نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

قربانیوں کی تاریخ ۔۔۔|| اظہر عباس

پنجاب اور کراچی کے لوگوں میں بھارت مخالف جذبات بہت گہرے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی انداز اختیار کیا۔ بھارت مخالف جذبات اور استحصال سے پاک معاشرہ کے نعروں کے ذریعہ اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دی۔ مولانا بھاشانی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سابق صدر ایوب خان کی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔

اظہرعباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج کی نوجوان نسل پیپلز پارٹی کی تاریخ اور اس کی جدوجہد سے ناواقف ہے اور اسی بنا پر متعصب میڈیا کے تعصب کا نشانہ آسانی سے بن جاتی ہے۔ کئی دفعہ خیال آیا کہ نئی نسل کو پیپلز پارٹی کی تاریخ اور قربانیوں نیز اس کی جدوجہد سے حاصل کردہ کامیابیوں سے روشناس کرایا جائے لیکن ہر دفعہ ایسے موضوعات سامنے آئے کہ یہ ارادہ ملتوی ہوتا گیا۔ اس بار مصمم ارادہ کیا کہ جو کچھ بھی اور جتنا بھی مواد مل سکتا ہے وہ اکٹھا کر کے اسے کچھ جامع شکل دی جائے اور دوستوں سے گزارش کی جائے کہ اس میں جو اپنا حصہ ڈال سکتا ہے ڈالے اور جہاں غلطی کی ہے اس کی درستگی ہو سکے اور جہاں کسی اضافے کی ضرورت ہے وہ تجویز ہو سکے۔ کوشش کی ہے کہ متنازعہ امور سے بچ کر نکلا جائے تاکہ ایک عمومی تصویر سامنے ہو۔ یاد رہے کہ یہ مختلف جگہوں سے اکٹھا کیا گیا ایک ریسرچ پیپر ہے۔

پنجاب اور سندھ میں کمیونسٹ پارٹی، کسان اور مزدور تنظیمیں گزشتہ صدی کی 40ء کی دہائی سے قائم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ہندوستان کے بٹوارے کے بعد سے ملک میں کمیونسٹ پارٹی نے طلبہ، مزدور اور کسان تنظیموں کو منظم کرنا شروع کیا تھا۔

50ء کی دہائی کے آخری برسوں میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی کے بعد نیشنل عوامی پارٹی وجود میں آئی۔ نیشنل عوامی پارٹی میں بلوچ اور پختون قوم پرستوں کے ساتھ مختلف کمیونسٹ گروپ، کسان اور مزدور تنظیموں کے نمایندے شامل تھے۔

اگرچہ 1965 میں نیشنل عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی تھی مگر نیشنل عوامی پارٹی بھاشانی گروپ کے کارکن پنجاب میں مزدور، کسان دانشوروں اور صحافیوں کی تنظیموں میں متحرک تھے۔ نیشنل عوامی پارٹی نے 1970 میں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں سب سے بڑی کسان کانفرنس منعقد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو اعلان تاشقند کی مخالفت پر ایوب خان سے علیحدہ ہوئے۔

پیپلز پارٹی 1967میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر واقع لاہور میں قائم ہوئی اور ذوالفقار علی بھٹو پارٹی کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے اس پہلے جلسہ میں اکثریت کا تعلق درمیانہ اور نچلے متوسط طبقہ سے تھا۔

اس جلسہ کے شرکاء ڈاکٹر مبشر حسن، کسان رہنما شیخ رشید، اسلم گورداس پوری، حنیف رامے، معراج محمد خان، خورشید حسن میر، مختار رانا وغیرہ سوشل ازم کو نجات کا راستہ جانتے تھے۔ جاگیرداروں میں غلام مصطفی کھر، ممتاز بھٹو اور غلام مصطفی جتوئی اجلاس میں شریک تھے۔

پیپلز پارٹی نے طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، سوشل ازم ہماری معیشت ہے اور اسلام ہمارا مذہب ہے کے نعروں سے سیاست کا آغاز کیا تھا، بعد ازاں حنیف رامے کی وضح کردہ اسلامی سوشل ازم کی اصطلاح کو اپنے نعرہ کا حصہ بنایا

پنجاب اور کراچی کے لوگوں میں بھارت مخالف جذبات بہت گہرے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی انداز اختیار کیا۔ بھارت مخالف جذبات اور استحصال سے پاک معاشرہ کے نعروں کے ذریعہ اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دی۔ مولانا بھاشانی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سابق صدر ایوب خان کی گول میز کانفرنس کا بائیکاٹ کیا۔

کمیونسٹ پارٹی چین نواز گروپ نے پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا، یوں بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن پیپلز پارٹی کی حمایت کرنے لگی۔ سندھ میں سندھی متوسط طبقہ اور نچلے متوسط طبقہ نے پیپلز پارٹی کو اپنایا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے عوامی کردار کے ذریعہ عوام کو ایک نیا سیاسی شعور دیا، یوں پیپلز پارٹی 1970 کے انتخابات میں سندھ اور پنجاب سے اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آنے کے بعد بنیادی اصلاحات کیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی تعلیمی اور زرعی اصلاحات اور مزدور کے حقوق کی پالیسی نے عوام کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کیا۔ ان کی خارجہ پالیسی سے ایشیائی اور افریقی ممالک سے تعلقات استوار ہوئے۔

بھٹو صاحب کی شخصیت اور پالیسیاں تھیں کہ جنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے خلاف تاریخی مزاحمت ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تاریخ کو اہمیت دی، ان کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی تاریخی مزاحمت نے اسٹبلشمنٹ کو 1973کا آئین بحال کرنے پر مجبور کیا۔

بے نظیر بھٹو کی جرات اور بہادری نے پیپلز پارٹی کو ایک نئی قوت عطا کی، بیگم نصرت بھٹو اوربے نظیر بھٹو جب تک زندہ رہیں پیپلز پارٹی کا عوامی کردار برقرار رہا۔

شہید بینظیر بھٹو نے 1988 سے 1990 اور 1993 سے 1996 تک پاکستان کی 11ویں اور 13ویں وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔

وہ ایک مسلم ملک میں جمہوری حکومت کی سربراہی کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔

اپنے دور میں شہید بے نظیر بھٹو نے انتہائی اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود کئی اہم کارنامے سرانجام دیے۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں

تمام صوبوں میں علمائے کرام کے کنونشنز کا انعقاد، چین کے ساتھ نیوکلیئر پاور پلانٹ کا قیام، روس کے ساتھ پاکستان میں اسٹیل ملز پر اتفاق، پاکستان کو دولت مشترکہ کے ممالک میں شامل کرنا، پاکستان میں سارک کانفرنس کا انعقاد، دوطرفہ تعلقات کی بحالی۔

ہندوستان اور 1988 میں غیر جوہری جارحیت کے معاہدے پر دستخط، روسی فوج کا پرامن انخلاء اور افغانستان میں امن کے اقدامات کو فروغ دینا، پاکستان میں جمہوریت کی بحالی، کشمیر کاز کے لیے مہم چلانا اور اسلامی ممالک کی حمایت حاصل کرنا، دفاع میں خود انحصاری کے ذریعے دفاع کو مضبوط بنانا۔ پاکستان کے اندر ہوائی جہاز بنانے کی صنعت کا آغاز کرنا، سیاچن گلیشیئر کا دورہ کرنے والی پہلے وزیر اعظم بننا، ضرب مومن فوجی مشقوں کا آغاز کرنا، پاکستان میں آزادی صحافت کے خلاف تمام کالے قوانین کو ختم کرنا، نیشنل پریس ٹرسٹ کو پرائیویٹ سیکٹر میں منتقل کرنا اور پرنٹ میڈیا پر حکومتی کنٹرول ختم کرنا، پچھلی حکومتوں کی جانب سے سیاسی وجوہات کی بناء پر برطرف کیے گئے ٹی وی اور ریڈیو ملازمین کو بحال کرنا، بیواؤں اور یتیموں کو ماہانہ وظیفہ دینا، بیرون ملک منڈیوں میں پاکستانیوں کے لیے مواقع، فیڈرل یوتھ کونسل اور یوتھ افیئرز کے لیے ایک علیحدہ وزارت کا قیام، وزارت برائے انسدادِ روزگار منشیات اور منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے ملک گیر کلینک کا قیام، منشیات کی سمگلنگ میں کمی، ہر شہر اور قصبے میں جدید سڑکوں کی تعمیر۔ تیل اور گیس کی پیداوار میں 22 فیصد اضافہ، ملک بھر میں لاکھوں صارفین کو گیس فراہم کرنا، پیٹرو کیمیکل پروجیکٹ اور ٹویوٹا کرولا پلانٹ سمیت تین میگا صنعتی منصوبوں کی حوصلہ افزائی، کراچی اسٹاک ایکسچینج میں تاریخی اضافہ، سونے کی درآمد پر پابندی ہٹانا، مہنگائی کی شرح کو 9% سے کم کر کے 5% کرنا، مفت سائیکلیں تقسیم کرنا، پیپلز پروگرام کے تحت 64,400 نئی ٹیلی فون ایکسچینج لائنوں، 99,391 ٹیلی فون کنکشنز کے اضافے کے ساتھ ٹیلی کام کے شعبے کو نمایاں طور پر آگے بڑھانا، اور 14 اضافی شہروں کو ٹیلی فون کے ذریعے منسلک کرنا، بلوچستان ٹیکسٹائل ملز کو دوبارہ کھولنا، ایک ہی سال میں 4000 سے زائد دیہاتوں کو بجلی فراہم کرنا۔ پہلی بار، 35 دن یا اس سے کم وقت میں بجلی کا کنکشن حاصل کرنے کے عمل کو ہموار کرنا، بجلی کے شعبے میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کرنا، 60,000 نئے خواندگی مراکز کا قیام، فصلوں اور کسانوں کی املاک کے تحفظ کے لیے دور دراز کے علاقوں میں سیلاب پر قابو پانے کے اقدامات کو نافذ کرنا، خواتین کی تنظیم کا قیام۔ وزارت برائے صنفی ترقی اور خواتین کے مخصوص مسائل کو حل کرنے، زمین کو صاف کرنے کے لیے اسکیمیں تیار کرنا، تین سال کے اندر لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے لیے حکمت عملی بنانا، ملک بھر میں 445 پوسٹل آفس کھولنا، کراچی میں پورٹ قاسم کی توسیع، کراچی اسٹیل ملز کو منافع بخش بنانا۔ 1989 کا وقت، اور ہیوی مکینیکل کمپلیکس کو نقصان سے بدلنا ہستی کو منافع بخش بنانا۔

اس کے علاوہ بے نظیر بھٹو نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیا اور 2005 میں میاں نواز شریف کے ساتھ میثاق جمہوریت پر اتفاق کرنے اور اسٹبلشمنٹ کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی۔

میں نے انہیں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد مارشل لا کیخلاف طویل جدوجہد کرتے، جیلیں کاٹتے اور دومرتبہ وزیرِاعظم بننے کے بھی مراحل سے گزرتے دیکھا ہے، شہید بی بی نے شاید ہی کوئی سکھ کا سال دیکھا ہو، نوجوانی میں اپنے والد کو شہید ہوتے دیکھا، پھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، ضیاالحق جیسے آمر سے لڑتے ہوئے ثابت کیا کہ ایک عورت کتنی مضبوط اور طاقتور ہو سکتی ہے۔ شہیدبینظیربھٹو 1988میں وزیراعظم بنیں. بینظیر بھٹو شہید وزیر اعظم تو بن گئیں لیکن ملک کے ادارے انھیں وزیراعظم قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ ان کے خلاف بھرپور سازشیں تو 77 سے ہی ہو رہی تھیں لیکن وزیراعظم بننے کے بعد بھی یہ سازشیں ختم نہ ہوئیں، ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو شہید بینظیر بھٹو کے خلاف استعمال کر کے پیغام دیا گیا کہ وہ جب چاہیں انھیں وزیر اعظم ہائوس سے نکال باہر کرینگے اور پھر یہی ہوا 1990میں ان کی پہلی حکومت ختم کردی گئی۔1990ءمیں جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو پی پی پی کو شکست دینے کے لئے بھرپور طریقے سے مہم چلائی گئی، سرکاری پیسہ خرچ کیا گیا، مہران بینک جیسے اسکینڈل بھی ہمیں دیکھنے کو ملے، یہ دھاندلی سے بھرپور انتخابات تھے، جس کا نشانہ پی پی پی کو بنایا گیا، پھر اس دھاندلی کا کیس عدالت بھی گیا اور دنیا نے دیکھا کہ عدالتوں میں کیا ہوا. بی بی شہید ایک بار پھر 1994میں وزیر اعظم بننے میں کامیاب ہوئیں تو سازشی چہرے تبدیل ہوچکے تھے مگر ان کی سازشیں اور رویہ یکسر وہی تھے، شہید بی بی کو اس دور میں بھی وزیر اعظم ہائوس سے باہر کرنے کیلئے ہر طریقہ اپنایا گیا، بینظیر بھٹو کو اپنے ہی دور میں اپنے بھائی میر مرتضی بھٹو کے قتل کا دکھ بھی سہنا پڑا، اس دور میں کراچی میں ایم کیو ایم کے ہاتھوں پی پی پی کے کارکنان بھی قتل ہوتے رہے. بی بی شہید کو ہمیشہ پاکستان کی مقتدرہ نے ناقابل قبول سمجھا اور انھیں قتل کرنے کی کئی بار پلاننگ کی گئی جو ناکام ہوتی رہیں مگر 27دسمبر 2007کو دشمن کا وار کامیاب ہوا اور بی بی شہید کو قتل کرکے جائے واردات پر تمام ثبوت مٹانے میں دیر نہ کی گئی۔

وہ ایک پختہ ارادہ و پُراعتماد سیاستدان تھی تاہم اس کے باپ کے مقدمے اور صدمے نے اسے دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی افسردگی اور تکلیف نے اسے غریب عوام سے مزید گہری وابستگی عطا کی۔

بے نظیر ایک دانشور تھی، جس کی ایک جلد میں کئی ابواب اور ہر باب میں کئی کئی نظریے تھے۔ وہ تکالیف سے گزرتی ہوئی ڈان کوئیکزوٹ کی طلسماتی کہانی کا کردار تھی جو اپنے سفر کے دوران تن تنہا کئی اژدہے مار سکتا ہے۔ بے نظیر کی زندگی ہوائی چکی کے پنکھوں کی طرح گھومتے گھومتے ہی گزری جبکہ اس کی زندگی میں موجود اڑدہے بھی اصلی تھے۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو نئی قوت دی پیپلز پارٹی نے پانچ سال وفاق میں حکومت کی اور وہ پچھلے 14 سال سے سندھ میں برسر اقتدار ہے۔

پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ آئین میں کی گئی اٹھارہویں ترمیم ہے۔ اس ترمیم کے تحت صوبے حقیقی وفاقیت کے قریب ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالہ سے بہترین قانون سازی ہوئی۔

پیپلز پارٹی نے عوام کو شعور دیا۔ اس کی قیادت نے جانوں کی قربانی دی، اس کی بقاء ایک جدید ترین سیاسی جماعت میں مضمر ہے جس کے پس پشت طلبہ، خواتین، مزدور، کسان، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں ہوں۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن متوسط طبقہ کی جماعتیں ہیں، پیپلز پارٹی مظلوم طبقات کی اب بھی قیادت کرسکتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں پھوٹنے والی روشنی ہی عالمی سازشی عناصر سے بی بی کی شہادت کا انتقام ہے۔بی بی کے قاتل آج بلاول بھٹو زرداری کو عالمی افق پر اس طرح نمودار ہوتے ہوئے یقینی طور پر ماتم کرتے ہونگے کہ جس بی بی کو شہید کردیا گیا و ہ بھی باپ کی طرح امر ہو چکی ہے۔

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

اظہر عباس کے مزید کالم پڑھیں

About The Author