نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں نوجوان نسل حقارت سے ایک لفظ استعمال کرتی ہے اور وہ لفظ ہے Boomer۔ اس کالم میں اسے میں ”بومر“ لکھوں گا۔ بومر کا لفظ ان افراد کے لئے طعنے کی طرح استعمال ہوتا ہے جو 1960 کی دہائی کے آغاز یا اس سے چند سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ جوانی کے دنوں میں یہ نسل بہت تخلیقی شمار ہوتی تھی۔ ہپی ازم نے اسے بہت متاثر کیا تھا۔ روایت شکن شمار ہوتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مگر اس نسل سے تعلق رکھنے والے کئی مشہور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا بھر میں کاروبار بڑھاتے منافع خور اداروں کے ملازم ہو گئے۔ ان میں سے کئی ایک نے سیاست میں بھی بڑا نام کمایا۔ عام افراد کو وہ ذہانت اور کامیاب زندگی گزارنے کی قابل تقلید مثالیں محسوس ہونا شروع ہو گئے۔
رواں صدی کے آغاز میں لیکن جب انٹرنیٹ متعارف ہوا تو زندگی کی مشکلات سے اکتائے اور غضب ناک ہوئے نوجوانوں نے ”بومرز“ کو اپنی مشکلات کا واحد سبب ٹھہرانا شروع کر دیا۔ الزام لگا کہ ماضی میں روایت شکن تصور ہوتے بومرز نے بتدریج ہپی ازم کی عطا کردہ معصومانہ بے فکری بھلا کر اس ”سسٹم“ کو مضبوط تر بنایا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال نئی نسل کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ ”نظام کہنہ“ کو بلکہ مضبوط تر بناتا ہے۔ دور حاضر کے نوجوان اپنی صلاحیتوں اور لگن سے دنیا کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ”بومرز“ سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ ان کی ”منافقت“ کو بے نقاب کرنا ہو گا۔
”بومرز“ سے نفرت اب پاکستان میں بھی متعارف ہو چکی ہے۔ عمران خان اور ان کی بنائی تحریک انصاف ”نظام کہنہ“ کی اصل ویری کی حیثیت میں منظرعام پر آئی تو ہماری نوجوان نسل کی بہت بڑی تعداد کو اپنے جذبات کے حقیقی ترجمان مل گئے۔ ٹویٹر اور فیس بک کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے ”نظام کہنہ“ سے اکتائے افراد نے دیسی بومرز کی نشان دہی کا آغاز کیا۔ بتدریج ان کی ذاتی زندگی لوگوں کے روبرو رکھتے ہوئے ”تبدیلی“ کی راہ روکتے افراد کی ”اصولوں اور اخلاقیات“ سے عاری زندگی کی مذمت بھی شروع ہو گئی۔
عمر کے اعتبار سے میں اس بریکٹ میں عرصہ ہوا داخل ہو چکا ہوں جو بومرز سے منسوب ہے۔ عمر کے علاوہ کسی بھی حوالے سے اگرچہ مجھے ”بومر“ ٹھہرایا نہیں جاسکتا۔ معاشی اعتبار سے ناکام زندگی گزاری ہے۔ دوران تعلیم قابل ستائش نمبروں سے پاس ہوتا رہا ہوں۔ اپنی صلاحیتیں مگر صحافت کے لئے وقف کر دیں۔ اس کی وجہ سے تن خواہ ہی رزق کا واحد وسیلہ رہی۔ جو تن خواہ ملتی اس نے مجھے نچلے متوسط طبقے تک محدود رکھا۔ اپنے ماں باپ کی بہت لاڈلی اور ناز و نعم سے پالی میری بیوی نے مگر شادی کے بعد خود بھی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم دونوں کی باہمی مشقت اور والدین کی شفقت کی بدولت بالآخر ہم اس طبقے میں شامل ہو گئے جو ”خوش حال“ دکھتا ہے۔ ”خوش حالی“ برقرار رکھنا اگرچہ جاں گسل عمل ہے۔ دل کو مگر ہمیشہ یہ اطمینان رہا کہ صحافی ہوتے ہوئے اپنا ضمیر بیچنے کا تصور ایک لمحے کو بھی دل و دماغ میں نہیں آیا۔
بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ عمران خان صاحب جس ”تبدیلی“ کی علامت بن کر ابھرے تھے اس کی مدح سرائی والے ہجوم کا حصہ نہ بن پایا۔ عقیدت سے مغلوب ہونے کے بجائے تحریک انصاف کے انداز سیاست کی بابت اپنے تحفظات کھل کر بیان کرتا رہا۔ اس تناظر میں جو ”گناہ“ سرزد ہوئے عاشقان عمران اسے نظرانداز کرنے کو آمادہ نہ ہوئے۔ مجھے ”لفافہ“ صحافیوں کی صف میں پھینک دیا گیا۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کی سیاست بھی مجھے کبھی پسند نہیں آئی۔ اس کے دربار سے بھی دوری اختیار کیے رکھی۔ نواز حکومت کے پہلے دو ادوار میں اس کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ عمر کے اس حصے میں لیکن محترمہ مریم نواز صاحبہ سے ”ٹوکریاں“ وصول کرنے والا صحافی مشہور ہو چکا ہوں۔ صحافت میں تھوڑی شہرت مل جائے تو کئی لوگوں کے حسد اور جلن کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ اس سے مفر ممکن نہیں۔
بہرحال ذکر ”بومرز“ کا ہو رہا تھا۔ معاشی اعتبار سے ناکام زندگی گزارنے کے باوجود مجھے اس بنیاد پر ”بومر“ پکارا جاسکتا ہے کہ میں پرانی وضع کا صحافی ہوں۔ لکھتے اور بولتے ہوئے یہ خیال رکھتا ہوں کہ میں ایک ”صحافتی ادارے“ کا تنخواہ دار ہوں۔ ایسے اداروں سے سینکڑوں لوگوں کا رزق چلتا ہے۔ خود کو بے باک حق گو ثابت کرتے ہوئے اس درخت کی شاخوں کو کاٹنے سے گریز کرنا چاہیے جس کی چھاؤں تلے تحفظ کا احساس نصیب ہوتا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے مگر احساس ہو رہا ہے کہ میں جس صحافت کا عادی ہوں وہ ”فدویانہ“ اور ”بکاؤ“ شمار ہوتی ہے۔ اسے فراموش کرتے ہوئے مجھے موبائل فون اٹھا کر ”پاٹے خان“ بنے سیاستدانوں کا تندوتیز سوالات اٹھاتے ہوئے تعاقب کرنا چاہیے۔ وہ میسر نہ ہوں تو اپنے ”گرانقدر خیالات“ موبائل پر ریکارڈ کرنے کے بعد انہیں یوٹیوب پر چڑھا دوں۔ سنا ہے کہ حق گوئی کا اظہار کرتی یوٹیوب وڈیوز امریکی ڈالروں سے آپ کا گھر بھی بہتر انداز میں چلا سکتی ہیں۔ موبائل فون سے لیکن مجھے ڈھنگ کی تصویر کھینچنا بھی نہیں آتا۔ وڈیو تیار کرنا تو دور کی بات ہے۔ جو زندگی بچی ہے لہٰذا ”غلامانہ صحافت“ ہی کی نذر کرنا پڑے گی۔
اس طرز صحافت کی تاہم چند مبادیات ہیں جنہیں نظرانداز کرنا میرے لئے ممکن ہی نہیں۔ ”آف دی ریکارڈ“ ہوئی گفتگو کو ”آف دی ریکارڈ“ رکھنا بھی ان میں شامل ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹر اور پاپا رازی میں بھی فرق رکھنا لازمی ہے۔ ”پاپا رازی“ کے عادی ”صحافی“ کسی نہ کسی وجہ سے مشہور ہوئی شخصیات کا مسلسل پیچھا کرتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا ان ہی کی وجہ سے جان لیوا حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ ٹی وی یا لیپ ٹاپ کی سکرین پر صحافت کے نام پر ”پاپا رازی“ دیکھوں تو دکھ ہوتا ہے۔ کبھی کبھار اس سے مغلوب ہو کر ٹویٹر پر اس ضمن میں اپنے غصے کا اظہار بھی کر دیتا ہوں۔ یہ اظہار لیکن مجھے ”تبدیلی“ کو بے چین نوجوانوں کی نگاہ میں ”بومر“ بنا دیتا ہے۔ بارہا ان کی جانب سے ٹویٹر وغیرہ کے ذریعے یہ پیغام ملتا ہے کہ میں عمر کے اس حصے میں داخل ہو گیا ہوں جہاں ”اصل صحافت“ جاری رکھنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ صحافت چھوڑ کر رزق کمانے کا کیا طریقہ اختیار کروں۔ اس ضمن میں ”نظام کہنہ“ سے اکتائے اور غضب ناک ہوئے نوجوان کوئی نسخہ تجویز کرنے کو آمادہ نہیں ہوتے۔ ڈھٹائی سے لہٰذا یہ کالم لکھتے رہنے کو مجبور ہوں۔
”بے باک صحافت“ کے رواں موسم میں لیکن ابھی تک ایک ”صحافی“ بھی دریافت نہیں کر پایا جو ہمیں تفصیل سے بتائے کہ ہمارے ہاں اجتماعی طور پر جو ڈیزل خرچ ہوتا ہے اس کا 30 فی صد حصہ کہاں سے آتا ہے۔ یاد رہے یہ بھاری بھر کم حصہ باقاعدہ انداز میں ”درآمد“ نہیں ہوتا۔ عالمی منڈی میں ڈیزل کی جو قیمت ہے اس سے کم از کم آدھی پر پاکستان میں در آتا ہے۔ اسے ملک بھر میں لگائے ڈیزل پمپوں کے ذریعے باقاعدہ انداز میں درآمد ہوئے ڈیزل سے ملا کر بیچا جاتا ہے۔ اس کی ملاوٹ سے جو منافع ہے وہ اربوں کی حد چھوتا ہے۔ میری حسرت ہے کہ دور حاضر کا کوئی بے باک صحافی ڈیزل سے وابستہ اس ”دھندے“ کا کھوج لگائے۔ ان افراد کی نشاندہی کرے جو ”غیر روایتی طریقوں“ سے پاکستان میں لائے ڈیزل کی فروخت سے خیرہ کن منافع کما رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک جنس کھاد بھی ہے۔ زرعی ملک کی دعوے دار ہوتے ہوئے ہماری سرکار اس کی پیداوار کو قومی خزانے سے فراہم کردہ رقوم کے ذریعے ”غریب کسانوں“ کے لئے قابل برداشت بناتی ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ قومی خزانے سے ملی امداد کے ذریعے جو کھاد پیدا ہوتی ہے وہ پاکستان ہی میں فروخت ہوتی ہے یا نہیں۔ اس کا کتنے فی صد حصہ ہمارے اس ہمسایہ ملک چلا جاتا ہے جس نے حال ہی میں خود کو امریکی غلامی کی زنجیروں سے آزاد کیا ہے۔ قدم بڑھاؤ بومر دشمنو۔ مذکورہ معاملات کا کھوج لگاؤ۔
٭….٭….٭
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر