اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

تخلیق، تحریر اورجادوئی لمحات۔۔۔||محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی لاہور میں مقیم سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں،ان کے موضوعات میں سیاست ، حالات حاضرہ ،سوشل ایشوز،عسکریت پسندی اورادب شامل ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سیاسی واقعات کچھ اتنی تیزی سے ہورہے اور ایسی ہنگامہ خیزی ان میں ہے کہ آدمی کچھ اور سوچ بھی نہیں پاتا۔ بہت بار یہ خیال آیا کہ کچھ عرصہ کے لئے سیاسی موضوعات سے ہٹ کر کچھ غیر سیاسی لکھا جائے، ادب، کہانیوں، شاعری، موسیقی، کھیل اور خاص کر زندگی کے مختلف پہلوﺅں پرطبع آزمائی کی جائے۔ ارادہ کر لیا، تب اچانک ہی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے کہ طے شدہ پلاننگ سب اٹھا کر ایک طرف رکھنا پڑ گئی ۔
پچھلے ہفتے تین چار دنوں کے لئے سوشل میڈیا خاص کر فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب بند رہی۔ اس کے نقصانات بھی بہت سے ہوئے ، یوں لگا جیسا کسی دوردراز جزیرے میں تنہا ہوگئے ہیں اور کوئی آواز سننے والا ہی نہیں۔ واٹس ایپ چل رہا تھا تو میں نے پوسٹیں لکھ کر اپنے واٹس ایپ گروپوں میں تواتر سے پوسٹ کر کے اپنا کتھارسس کر لیا۔
ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ دوبارہ سے کتابوں کی طرف رخ کیا۔ سیاسی، غیر سیاسی موضوعات پر نئی، پرانی کتابیں پھر سے کھولیں، کچھ پڑھیں، کسی پر نظر ڈالی اور بعض کو صرف دیکھ کر ہی لطف اٹھایا۔ سیاسی یاداشتیں اور ان میں بیان کردہ واقعات مجھے بہت پسند ہیں، اگلی کسی نشست میں ایسی کتابوں کے واقعات ان شااللہ شیئر کروں گا۔ انہی کتابوں میں سے ایک نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز ہیں۔ ہم نے اپنے اخبار 92نیوز کی ابتدا میں ایک مڈ ویک میگزین بھی شروع کیا تھا، بعد میں میڈیا انڈسٹری کے لئے مسائل پیدا ہوئے، کاغذ وغیرہ مہنگا ہوا تو بند کرنا پڑا۔ اس میگزین کے لئے ہمارے ساتھی صحافی سجاد بلوچ نے بہت عمدہ انٹرویو ترجمہ کئے۔ یہ بعد میں اردو سائنس بورڈ سے کتابی صورت میں چھپے۔
اس کتاب کو میں پہلے بھی پڑھ چکا ہوں، جب بھی اسے دوبارہ دیکھا ، اچھا لگا۔ چند ایک ادیب ایسے ہیں جن کی گفتگو آدمی کو تازہ دم کر دیتی ہے۔ گارشیا مارکیز ان میں سے ایک ہیں۔ اس کتاب میں مارکیز، ہمینگوئے اور پابلو نرودا کے انٹرویو مزے کے ہیں۔لکھنے والے کا بہترین تخلیقی وقت کون سا ہوتا ہے اور یہ عظیم مصنفین کس وقت لکھنا پسند کرتے تھے؟ اس سوال کا جواب مجھے دلچسپ لگا۔ مارکیز، نرودا اور ہمینگوئے تینوں ہی صبح کے وقت لکھنا پسند کرتے تھے ، ان کا بہترین تخلیقی وقت صبح ہی تھا۔
ہمینگوئے نے اس بارے میں بتایا: ”جب میں کسی کتاب پر کام کر رہا ہوتا ہوں یا کوئی لکھ رہا ہوں تو صبح روشنی ہونے کے فوراًبعد لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ یہ ایسا وقت ہوتا ہے جس میں آپ کے کام میں مخل ہونے والا کوئی نہیں ہوتا اور اس ٹھنڈک میں آپ اپنے کام میں جت جاتے ہیں۔ جب لکھتے ہیں تو حدت حاصل کرتے ہیں۔ میں پچھلے دن کے لکھے ہوئے کو پڑھتا ہوں، وہیں سے میں آگے لکھنا شروع کرتا ہوں۔ آپ اس وقت تک لکھتے ہیں جب تک آپ کو معلوم ہو کہ ابھی کچھ رس باقی ہے اور آگے کیا ہونا ہے ۔ پھر آپ رک جاتے ہیں اور اگلے دن تک اس میں زندہ رہتے ہیں ، پھر دوبارہ اسے چھیڑ لیتے ہیں۔ میں صبح چھ بجے لکھنا شروع کرتا ہوں اور یوں سمجھیں کہ دوپہر تک یا اس سے پہلے تک لکھتا چلا جاتا ہوں۔ جب آپ رکتے ہیں تو بیک وقت خالی بھی ہوتے ہیں اور بھرے ہوئے بھی۔تحریر میں کاٹ چھانٹ بھی
خاصی کرتا ہوں۔ ناول فیئرویل ٹو آرمز کے اختتام کے ایک صفحے کو میں نے انتالیس بار لکھا اور تب مطمئن ہوا۔ “
ہمینگوئے کے مطابق:” آپ ہر لمحے میں لکھ سکتے ہیں ، جب لوگ آپ کو تنہا چھوڑ دیں اور کوئی مداخلت نہ کرے یا پھر آپ اس بارے میں بہت سخت رویہ اپنائیں ۔ بہترین تحریر لیکن تب لکھی جا سکتی ہے جب آپ محبت میں مبتلا ہوں۔ یہ یاد رکھیں کہ جب لکھنا آپ کی سب سے بڑی مسرت بن جائے تو پھر موت ہی اسے روک سکتی ہے ۔ معاشی استحکام آپ کو پریشانی سے دور رکھتا ہے۔ پریشانی تخلیقی صلاحیت کو تباہ کر دیتی ہے۔ صحت کی خرابی اس لئے بری ہے کہ یہ پریشانی کو جنم دیتی ہے۔
لاطینی امریکہ کے عظیم مزاحمتی شاعر پابلو نرودا کے مطابق انہیں نثر سے زیادہ شاعری لکھنا پسند ہے۔ وہ کہتے ہیں ::”میرے کوئی طے شدہ اوقات نہیں لیکن میں صبح کے وقت لکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ دن کے وقت اپنی چیزیں نہیں پڑھتا بلکہ سارا دن لکھتا ہوں، لیکن تسلسل سے کسی تاثر کے بارے میں، سوچوں سے بھرا ہوا ۔ میں دن کے زیادہ تر وقت اپنے رائٹنگ ڈیسک پر بیٹھنا پسند کرتا ہوں ۔ میں ہمیشہ آتا جاتا، سفر کرتا رہتا ہوں لیکن جب اور جہاں ممکن ہو پوری توانائی سے لکھتا ہوں۔ مجھے اس سے پریشانی نہیں ہوتی کہ میرے اردگرد بہت لوگ ہیں۔ میں ہجوم میں بھی خود کو الگ کر لیتا ہوں ۔“
گارشیا مارکیز کے ناولوں کی طرح ان کی گفتگو بھی کمال کی ہے۔ وہ اپنے تخلیقی تجربے کے حوالے سے بتاتے ہیں :” جب میں نے ہمہ وقت لکھنا شروع کیا تو میں چالیس برس کا ہوچکا تھا۔ میرا لکھنے کا وقت صبح نو سے دوپہر دو بجے تک تھا اور تب تک میرے بچے سکول سے واپس آ جاتے ۔ شروع میں مجھے افسوس تھا کہ صرف صبح میں کام کرتا ہوں۔ میں نے اس لئے دوپہر میں کام شروع کر دیا ، لیکن محسوس کیا کہ دوپہر میں جو کچھ کرتا ہوں، اگلی صبح اسے پھر کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے فیصلہ کیا کہ صرف صبح کے وقت لکھوں گا۔ میں صرف مانوس ماحول میں کام کر سکتا ہوں ،مجھے سے ہوٹلوں یا کرایے کے کمروں یا کسی اور کے ٹائپ رائٹر پر کام نہیں ہوتا۔ ”
گارشیا مارکیز کے بقول ان کے لئے پہلا پیراگراف لکھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ کئی بار پہلا پیراگراف لکھنے میں مہینوں لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد سب آسان ہوجاتا ہے ۔ پہلا پیراگراف پوری کتاب کا نمونہ ہوتا ہے ۔ “
حوزے ساراماگو نامور پرتگالی ادیب ہیں۔ ساراماگو کا ایک ناول بلائنڈنیس کمال ہے، اردو میں اس کاترجمہ منفرد شاعر احمد مشتاق نے اندھے لوگ کے نام سے کیااہے۔ اس پر ایک عمدہ فلم بھی بنی ہوئی ہے۔ سارا ماگو کے بقول ایک ناول لکھنے کے دوران وہ روزانہ لکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کا منظم آدمی سمجھتے ہیں اور دن میں خاص طے شدہ گھنٹوں تک کام پر یقین نہیں رکھتے۔ تاہم انہیں ہر روز ایک خاص مقدار میں تحریر چاہیے ہوتی ہے، وہ ہر روز نئے ناول کے دو صفحات لکھتے ہیں۔ سار ا ماگوکے نزدیک بظاہر یہ کم لگتے ہیں لیکن اگر سوچیں تو یہ کم صفحات نہیں۔ دو روز لکھنے کا مطلب ہے کہ سال میں سات آٹھ سو صفحات۔ حوزے کو 1998 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ ان کے مطابق ان میں نوبیل انعام سے کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ پہلے جیسے رائٹر ہی رہے ۔

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: