نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے بقول ابن انشاء”یہ باتیں جھوٹی باتیں “ہوں۔ ہماری ریاست کے طاقت ور ترین اداروں کے ساتھ دیرینہ ”قربت“ کے کئی دعوے دار مگر مجھ گوشہ نشین کو گزشتہ تین دنوں سے بتائے چلے جارہے ہیں کہ حکومتی قوانین وضوابط کے تحت چلائے ٹی وی چینلز کے مالکان کو صاف الفاظ میں بتادیا گیا ہے کہ کرکٹ سے سیاست کی جانب راغب ہونے کے بعد بالآخر کچھ عرصے تک ہمارے وزیر اعظم رہے صاحب کے ساتھ اب ”بس بھئی بس“ والا رویہ اختیار کرنا ہو گا۔
ہمیں ہر خبر سے باخبر رکھنے کے دعوے داروں کو مذکورہ صاحب کی سرگرمیوں کے بارے میں ویسے ہی بے اعتنائی برتنا ہوگی جو 2017ء کے اگست میں لندن سے فرمائی ایک تقریر کے بعد کئی برسوں تک کراچی کی کامل ”مالک“ تصور ہوتی جماعت کے بانی کے ساتھ اختیار کرنا پڑی تھی۔ ایسا معاملہ ہمارے ایک نہیں بلکہ تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف کے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں تاحیات نااہل ہوجانے کے بعد وہ ”ووٹ کو عزت دو“ کی دہائی مچاتے اسلام آباد سے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور روانہ ہوگئے تھے۔ اپنے سفر کے دوران تقریباََ ہر بڑے شہر اور قصبے میں اپنے حامیوں سے خطاب کے بعد لاہور پہنچے۔ اپنی اہلیہ کی علالت نے مگر انہیں اپنی دختر سمیت لندن جانے کو مجبور کردیا۔ان کی عدم موجودگی میں دونوں کے خلاف احتساب کے نام پر مقدمات چلے۔بالآخر سزا بھی سنادی گئی۔ اس کے باوجود موصوف اپنی اہلیہ کو بستر مرگ کے حوالے کرکے مریم نواز صاحبہ کے ہمراہ جولائی 2018 کے انتخابات کے نزدیک لاہور ایئرپورٹ پہنچے۔وہاں اترتے ہی باپ بیٹی کو گرفتار کرکے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ اس کے بعد” آئین اور قانون کی بالادستی“کے تقاضوں کو یاد دلاتے ہوئے صحافیوں کو ”سزا یافتہ مجرمین“ کی ”تشہیر“ سے روک دیا گیا۔
2018 ء کے انتخابات کے نتیجے میں کرکٹ سے سیاست میں آئے صاحب وزیر اعظم کے دفتر پہنچے تو احتساب بیورو نے ”سب پہ بھاری“ کو بھی گرفتار کر لیا۔ ”سز ایافتہ مجرم“ٹھہرائے جانے سے قبل ہی مگر ان کا ذکر بھی ممنوعہ قرار پایا۔ جو باتیں سن رہا ہوں ان کی تصدیق کے قابل نہیں۔ دل اگرچہ خواہش مند ہے کہ جو سنا ہے وہ ابن انشاءکی بیان کردہ ”جھوٹی باتیں “ ہی ہوں۔معاملہ اس کے برعکس ہے تو یہ سوچتے ہوئے چپ سادھ لوں گا کہ تاریخ وطن عزیز میں خود کو دہرانے کی عادی ہے۔ منیر نیازی نے ”حرکت تیز تر“ کا ذکر بھی کررکھا ہے جو برق رفتار نظر آنے کے باوجود ”سفر آہستہ آہستہ“ بنادیتی ہے۔سفر تیز تر ہو یا کچھوے کی رفتار والا اس کی تاہم کوئی منزل تو یقینا ہوتی ہے۔تقریباََ تین دہائیاں صحافت کی نذر کردینے کے بعد میں البتہ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ”حرکت“ تیز تر ہو یا آہستہ آہستہ وطن عزیز میں سفر کی کوئی منزل ہی نہیں ہوتی۔ہم دائروں میں سفر کے عادی ہیں۔اسی باعث نسلوں سے پنجابی زبان میں ایک گدھی کا ذکر محاورتاََ ہوتا ہے جو گھوم گھما کر بالآخر برگد کے اسی درخت تلے آن کھڑی ہوجاتی ہے جہاں اسے بچپن میں باندھا گیا تھا۔
صحافت میں 1970ء کی دہائی کے آخری دو سالوں میں کچھ نام کمانے کے قابل ہوگیا تو 1979ء کا آغاز ہوتے ہی نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ وجہ اس کی ایک خبر تھی جو جنرل ضیاءکے اداروں کے بارے میں تھی۔ میری خبر بالآخر درست ثابت ہوئی۔ اسے درست ثابت ہونے میں تاہم چند ماہ لگے۔ قبل از وقت ”پنگا“ مگر برداشت نہ ہوا۔ کامل تین برسوں تک نوکری سے محروم رہا۔ اس دوران یہ کوشش بھی کی کہ صحافت سے عشق چھوڑ کر ڈرامہ نویسی کی دنیا میں لوٹ جاﺅں۔ برطانیہ اور امریکہ میں اسکالر شپ کے ساتھ پڑھنے کے امکان بھی تھے۔تقریباََ ایک برس لندن میں گزارا۔دل مگر وطن میں ہی اٹکا رہا۔ واپس لوٹنے کے چند ماہ بعد اسلام آباد سے نکلے ”دی مسلم“ میں نوکری مل گئی۔
فرہاد زیدی مرحوم نے وہاں میرے لئے گنجائش نکالی تھی۔ بعدازاں اسی اخبار کے مدیر مشاہد حسین سید کو میری صحافیانہ تڑپ بھا گئی۔ ان کی مہربانی سے ”سٹی ڈائری“ اور ”ڈپلومیٹک فوکس“ کے عنوان سے کالم لکھنا شروع ہو گیا۔ ”ممنوعہ“ موضوعات کو اشاروں کنایوں میں بیان کرنے کا ہنر دریافت کرنا مجبوری بن گیا۔اب نام نہاد ”سینئر صحافی“ تصور ہونا شروع ہوگیا ہوں تو اپنے چہیتے مگر ”حق گو“ مشہور ہوئے چند جونیئرز کو طعنہ دیتا ہوں کہ وہ خوش نصیب ہیں۔ ان کی صحافت ”شمشیر کے سائے تلے“ پروان نہیں چڑھی۔
1981ء سے 1985ء کے ”غیر جماعتی انتخابات“ ہونے تک ہم صحافیوں کی ہر تحریر اخبار میں چھپنے سے قبل ”سنسر“ والوں کو بھجوانا پڑتی تھی۔ان کی منظوری کے بغیر ایک سطر بھی شائع نہیں ہو سکتی تھی۔ کئی برس اس مشقت کی نذر ہوگئے کہ سنسر کو پکڑائی نہ دوں۔ کسی نہ کسی انداز میں اپنے دل کی بات کہہ دوں۔بہت وقت گزرجانے کے بعد اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ اس ضمن میں قابل فخر حد تک کامیاب نہیں ہوا۔ تحریر میں کنایہ زبان پر بے پناہ گرفت کا تقاضہ کرتا ہے۔ میں اس ضمن میں کافی حد تک نالائق ہوں۔ انگریزی تو ویسے بھی ہماری زبان نہیں۔ اردو مگر ”قومی زبان“ ہے۔ مشن ہائی سکول رنگ محل لاہور میں اسے اللہ بخشے ماسٹر نصیر صاحب جیسے فارسی اور اردو کے جید استاد سے پڑھا ہے۔اس کے باوجود طے نہیں کرپاتا کہ مثال کے طور”لاہور ہی سے “ لکھوں یا ”لاہور سے ہی“۔ اپنی کوتاہی کو یہ سوچتے ہوئے مگر جائز ٹھہرا لیتا ہوں کہ غالب جیسا مستند شاعر تاحیات یہ طے نہ کرپایا کہ دہی مذکر ہے یا مونث۔ دلّی کے شاہی محل میں جوان ہونے کے باوجود داغ دہلوی بھی آخر لکھنے کو مجبور ہوگئے تھے کہ ”آتی ہے اردو زبان آتے آتے“۔ ان کا اعتراف اندرون لہور جوان ہوئے اس بے ہنر کو تسلی دیتا ہے۔میری ”چالاکی“ کی مگر داد دیجئے۔ کالم کی ابتدا میں نے ایک اہم موضوع سے کی تھی۔اس کا جواب ڈھونڈنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے یاوہ گوئی کی جانب بہک گیا اور کالم لکھنے کی دیہاڑی لگالی۔ربّ کریم سے دعا مانگیں کہ وہ مجھے ایسا ہی ”ہنر مند“ رکھے۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر