نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منگل کی رات جیو کے منیب فاروق کے پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد گھر لوٹنے سے قبل چند باخبردوستوں کی محفل میں بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا۔ میرے سمیت وہ دوست بھی فواد چودھری کے دیرینہ شناسا تھے۔ ذاتی تعلق میرا اگرچہ ان کے تایا چودھری الطاف حسین مرحوم سے بہت گہرا رہاہے۔ سیاست کو وہ ایک بے رحم کھیل تصور کرتے تھے اور اس تناظر میں بنائی دوستیاں اور دشمنیاں ڈٹ کر نبھاتے۔ مجھے گماں تھاکہ فواد چودھری ان کی روایات آگے بڑھائیں گے۔
عمران حکومت کے اگست 2018ء میں اقتدار سنبھالتے ہی ذات کے اس رپورٹر کو مختلف مگر مستند ذرائع سے خبر ملنا شروع ہوگئی کہ ’’ناپسندیدہ صحافیوں‘‘ کی ایک فہرست تیار ہورہی ہے۔انہیں ملازمتوں سے فارغ کروانے کے لئے مالکان کو مجبور کیا جائے گا۔ میں ان دنوں ایک جید صحافتی ادارے کے لئے پیر سے جمعرات شام آٹھ سے نو بجے تک گل مینہ سیٹھی کے ساتھ ایک ٹی وی شو کا میزبان ہوا کرتا تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ میرا نام مذکورہ فہرست میں پہلے نمبر پر ڈالا گیا ہے۔
میرے کئی مخلص دوست دیانتداری سے یہ سوچتے ہیں کہ اس کالم میں مجھے عمران حکومت کے دور میں اپنی ملازمت سے فراغت کا ذکر دہرانا نہیں چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ ملازمت سے ذلت آمیز فراغت کی تکرار میری ’’بے نیازی‘‘ والی پہچان کو جھٹلاتی ہے۔ اس کے علاوہ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ قارئین آپ کی ذات پر گزرے صدمات کا ذکر سننا نہیں چاہتے۔ رپورٹر سے کالم نگار ہوئے صحافی سے توقع بلکہ یہ رکھتے ہیں کہ وہ ’’چوندی چوندی‘‘ خبریں نہیں دے سکتا تو کم از کم اقتدار کے ایوانوں میں گونجتی غیبت بھری سرگوشیوں کا پتہ چلا کر قارئین کو لطف اندوز ہونے کا موقع دے۔ عمران حکومت کے دبائو کے تحت ایک صحافتی ادارے سے مگر اپنی ذلت آمیز فراغت کا ذکر میں اس لئے دہراتا رہتا ہوں کہ لوگوں کو یاد رہے کہ ان دنوں نہایت ڈھٹائی سے اپنے مخالفین کو ’’فسطائیت‘‘ کے طعنے دینے والے اپنے دورِ اقتدار میں کتنے ’’فراخ دل اور جمہوری‘‘ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے۔
چیک ریپبلک کا ایک مشہور ناول نگار ہے۔ نام ہے اس کا میلان کندیرا۔ اس کا ملک جب کمیونزم کے نام پر مسلط ہوئے جابرانہ نظام کی جکڑ میں تھا تو وہ انتہائی تخلیقی انداز میں اسے بے نقاب کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ بالآخر اسے جلاوطن ہونا پڑا۔ جلاوطنی کی اذیت سے گزرتے ہوئے اس نے چونکادینے والے مضامین باندھے۔ بنیادی خیال اس کا یہ بھی تھا کہ ہوس اقتدار میں مبتلا سیاست دانوں کا ’’دائو‘‘ اس لئے لگ جاتا ہے کیونکہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔روزمرہّ زندگی کی الجھنیں انہیں اپنے ملک وقوم کی اجتماعی یاداشتیں بھلانے کو مجبور کردیتی ہیں۔عوام کی اس جبلی کمزوری کی وجہ سے ماضی کے جابر حکمران اقتدار سے محروم ہوجانے کے چند ہی دن بعد’’مظلوم‘‘ نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔
بطور وزیر اطلاعات فواد چودھری نے انتہائی رعونت اور ڈھٹائی سے عمران حکومت کے ہر صحافت دشمن اقدام کا دفاع کیا۔ صحافتی اداروں کو اپنا ’’بزنس ماڈل‘‘ دورِ حاضر کے مطابق تشکیل دینے کو بھی اُکساتے رہے۔ٹی وی شو کے اینکر موصوف سے اگر کوئی مشکل سوال پوچھتے تو ان کا فطری طور پر ذہین دماغ تسلی بخش جواب فراہم کرنے کے بجائے سوال پوچھنے والے کو برجستہ جگتوں سے شرمندہ کرنا شروع ہوجاتا۔
یقین مانیے اپنے سیاسی مخالفین کو رعونت اور طنزیہ بھرے جملوں سے پچھاڑتے ہوئے فواد چودھری جب بھی ٹی وی سکرینوں پر رونق لگاتے تو میں ان سے کنارہ کش ہوجانے کے باوجود فکر مندہوجاتا۔کئی بار جی چاہا کہ تلخ یادیں بھلاکر ان سے ملاقات کی کوشش کروں اور اپنے تئیں ’’بڑابھائی‘‘ بن کر سمجھانے کی کوشش کروں کہ وقت بہت بے رحم شے ہے۔ یہ کبھی ایک سانہیں رہتا۔ احمد فراز اس حقیقت کو ایک شعر میں نہایت خوب صورتی سے بیان کرچکے ہیں اور وہ شعرہے :’’میں اگر زد میں ہوں تو خوش گماں نہ ہو-چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘‘۔
چند دن قبل وہ گرفتار ہوئے۔دو روز بعد ہی مگر رہا بھی ہوگئے۔اپنی رہائی کے بعد انہوں نے میرے دوست کاشف عباسی کو انٹرویو دیا تو دوران حراست اپنے بچوں کو یاد کرنے کی تکلیف کا ذکر کرتے ہوئے رودئے۔ ان کی اس حوالے سے بنی کلپ دیکھ کر مجھے بہت دُکھ ہوا۔ تحریک انصاف کے سرکردہ رہ نمائوں میں وہ بہت منہ پھٹ شمار ہوتے ہیں۔ان کا رویہ جی دار دلیر آدمی جیسا رہا ہے۔مذکورہ کلپ کے دوران مگر وہ شکست خوردہ نظر آئے ۔ جی داری کابھرم برقرار نہ رکھ پائے۔
عمران خان کی 9مئی کے روز گرفتاری کے بعد وہ جس انداز میں ضمانت کے حصول کے لئے سپریم کورٹ کی عمارت میں رات گئے تک ’’پناہ گزیں‘‘رہے وہ منظر بھی قابل ستائش نہیںتھا۔ منگل کا دن اس سے بھی براثابت ہوا۔انہوں نے بہت انتظار کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت کا بندوبست کیا۔ وہ بندوست ہوتے ہی ہائی کورٹ کی عمارت سے باہر نکلے تو انہیں خوف لاحق ہوا کہ پولیس انہیں دوبارہ گرفتار کرنے آچکی ہے۔ پولیس کے دو سپاہی دیکھتے ہی وہ ہائی کورٹ کی عمارت میں واپس گھسنے کے لئے سرپٹ دوڑپڑے۔ ان کے روایتی اور دیرینہ مخالفین اور ناقدین نے ان کے ’’اندازِ فرار‘‘ کا سوشل میڈیا پر تمسخر اڑایا۔میرا جی مگر گھبرا گیا۔ دل سے دعا نکلی کہ کاش وہ اپنی منہ پھٹ دلیری کا بھرم برقراررکھ پاتے۔
ہائی کورٹ کی عمارت میں لوٹ آنے کے بعد فواد چودھری نے حفاظتی ضمانت کو مستند دکھانے والے کاغذات بھی جمع کرلئے۔ ان کے ہوتے ہوئے بھی لیکن عمارت سے رات دس بجے تک باہر آنے کی جرأت نہ ہوئی۔ دریں اثناء اسلام آباد میں افواہیں پھیلنا شروع ہوگئیں کہ فواد کسی بھی وقت ہائی کورٹ کی عمارت سے باہرآکر ’’معافی تلافی‘‘ کی درخواست دِکھتا بیان دے سکتے ہیں۔رات ساڑھے دس بجے کے قریب یہ افواہ درست ثابت ہوگئی۔ فواد چودھری نے اپنے آبائی جہلم کا غازیوں اور شہدا سے تعلق یاد رکھتے ہوئے 9مئی کے روز ہوئی ہنگامہ آرائی سے دوری اختیارکرلی۔ قصہ مختصر اب فواد چودھری ’’وہ‘‘ نہیں رہے۔’’آفتوں کے دور میں‘‘ عافیت کی تلاش میں ہیں۔ ربّ کریم ان کی مشکلیں آسان کرے۔
اصولی بنیادوں پر اگرچہ فواد چودھری کو جائز وجوہات کی بدولت عمران خان سے ناراض ہونا چاہیے تھا۔شاہ محمود قریشی کے ساتھ مل کر انہوں نے حکومتی نمائندوں سے سپریم کورٹ کی تجویز کے مطابق جو مذاکرات کئے تھے اُن کے دوران حکومت بجٹ منظور کروالینے کے بعد جولائی کے پہلے پندرہ دنوں کے اندرقومی اسمبلی کی تحلیل کو آمادہ ہوگئی تھی۔ حکومتی وعدہ ایک بہترین ڈیل تھی۔ عمران خان نے مگر اسے ویٹو کردیااور حالات کو 9مئی تک لے گئے جس کے تباہ کن اثرات اب تحریک انصاف کیلئے ہزاروں مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر