نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

“رجیم چینج” کی دہائی میں “دیوالیہ” کا شور ۔۔۔ || نصرت جاوید

نصرت جاوید پاکستان کے مایہ ناز سینئر صحافی ہیں، ، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے روزنامہ ایکسپریس، نوائے وقت اور دی نیشن سمیت دیگر قومی اخبارات میں کالم ،مضامین اور پارلیمنٹ ڈائری لکھتے چلے آرہے ہیں،انکی تحریریں خاص طور پر ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

نصرت جاوید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بولنے سے پہلے سوچنے کی ہمیں عادت نہیں۔ غالباََ اسی باعث میری ماں جیسی سادہ اور مہربان عورتیں اپنے بچوں سے دردمندانہ فریاد کرتیں کہ کوئی لفظ ادا کرنے سے پہلے ہمیشہ یاد رکھو کہ ”قبولیت“ کی گھڑیاں بھی ہوا کرتی ہیں۔ جس خواہش کا فی الوقت غصہ سے مغلوب ہوکر اظہار کر رہے ہو ”قبول“ بھی ہوسکتی ہے۔ وہ ”قبول“ ہوگئی تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔

”قبولیت کی گھڑی“ کے بارے میں ہمارے اجتماعی شعور میں فکرمند ماﺅں کی جانب سے بٹھائی احتیاط کا خیال گزشتہ تین دنوں سے مجھے مستقل آئے چلاجارہا ہے۔ ”دیوالیہ“ اس کا بنیادی سبب ہے۔مذکورہ لفظ یا اصطلاع کا تذکرہ ہم گزشتہ کئی مہینوں سے سنے چلے جارہے ہیں۔آغاز اس کا سری لنکا میں ہوئے ”دیوالیہ“ کے ساتھ ہوا تھا۔ وہ دیوالیہ کیوں اور کیسے ہوا اس کی تفصیلات ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ”ذہن سازوں“ نے کبھی سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔ ویسے بھی ان دنوں ہمارے ہاں ”رجیم چینج“ کی اصطلاح بہت مقبول تھی۔

ہمارے تحریری آئین میں 1973ء سے موجود تحریک عدم اعتماد والی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ برس کے آغاز میں سابق حکمران جماعت کے خلاف قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں نے یکسوہوکر مذکورہ تحریک پیش کردی تھی۔ہماری سیاسی تاریخ کا یہ انہونا واقع نہیں تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے خلاف بھی 1989ء کے ستمبر میں ایسی ہی تحریک پیش ہوئی تھی۔اسے پیش کرنے سے قبل قومی اسمبلی میں موجود پیپلز پارٹی کی تمام مخالف جماعتیں باہمی اختلافات بھلا کر یکجا ہو گئیں۔ ایم کیو ایم نے حکمران اتحاد کا ساتھ چھوڑ دیا۔ مسلم لیگ کا ساتھ ولی خان کی قیادت میں قائم ہوئی ”سیکولر“ جماعت اے این پی نے بھی دیا۔ غلام مصطفےٰ جتوئی مرحوم ایک چھوٹی جماعت کے سربراہ ہونے کے باوجود قومی اسمبلی میں موجود تمام اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل ”کمبائنڈ اپوزیشن جماعتوں“ جسے ”سی اوپی“ کہا جاتا تھا کے قائد بنادئے گئے۔ فیصلہ یہ بھی ہوا کہ اگر مذکورہ تحریک کامیاب ہوگئی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی جگہ وہ ہمارے وزیر اعظم ہوں گے۔

بہرحال تحریک پیش ہوئی۔ اس نے ہمارے سیاسی منظر نامے پر کئی ہیجان آمیز مناظر دکھائے۔ بالآخر تحریک مگر ناکام ہو گئی۔ محترمہ سے ”نجات“ کے لئے ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان کو بالآخر اگست 1990ء میں آئین کی آٹھویں ترمیم کو استعمال کرنا پڑا جو اب ہمارے آئین سے نکال دی گئی ہے۔

اپنے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح سامنا کرنے کے بجائے کرکٹ سے سیاست میں آئے سابق وزیر اعظم نے مذکورہ تحریک سے وکھرے انداز میں ”جند“ چھڑانے کی کوشش کی۔ دہائی مچانا شروع ہوگئے کہ امریکہ ان کے دورئہ روس سے ناراض ہوگیا ہے۔ طیش سے مغلوب ہو کر ہمارے ریاستی اداروں اور اپوزیشن جماعتوں میں موجود ”میر جعفروں“ کو حکم دیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں فارغ  کر دیں۔ اپنی سوچ کو مقبول بنانے کےلئے انہوںنے ”سائفر“ کہانی بھی گھڑی۔ اس کہانی کی بنیاد پر قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کروانے کے بجائے اسے ”قومی سلامتی کے منافی“ قرار د ے کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔موصوف کا یہ اقدام بعدازاں سپریم کورٹ ”آئین سے انحراف“ ٹھہرانے کو مجبور ہوا۔تحریک پر گنتی کروانے کا حکم صادر کیا اور ”تبدیلی“ آ گئی۔

اقتدار سے محروم ہو جانے کے بعد سابق وزیر اعظم اپنے دعوے کے مطابق ”مزید خطرے ناک“ ہوگئے۔تواتر سے مصر رہے کہ امریکہ نے انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروانے کے لئے ویسی ہی سازش رچائی ہے جو ایران کے قوم پرست وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کے خلاف 1950ء میں رچائی گئی تھی۔ 1970ء کی دہائی میں چلی کی ”خودمختاری“کے خواہاں صدر بھی ایسی ہی سازش کا شکار ہوئے تھے۔ایسی سازش کو”رجیم چینج“ پکارا جاتا ہے۔

سابق وزیر اعظم ”رجیم چینج“ کی دہائی مچا رہے تھے تو سری لنکا”دیوالیہ “ ہو گیا۔ وہ دیوالیہ ہوا تو عوام غضب ناک ہو کر وہاں کے ایوان صدر میں گھس گئے۔ دریں اثناء شہباز شریف کے لگائے وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے بجلی،گیس اور پیٹرول کے نرخوں کو ناقابلِ برداشت حد تک بڑھانا شروع کردئے۔ اس کے باوجود ڈالر کی قیمت مستقل بڑھتی رہی۔ وہ قابو میں نہ آئی تو اسحاق ڈار لندن سے اسلام آباد آگئے۔ یہاں اترنے کے چند ہی لمحوں کے بعد انہیں مفتاح اسماعیل کی جگہ وزیر خزانہ بنا دیا گیا۔ ڈار صاحب ”ڈالر کے ویری“ شمار ہوتے تھے۔ اب کی بار مگر وہ ہارے محسوس ہوئے۔آئی ایم ایف کے خلاف برسرعام بڑبڑانا بھی شروع کر دیا۔ ان کی بڑبڑاہٹ نے کاروباری حلقوں کو یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ پاکستان ”دیوالیہ“ کی جانب بڑھ رہا ہے۔

سچی بات ہے مجھے اس یا اس سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پاکستان کا عام شہری ہوتے ہوئے ”دیوالیہ“ کے امکانات تاہم مجھے خوف سے مفلوج بنا دیتے ہیں۔ خدانخواستہ پاکستان اگر واقعتا ”دیوالیہ“ ہوگیا تو آپ کی جیبوں میں موجود کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے کے لئے آپ کو اے ٹی ایم کی مشینوں کے باہر لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ لبنان جیسے ممالک میں اے ٹی ایم مشین تک پہنچنے کے لئے بسااوقات گھنٹوں تک انتظار میں کھڑارہنا پڑتا ہے۔ وہاں سے پیسے نکلوانے کی تعداد ”محدود“ بنادی جاتی ہے۔ دیوالیہ کی صورت میں آپ غالباََ ہفتے میں ایک بار دس یا بیس ہزار روپے سے زیادہ رقم لاکھوں روپے اپنے کھاتے میں ہونے کے باوجود نکلوانہیں پائیں گے۔ وہ پیسے مل بھی گئے تو گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں میں پیٹرول ڈلوانے کے لئے بھی پیٹرول پمپوں کے باہر گھنٹوں انتظار کرنا پڑے گا۔

کاش بیدردی سے ”دیوالیہ-دیوالیہ“ کی ”خوش خبری“ سناتے بیانات اور تبصرے چلانے والا روایتی میڈیا آج کے ڈیجیٹل دور میں پاکستانیوں کو لبنان یا سری لنکا جسے ممالک کے دیوالیہ کے دوران حقیقی حالات دکھاتے ہوئے یہ سمجھانے کا تردد بھی کر لیتا کہ ”دیوالیہ“ ہماری روزمرہّ زندگی میں کون سے عذاب لاتا ہے۔

آج کے کالم کا یہ مقصد نہیں کہ اگر پا کستان خدانخواستہ واقعتا دیوالیہ کی جانب بڑھ رہا ہے تو شترمرغ کی طرح سرریت میں دبا لیا جائے۔بلی کو دائیں بائیں دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھ بند کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ یہ بات مگر کیسے طے ہوگی کہ ہم دیوالیہ کی جانب واقعتا بڑھ رہے ہیں یا نہیں۔ مذکورہ سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے کہ اسے ”معاشی ماہرین“ کے روبرو رکھ کر بھرپور مباحث کروائے جائیں۔ اگر قابل اعتبار اور سیاسی اعتبار سے نسبتاً غیر جانب دار شمار ہوئے ماہرین معیشت ہمیں واقعتا دیوالیے کی جانب بڑھتا دیکھ رہے ہیں تو شہباز حکومت اور اس کے سرپرستوں کو اس تاثر کو زور زبردستی نہیں بلکہ ٹھوس دلائل کے سہارے غلط ثابت کرنا ہو گا۔ فقط اسحاق ڈار صاحب کی جانب سے ماتھے پر تیوریاں بڑھا کر جاری ہوئے رعونت بھرے بیانات اس ضمن میں تسلی فراہم نہیں کر رہے۔ اسی باعث غالباََ ہر دوسرے دن وزیر اعظم کو کسی نہ کسی بہانے یہ امید دلانا پڑ رہی ہے کہ عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کے ساتھ ہمارے معاملات طے ہونے کے قریب ہیں۔ اگر واقعتا یہ امید زندہ ہے تو اسحاق ڈار صاحب نے ”پلان بی“ کا ذکر کیوں شروع کر دیا ہے؟ خدارا اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں۔

(بشکریہ نوائے وقت)

یہ بھی پڑھیں:

کاش بلھے شاہ ترکی میں پیدا ہوا ہوتا! ۔۔۔ نصرت جاوید

بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلی ۔۔۔ نصرت جاوید

جلسے جلسیاں:عوامی جوش و بے اعتنائی ۔۔۔ نصرت جاوید

سینیٹ انتخاب کے لئے حکومت کی ’’کامیاب‘‘ حکمتِ عملی ۔۔۔ نصرت جاوید

نصرت جاوید کے مزید کالم پڑھیں

About The Author