سوکھ گیا یا اگر اس میں زندگی کی رمق باقی تھی تو بھی وہ پروان نہ چڑھ سکا۔ ہم نے جمہوریت کے پودے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک کیا۔ سماج اور سیاست کے ارتقا کا عمل تاریخی ہے۔ پودے کی طرح جڑیں مضبوط بنالے تو پھر موسموں کے اثرات‘ آندھیاں اور طوفان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ہمارے حکمران طبقات کے کئی تضادات ہیں۔ حیرت ہے کہ ان تضادات کے ساتھ کوئی باشعور انسان کیسے سکھ اور چین کی زندگی بسر کر سکتا ہے ۔ بات تو جمہوریت اور عوامی راج کی کرتے ہیں مگر ان کے دل میں ایسے نظامِ حکومت کی گنجائش ذاتی مفادات کی حد تک ہے۔ آج کل ہمارے سیاسی اکابرین کی غالب تعداد اور ان کے گماشتے خوش ہیں کہ ایک حریف سیاسی جماعت ختم ہونے کے قریب ہے۔ ان کی یہ پیش گوئیاں بھی ان کے لیے خوش کن ہیں کہ جن کا نو مئی کے واقعات سے کوئی تعلق بنتا ہے‘ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ کل یا پرسوں رانا ثنا اللہ صاحب انتہائی سنجیدگی سے یہ نوید سنا رہے تھے۔ جو جماعت چند ماہ پہلے ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت تھی‘ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کہ موسمی پرندوں نے غیر موسمی ماحولیاتی اثرات سے بچنے کے لیے اڑانیں بھر لی ہیں۔ جس تیزی سے آئے تھے‘ اس سے دگنی رفتار سے پلٹ گئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ معتوب جماعت کے لیے یہ پت جھڑ نئے شگوفوں اور نئی بہار کی آمد کی خوش خبری ہے یا کچھ اور۔ ابھی تک قانونی پابندی تو نہیں لگی مگر شواہد سے مستقبل کے نقشے کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
کہانی ابھی جاری ہے۔ دیکھیں اس میں ابھی کیا کیا موڑ آتے ہیں‘ انجام کیا ہوتا ہے۔ ماضی میں تین سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس کے جو نتائج نکلے وہ ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ پہلی بار تو ایک منتخب حکومت تھی‘ عوامی راج کا جھنڈا بلند تھا اور وزیراعظم صاحب بہت مقبول اور طاقتور تھے۔ ان کی طبع پر سیاسی مخالفین بے حدگراں گزرتے تھے۔ اپنی ذات کا زعم بھی حد سے زیادہ تھا۔ نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی بلوچستان حکومت اور خصوصاً عبدالولی خان کے اس پر سیاسی اثر کو ہضم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ حکومت کو چلتا کیا‘ گورنر راج لگایا اور نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر سو کے قریب رہنمائوں پر غداری کے مقدمات قائم کیے۔ ان میں حبیب جالب بھی تھے کہ انہوں نے لاہور سے نیپ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔ اصل وجہ ان کی انقلابی شاعری تھی جو آج کل ہر نوع کے سیاسی وارثین اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کچھ یاد ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا تھا؟ بلوچستان اور پشتون علاقوں میں شدید ردِعمل‘ طویل عسکریت پسندی اور پھر اس حکومت کا خاتمہ۔ کچھ لفظوں کو آگے پیچھے کرنے کے بعد وہی جماعت بطور عوامی نیشنل پارٹی پاکستان کی سیاست میں آج بھی زندہ ہے۔ اس کاوش سے کیا حاصل ہوا؟
دوسری مثال تو ایسا لگتا ہے کہ کل کی بات ہے۔ 1997ء کے انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) دو تہائی اکثریت لے کر کامیاب ہوئی۔ ہماری تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ تب ہمیں ایسا لگا کہ بہت بھٹکنے کے بعد پاکستان کو ایک مضبوط قیادت اور سمت نصیب ہو سکے گی۔ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات کو نئی اور دلیرانہ جہت دی گئی۔ آنجہانی واجپائی صاحب لاہور تشریف لائے اور ”اعلانِ لاہور‘‘ پر دستخط ہوئے۔ مسئلہ کشمیر پر بات چیت آگے بڑھی اور معاملات سمجھوتے کی طرف جا رہے تھے۔ ”اعلانِ لاہور‘‘ کی اہمیت کا اندازہ آپ کو آنے والے وقتوں میں ہوگا کہ کیسا موقع ہم نے گنوا دیا۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے۔ ایک اور غیر اعلانیہ جنگ اور ایک اور اکھاڑ بچھاڑ کا دور چل نکلا۔ (ن) لیگ کی حریف سیاسی جماعت اس غیرموسمی تبدیلی سے بہت خوش تھی۔ بازاروں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں کہ میاں نواز شریف کی دو تہائی اکثریت توڑنے کے لیے نہ جانے کتنے سال لگتے۔ یہ کام جادو کی ایک چھڑی نے پل بھر میں کر دکھایا۔ پرویز مشرف صاحب کو ماضی کے نام نہ بھائے تو اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا لقب منتخب کیا۔ کچھ عرصہ بعد ریفرنڈم ہوا اور پرویز مشرف نے صدر کا اعزاز بھی سینے پر سجا لیا۔ سابق وزیراعظم پر طیارہ اغوا کرنے کا مقدمہ چلا اور عدالت میں یہ جرم ان کے خلاف ثابت بھی ہو گیا۔ ان کی جان بخشی کیسے ہوئی‘ وہ سب جانتے ہیں۔ مشرف صاحب اپنی تقریروں میں کہتے رہے کہ وہ دو سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیں گے اور ان کے رہنما کبھی پاکستان کی سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکیں گے۔ کچھ عرصہ تک مشرف صاحب کے لیے میدان اتنا صاف رہا کہ ان کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ دونوں جماعتوں کی توڑ پھوڑ سے ایک نئی جماعت بنی اور موسمی پرندوں کا بسیرا وہاں ہوا۔ کیا انجام ہوا اس جماعت کا اور اس دورکا اور ان ماہرین کا جو پاکستان کو نئے سرے سے تعمیر کر رہے تھے؟ تحریک چلی تو گھٹنے ایسے جھکے کہ پھر نہ اٹھ سکے۔ باقی تاریخ ہے۔
بات مکمل نہ ہو اگر ہم ضیا الحق صاحب کے دور کا ذکر نہ کریں۔ ممکن ہے کہ وہ نوے دن میں انتخابات کروا کر رخصت پر چلے جاتے مگر جلد ہی احساس ہوا کہ میدان تو پیپلز پارٹی مارے گی اور اگر ذوالفقار علی بھٹو صاحب دوبارہ وزیراعظم ہو گئے تو پھر کیا ہوگا۔ انہوں نے ٹھان لی کہ اس پارٹی کو ختم کرنا ہے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پارٹی بھی ختم ہو جائے گی۔ یہ زمانہ بھی تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے‘ ہم گواہ ہیں۔ وہ دور بھی اپنے انجام کو پہنچا اور وہ پارٹی آج بھی زندہ اور کسی حد تک اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آج پھر ایک جماعت ایسے ہی دور سے گزر رہی ہے۔ سوچا کہ کچھ تاریخی حوالے آپ کی نذرکردوں۔ ہمارے حکمران طبقات نے ہر دور میں اپنی وفاداریاں کچھ جبر اور کچھ موقع پرستی کی بنیاد پر تبدیل کی ہیں۔ اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کسی کو منفی کرنے اور کئی بار آزمائے حربوں سے کیا حاصل ہوگا‘ سوائے اس لمحاتی اطمینان کے جو ذاتی دشمنوں کو زیر کرکے ایک جاگیردار محسوس کرتا ہے۔ ہم ایک ایسے ملک کی بات کر رہے ہیں جو تجربات اور ذاتیات کی سیاست میں سیاسی اور سماجی توازن کھو بیٹھا ہے۔ اب ہم کسی سے کوئی موازنہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔ یہ دور بھی گزر جائے گا۔ اور اس کے مضر اثرات ہمارے آنے والے دنوں پر ماضی کی نسبت کہیں زیادہ خطرناک ہوں گے۔ فطری توازن معاشرے اور سیاست میں کھلی اور آزاد سیاست سے پیدا ہوتا ہے۔ مصنوعی طریقے کئی بار آزما لیے۔ ہمارے اجڑے دیار کی یہ ایک کہانی کئی ادوار پر محیط ہے۔ بس کردار بدلے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

رسول بخش رئیس کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: