نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام پاکستانیوں کی اکثریت کی طرح علم معاشیات کی مبادیات سے قطعاََ لاعلم مجھ ”صحافی“ کو بھی مختلف حکومتوں کے وزرائے خزانہ کی جانب سے نئے مالی سال کا بجٹ متعارف کروانے والی تقاریر سمجھ نہیں آتیں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے ہماری حکومتیں مگر ”خسارے“ کا بجٹ ہی متعارف کرواتی رہی ہیں۔سادہ زبان میں ایسا بجٹ بنیادی پیغام یہ دیتا ہے کہ حکومت ریاستی بندوبست چلانے کے لئے میرے اور آپ پر لگائے ٹیکسوں کے ذریعے مطلوبہ رقوم جمع نہیں کرپائی ہے۔آمدنی اور متوقع خرچے میں جو خسارہ نمودار ہو اہے اسے قرض کے ذریعے پورا کرنا پڑے گا۔ قرض کے ذریعے ریاستی بندوبست چلائے رکھنے کی عادت نے بالآخر ہمیں اس مقام تک پہنچادیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران ہمیں سب سے زیادہ رقم غیر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے لئے قرض کے سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑے گی۔ جو رقم اس مد میں درکار ہے وہ قومی سلامتی کے لئے لازمی دفاعی بجٹ کے لئے مختص ہوئی رقم سے بھی کہیں زیادہ ہے۔
9 جون کی شام نئے مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے ہمارے وزیر خزانہ مگر مذکورہ حقیقت کی بابت فکر مند سنائی نہ دئے۔ ان کی تمام تر توجہ عمران حکومت کی معاشی پالیسیوں کی نواز شریف کی تیسری حکومت کی بنائی پالیسیوں کے ”تقابلی جائزے“ پر مرکوز رہی۔ اس کالم کے دیرینہ اور باقاعدہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ میں گزشتہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کا شدید ناقد رہا ہوں۔ میری دانست میں اپنا پہلا بجٹ تیار کرنے سے قبل گزشتہ حکومت نے ضرورت سے زیادہ گھبراہٹ میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی وساطت سے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا وہ کساد بازاری کو یقینی بنانے کا مجرب نسخہ تھا۔اس پر عملددرآمد شروع ہوا تو تحریک انصاف کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے اراکین اپنے حلقوں میں بقول ان کے عوام کو ”منہ دکھانے جوگے “نہ رہے۔ بطور وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ اس کے باوجود انہیں اور ہمیں یہ سمجھانے میں قطعاََ ناکام رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کی کڑوی گولی نگلنا کیوں ضروری ہے۔ کسی طبیب کی طرح محض یہ اطلاع دے کر مطمئن ہوجاتے کہ ملکی معیشت کو ایسی کیموتھراپی کی ضرورت ہے جو انسانوں کو کینسر جیسے موذی مرض سے بچانے کے لئے لازمی قرار پاتی ہے۔
عوام کے منتخب نمائندوں کے دلوں میں ابلتے سوالات کا دوستانہ ماحول میں جواب فراہم کرنے کے بجائے موصوف نے ٹیکنوکریٹس سے مختص رعونت اپنائے ر کھی۔انہیں اپنے ”علم“ پر بہت ناز تھا۔ قومی اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران ایوان میں کھڑے ہوکر ”حیرت“ کا اظہار کیا کہ معیشت جیسا ”سنجیدہ“ موضوع چند ایسے لوگ بھی زیر بحث لاتے ہیں جو عالمی سطح پر مستند شمار ہوتی کسی یونیورسٹی یا عالمی ادارے میں داخل ہونے کے قابل بھی نہیں۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ فقط شاہد خاقان عباسی نے ان کے حقارت بھرے فقروں کو سنجیدگی سے لیا تھا۔ ایوان میں کھڑے ہوکر اپنے سمیت کئی منتخب اراکین کے نام لئے جنہوں نے معروف عالمی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کررکھی ہے۔
ہمارے ”منتخب نمائندوں“ کی اکثریت وقتی طورپر خاموش رہتے ہوئے اپنی بے عزتی برداشت کرنے کی عادی ہے۔بدلہ اتارنے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کرتی ہے اور یہ وقت انہیں مارچ 2021ءمیں مل گیا جب اسلام آباد سے سینٹ کی خالی ہوئی ایک نشست پر طویل گوشہ نشینی کے بعد سیاست کے میدان میں اترے یوسف رضا گیلانی حفیظ شیخ کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے۔خفیہ ووٹ کی سہولت کو سابق حکمران جماعت کے بنچوں پر بیٹھے کئی افراد نے گیلانی صاحب کی حمایت میں استعمال کیا۔ حیران کن شکست سے دو چار ہونے کے بعد حفیظ شیخ کا وزارت خزانہ پر براجمان رہنا ناممکن ہوگیا۔ ان کی جگہ شوکت ترین آئے۔انہوں نے اعدادوشمار کو اس انداز میں پیش کرنا شروع کردیا جو پاکستان کی معیشت ”بحال“ ہوتا ہی نہیں بلکہ اسے ”خوشحالی“ کی شاہراہ پر سرپٹ بھاگتا دکھاتا تھا۔”سپنے“ بھی لیکن منیر نیازی کے بقول ”حد“ ہوتی ہے۔ خوش گمانی پر مبنی کہانیوں سے تلخ حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
ہماری معیشت کے تلخ حقائق دانت پیستے ہوئے رونما ہونا شروع ہوئے تو گزشتہ حکومت کی مخالف جماعتیں باہمی اختلافات بھلاکر یکجا ہوگئیں۔ سابق وزیر اعظم کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان کے منصب سے فارغ کروادیا گیا۔تحریک عدم اعتماد کی کامیاب کے بعد میں تسلسل سے دہائی مچاتا رہا کہ فی الفور نئے انتخابات کی جانب بڑھا جائے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم کے دوران عوام کے روبرو تلخ معاشی حقائق تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ان کے ممکنہ حل تجویز کریں۔ یہ فیصلہ عوام کے سپرد کردیا جائے کہ وہ کس جماعت کے تیار کردہ نسخے کو اپنی شفایابی کے قابل سمجھتے ہیں۔
عوام پر بھروسہ کی ہماری حکمران اشرافیہ کو مگر عادت ہی نہیں۔ اقتدار میں تھوڑی دیر رہنا بھی سیاستدانوں کو بہت بھاتا ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئے نئے حکومتی بندوبست نے ”سیاست نہیںریاست بچانے“ کا فیصلہ کیا۔ مذکورہ بندوبست کا دوسرا بجٹ پیش کرتے ہوئے اسحاق ڈار صاحب کو تسلی ہمیں یہ دینا تھی کہ ”ریاست“ بچ گئی ہے یا نہیں۔ وہ مگر ماضی کی دو حکومتوں کے ”تقابلی جائزے“ میں مصروف رہے۔
ہمیں ”سب اچھا ہے“ کہ گمان میں مبتلا رکھنے والی بجٹ تقریر کے بعد مجھ ایسے صحافی بے تابی سے متعارف کروائے بجٹ پر عام بحث کا انتظار کرتے ہیں۔پارلیمانی روایات کے مطابق قومی اسمبلی میں موجود قائد حزب اختلاف اس بحث کے آغاز کا حق رکھتا ہے۔اس کی تقریر کے لئے مدت کا تعین بھی نہیں ہوتا۔ ایسی تقریر غور سے سننے کے بعد ہی معاشی امور کی بابت مجھ جیسے نابلد افراد یہ جاننے کے قابل ہوتے ہیں کہ ”نئے بجٹ“ کے نام پر ہم غریبوں کا مزید کچومرنکالنے کے لئے کس مہارت سے کونسی ”واردات“ ڈالی گئی ہے۔
قومی اسمبلی میں ”قائد حزب اختلاف“ ان دنوں فیصل آباد سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے راجہ ریاض ہیں۔آئندہ انتخاب وہ مسلم لیگ (نون) کے ٹکٹ پر لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان سے یہ توقع رکھنا ہر صورت خام خیالی تھی کہ وہ چونکا دینے والے نکات کے ساتھ مسلم لیگ (نون) کے نمائندہ وزیر خزانہ کی جانب سے بجٹ متعارف کروانے والی تقریر کے پرچخے اڑادیں گے۔اسی باعث میں نے ان کی تقریر پر سرسری توجہ دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جناتی انگریزی میں لکھے چند مضامین کو ڈکشنری کی مدد سے پڑھتے ہوئے مسلسل یہ جاننے کی کوشش کررہا ہوں کہ معاشی اعتبار سے ”ہمارا کیا بنے گا؟“’ کاش میری تگ ودو مجھے ہی نہیں آپ کو بھی کچھ امید دلانے کا سبب ہو سکتی۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر