نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"ہٹ مین” کے پیچھے کون ہے۔؟ ۔۔۔|| اظہر عباس

گولڈ اسمتھ خاندان جرمن یہودی نسل کا ایک خاندان ہے، جو اصل میں فرینکفرٹ کے ایم مین سے ہے، جو بینکنگ میں اپنی کامیابی کے لیے جانا جاتا ہے۔ 15ویں صدی میں شروع ہونے کے ساتھ، 1614 کی فیٹملچ بغاوت کے بعد اس خاندان کے زیادہ تر اراکین کو فرینکفرٹ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور وہ 18ویں صدی تک واپس نہیں جا سکے۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے قارئین کو اپنے گزشتہ فروری میں لکھے گئے کالم کے کچھ حصے پیش کرنے پر معذرت خواہ ہوں تاہم چونکہ واقعات اس تیزی سے بیت رہے اور کڑیاں اس طرح مل رہیں کہ یہ نا گزیر ٹھہرتے ہیں

"اگر آپ میرے گذشتہ کالم کو یاد کریں تو روتھ شیلڈز فیملی پر میں پہلے ہی تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ آئیے آپ کو اپنے گذشتہ کالم کا وہ حصہ دوبارہ پڑھنے کی زحمت دیں:

"ہاوس آف روتھ چائلڈز”

روتھ چائلڈز ایک طویل عرصے سے متنازعہ حیثیت کا حامل مالدار یہودی خاندان ہے اور سازشی تھیوریوں والے دنیا کو ان کے کنٹرول میں ہونا ثابت کرتے رہتے ہیں۔

روتھ چائلڈ کا دعویٰ ہے کہ وہ یہودی ہیں، جب کہ حقیقت میں ان کا تعلق خزریا نامی ملک سے ہے جو بحیرہ اسود اور بحیرہ کیسپین کے درمیان کی سرزمین پر قابض تھا۔ جو اب زیادہ تر جارجیا کا حصہ ہے۔ روتھ چالڈز کے یہودی ہونے کا دعویٰ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بادشاہ کی ہدایت پر خزاروں (خزریا کے مقامی باشندے) نے 740 عیسوی میں یہودی عقیدہ اختیار کیا، لیکن یقیناً اس حکم میں ان کے ایشیائی منگول جینز کو یہودیوں کے جینز میں تبدیل کرنا شامل نہیں تھا۔

آپ دیکھیں گے کہ آج دنیا میں تقریباً 90% لوگ جو خود کو یہودی کہتے ہیں درحقیقت خزر ہیں، عرف عام میں آپ انہیں اشکنازی یہودی کہہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ دانستہ طور پر دنیا کے سامنے اپنے دعوے کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ اسرائیل کی سرزمین پیدائشی طور پر ان کی ہے، جب کہ حقیقت میں ان کا اصل وطن جارجیا میں 800 میل سے زیادہ دور ہے۔ اسرائیل کا ہر وزیر اعظم اشکنازی یہودی رہا ہے۔

آج دنیا میں اشکنازی یہودیوں کا رہنما روتھ چائلڈز خاندان ہے۔ کہنے والے الزام لگاتے ہیں کہ روتھ چائلڈز نے جھوٹ، ہیرا پھیری اور قتل کے ذریعے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ ان کی بلڈ لائن یورپ کے شاہی خاندانوں تک بھی پھیلی ہوئی ہے، اور درج ذیل خاندانی نام: Astor؛ بنڈی کولنز؛ ڈوپونٹ؛ فری مین؛ کینیڈی مورگن؛ اوپن ہائیمر؛ راک فیلر؛ ساسون; شِف؛ ٹافٹ اور وان ڈوئن انہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

گولڈ اسمتھ خاندان جرمن یہودی نسل کا ایک خاندان ہے، جو اصل میں فرینکفرٹ کے ایم مین سے ہے، جو بینکنگ میں اپنی کامیابی کے لیے جانا جاتا ہے۔ 15ویں صدی میں شروع ہونے کے ساتھ، 1614 کی فیٹملچ بغاوت کے بعد اس خاندان کے زیادہ تر اراکین کو فرینکفرٹ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور وہ 18ویں صدی تک واپس نہیں جا سکے۔

یہ خاندان خاص طور پر روتھ چائلڈ خاندان، مینز کے بِشوف شیم خاندان، اور موناکو کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک بارٹولوم فیملی کے ساتھ جڑا ہوا تھا۔ Bischoffsheim اور Goldschmidt خاندانوں نے مشترکہ طور پر Bischoffsheim، Goldschmidt اور Cie بینک کا انتظام کیا، جسے بالآخر 1863 میں Banque de Crédit et de Dépôt des Pays-Bas میں ضم کر دیا گیا، جو BNP Paribas کا پیش خیمہ تھا۔

خاندان کی انگریزی شاخ نے اپنا نام گولڈسمتھ رکھ دیا، جس کا آغاز فرینک گولڈسمتھ (1878–1967) سے ہوا۔ اس کا سب سے مشہور 20 ویں صدی کا رکن ارب پتی جیمز گولڈ اسمتھ تھا۔ آج سب سے مشہور زیک گولڈ اسمتھ ہیں، جو رچمنڈ پارک کے ایم پی تھے۔

کچھ اندازہ ہوا کہ کچھ کٹھ پتلیوں کی تاریں کہاں تک جا رہی ہیں ؟

ایک غیر مستحکم اور انتشار زدہ پاکستان کسے سوٹ کرتا ہے ؟”

1947 سے لے کر2018 ء تک پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 29ہزار 800ارب روپے تھا جس میں عمران خان کی حکومت کے 36 ماہ میں 24 ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا، اس طرح مجموعی قرض 45 ہزار ارب روپے ہو گیا۔ عمران خان کی حکومت ختم ہوئی تو یہ قرض 51ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اس وقت پاکستان قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے

گولڈ اسمتھ فیملی کے داماد کو ذہن میں رکھ کر سوچیں گے تو تمام سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔”

اب آئیے جنیوا میں اقوام متحدہ کے حالیہ اجلاس کی طرف جس میں حیرت انگیز طور پر اسرائیلی سفیر نے پاکستان پر تنقید کے تیر برسائے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53 ویں اجلاس میں پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی جس پر کونسل ممالک بشمول اسرائیل نے گفتگو کی۔

اقوام متحدہ میں اسرائیل کی نائب مستقل مندوب آدی فرجون نے پاکستانی مندوب کی موجودگی میں کہا کہ اسرائیل کو پاکستان میں انسانی حقوق کی مجموعی صورت حال پر گہری تشویش ہے جہاں جبری گمشدگیاں، تشدد، پرامن احتجاج پر کریک ڈاؤن، مذہبی اقلیتوں اور دیگر پسماندہ گروپوں کے خلاف تشدد جاری ہے۔

انہوں نے بیان میں مزید کہا کہ اس حوالے سے اسرائیل اس بات پر مایوس ہے کہ پاکستان کے چوتھے جائزے کے دوران اس کی تمام سفارشات کو نوٹ کیا گیا۔

پاکستان کے حوالے سے کل 340 سفارشات موصول ہوئی تھیں جن میں سے 253 کو پاکستان کی حمایت حاصل ہوئی جب کہ 87 کو صرف نوٹ کیا گیا جن میں اسرائیل کی سفارشات بھی شامل تھیں۔

اسرائیل کا اپنی سفارشات میں مزید کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ پاکستان من مانی گرفتاریوں، تشدد، دوسرے ناروا سلوک کو روکنے، ایسی کارروائیوں کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور سزائے موت کے وسیع استعمال،خاص طور پر بچوں اور معذور افراد کے معاملے میں، ختم کرنے کے لیے ہماری سفارشات پر عمل کرے۔

اسرائیل پاکستان پر یہ بھی زور دیتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے عالمی معیارات کے مطابق ہم جنس پرستی کی قانونی اجازت دے اور امتیازی سلوک کے خلاف جامع قانون سازی کرے جو جنسی رجحان اور صنفی شناخت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا خاتمہ کرے۔

پاکستان میں توہین مذہب کے حوالے سے قوانین پر نائب مندوب کا کہنا تھا کہ جنوری 2023 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے توہین مذہب کے ان قوانین کو سخت کرنے کی قرارداد منظور کی جو اکثر مذہبی اور دیگر اقلیتیوں کو ہدف اور انہیں جبر کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

کیا کسی کو اب بھی کوئی شک ہے کہ پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے کھیلے جانے والے کھیل کے کھلاڑی کے پیچھے کون ہیں ؟

اب ائیے اس طرف کہ اس کھلاڑی اور اس کے مینیجرز نے پاکستان کی معاشی تباہی میں کیا کردار ادا کیا ؟

عمران خان کی جمائما سے شادی کے بعد ان کے یہودی لابی سے تعلقات اور ان کا اثر و رسوخ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ بش کی کامیابی کیلئے عمران خان کے نوافل ادا کرنے کی باتیں اور اپنے سسرال کی مدد سے وائٹ ہاؤس تک رسائی پانا خاصے معنی خیز واقعات تھے۔

اسی زمانے میں پاکستان کے اندر کچھ دور اندیش لوگوں نے صراحتاً واضح کردیا تھا کہ عمران خان کا پاکستانی سیاست میں آنا محض اتفاقاً نہیں تھا اسے سیاست میں لایا گیا تھا۔

عمران خان سیاست میں متحرک رہے، بیرونی آقاؤں کی مدد سے سوشل میڈیا کے ذریعے سچے جھوٹے قصے بنا کر لوگوں کے دل و دماغ کو قابو کرنے کی سعی میں لگے رہے اور پھر اسٹیبلشمنٹ کے کچھ لوگوں نے بھی ایڈونچر کا شوق پالتے ہوئے انہیں گود لے لیا اور یوں 20 سالہ بیرونی سرمایہ کاری بالآخر اپنی منزل پر پہنچ گئی اور 2018 میں انہوں نے اقتدار حاصل کرلیا۔

کچھ عرصے بعد جب اسٹبلشمنٹ نے اپنا ہاتھ ان کے سر سے اٹھایا تو اس وقت تک ملکی معیشت بیٹھ چکی تھی، چلتی ہوئی گاڑی لڑکھڑا رہی تھی۔

کچھ عرصہ قبل دنیا کے مشہور معاشی قاتل جان پرکنز کی سوانح عمری Confessions of an Economic Hitman شائع ہوئی جس میں جان پرکنز نے یہ انکشاف کیا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی ادارے پسماندہ ممالک کو قرضے دے کر اپنے جال میں پھنساتے ہیں اور اُن کی معیشتوں کو گروی رکھ لیتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے یہ مالیاتی ادارے ہٹ مین کے ذریعے پسماندہ ممالک کی لیڈرشپ کو قائل کرتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں معیشت کے حوالے سے عالمی مالیاتی اداروں سے بڑی رقوم قرض لیں تاکہ انہیں قرض کے بوجھ تلے دبایا جاسکے۔ جان پرکنز کے بقول یہ ادارے معاشی قاتلوں کا موثر آلہ ہیں جو قدرتی وسائل سے مالا مال پسماندہ ممالک کیلئے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے بڑے قرضوں کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ مغربی مشاورتی کمپنیوں کی کنسلٹنسی فیس کی مد میں ادا کردیا جاتا ہے اور پھر پاور ہائوس، انفراسٹرکچر اور انڈسٹریل پارک جیسے ترقیاتی منصوبے بھی مغربی کمپنیوں کو دے دیے جاتے ہیں جبکہ اِن قرضوں سے ہونے والی کرپشن بھی لوٹ کر واپس مغربی ممالک پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح یہ پسماندہ ممالک قرضوں کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں جنہیں وہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ بالاخر اِن ممالک کو عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط ماننا پڑتی ہیں، پھر یہ ادارے ان ممالک کے حکمرانوں کو نادہندگی سے بچانے کیلئے قرضے ری اسٹرکچر کرنے کی تجویز دیتے ہیں اور اس طرح قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید نئے قرضے دے کر عالمی مالیاتی اداروں کو ان ممالک کی معیشت گروی رکھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ ایسی صورتحال میں ان ممالک کے قدرتی وسائل، تیل، گیس اور معدنی ذخائر پر مغربی طاقتوں اور مالیاتی اداروں کی ملٹی نیشنل کمپنیاں کنٹرول حاصل کرلیتی ہیں جبکہ ان ممالک کو مغربی ممالک اپنے فوجی اڈوں کے قیام اور اُن کے راستے دفاعی اشیا کی آمد و رفت جیسے معاہدے کرنے پر بھی مجبور کرتے ہیں۔

کچھ اندازہ ہوا کہ عالمی ساہوکاروں نے پاکستان کو معاشی اور معاشرتی طور پر انتشار کا شکار کرنے کیلئے کس ہٹ مین کو میدان میں اتارا تھا ؟

داد دیجئے کہ اب تک اس نے اپنا کام بہت خوبی سے سر انجام دیا ہے۔

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author