اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاہور کے بعد اسلام آباد میں خان صاحب کے ہمراہ جانے والوں نے جو ہنگام برپا کیا وہ تو اپنی مثال آپ ہے ہی لیکن اس کے جواب میں عدالت نے جو رول اپنایا وہ بھی تاریخی ہے
رپورٹس کے مطابق عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوئی تو ان کے ورکرز بھی منع کرنے کے باوجود ان کے ساتھ داخل ہوگئے۔ خان صاحب نے گاڑی سے ہی درخواست کی کہ اپنا اسٹاف بھیج کر میری حاضری قبول کریں جو قبول کر لی گئی۔ کارکنوں نے جوڈیشل کمپلیکس کا حفاظتی بیریئر توڑ دیا تھا۔ اسلام آباد میں جوڈیشل کمپلیکس کے باہر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنوں نے 10 موٹر سائیکلیں جلادیں۔ اسلام آباد پولیس کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا اور اسلام آباد پولیس کے آئی جی کے مطابق انہیں حیرت ہے کہ پولیس پر آنسو گیس استعمال کی گئی جبکہ انہیں لاہور پولیس پر گلگت بلتستان پولیس کے گنز تاننے کی اطلاعات کے بعد قطعا حیرت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ وزیراعلٰی گلگت بلتستان اس بار بھی اپنے محافظ دستے کے ساتھ خان صاحب کے ساتھ تھے
اس سے پہلے لاہور کے زمان پارک کا علاقہ اس وقت میدان جنگ اور پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے نو گو ایریا بن گیا جب اسلام آباد پولیس ایک وارنٹ گرفتاری کی تعمیل کیلیے پہنچی جو اسلام آباد ہی کی عدالت نے جاری کئے تھے۔ زمان پارک میں پولیس سے خان صاحب کے ورکرز نے دو بدو لڑائی لڑی۔ انہیں زخمی کیا اور لاہور پولیس کو حالیہ تاریخ میں پہلی بار پیٹرول بم کا سامنا کرنا پڑا جب واٹر کینن پر پیٹرول بم پھینکے گئے اور اسے آگ لگا دی گئی
زمان پارک میں پہلی بار خیبر پختون خواہ کے ٹرینڈ لڑاکوں کے استعمال کا الزام بھی خان صاحب پر لگا جس کو تقویت اس وقت ملی جب ایک سابقہ کالعدم تنظیم جس کے سربراہ صوفی محمد تھے کے ترجمان وہاں پائے گئے۔ بقول ان کے وہ عمران خان کی کال پر ان کی حفاظت کیلئے زمان پارک پہنچے تھے۔ یہ محافظ کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سابق ترجمان اور مولانا صوفی محمد کے دست راست اقبال خان تھے ۔
ذرائع کے مطابق اقبال خان تین دن زمان پارک میں موجود رہے، اقبال خان ماضی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دہشت گردی کے مختلف واقعات میں مطلوب رہے ہیں۔ 2010 میں انہیں گرفتار کیا گیا ، 12 سال جیل میں رہے، 2022 میں رہا کردیے گئے۔ سوات میں چیئرمین کا الیکشن بھی لڑا اور پھر تحریک انصاف کا حصہ بن گئے۔ آج بی ان پر بھتہ خوری کے الزامات لگائے جاتے ہیں.
اپنے ویڈیو بیان میں انہوں نے زمان پارک جانے کی تصدیق کی۔
اس کے علاوہ میرے لئے سب سے حیرت انگیز واقعہ زلمے خلیل زاد کا خان صاحب کے حق میں بیان تھا۔ بقول سلیم صافی "زلمے خلیل زاد بنیادی طور پر پختون افغان ہیں لیکن ان کی پیدائش ازبک شہر مزارشریف میں ہوئی۔ وہ اسکالرشپ پر تعلیم کیلئے امریکہ گئے اور پھر امریکہ ہی کے ہوکر رہ گئے۔”
"شکاگو یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد وہ مختلف حیثیتوں میں امریکی محکمہ ٔدفاع اور محکمۂ خارجہ کے لئے کام کرتے رہے۔ عمل کے لحاظ سے وہ سرتاپا امریکی ہیں اور مسلمان ہونے کے ناتے انہیں زیادہ تر مسلمان ممالک سے متعلق امریکی پالیسی سازی یا پھر وہاں پر امریکی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔”
"انہوں نے امریکی مفادات کے حصول میں اس قدر بنیادی کردار ادا کیا کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ (وزارت خارجہ) سے وابستہ ہونے کے باوجود انہیں سیکرٹریز دفاع (گیٹ، ڈونلڈ رمسفیلڈ اور ڈک چینی) نے ڈیفنس میڈلز سے نوازا۔”
"بعض رپورٹس کے مطابق صدر منتخب ہونے کے بعد صدر بش انہیں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر بھی بنانا چاہ رہے تھے لیکن پھر کسی وجہ سے کونڈولیزا رائس کا پلڑا بھاری ہوگیا۔”
"طالبان کے خلاف امریکی حملے سے قبل اور اس کے بعد وہ ہمہ وقت امریکی انتظامیہ پر زور ڈالتے رہے کہ طالبان کے خلاف کارروائیوں سے زیادہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔”
"افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد وہ یہاں امریکہ کے سفیر مقرر کئے گئے لیکن عملاً ان کی حیثیت وائسرائے کی تھی۔ طالبان اور پاکستان سے متعلق ان کا رویہ اس قدر جارحانہ تھا کہ ان کے حامد کرزئی سے بھی شدید اختلافات پیدا ہوئے۔”
"خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشورے پر ایک طرف گوانتاناموبے اور بگرام جیسے عقوبت خانے قائم کئے گئے اور دوسری طرف امریکی رات کو گھروں میں گھس کر کارروائیاں کرتے رہے جس کی حامد کرزئی مخالفت کرتے رہے۔ یہاں پر امریکی پنجے گاڑنے کے بعد جب امریکہ عراق پر حملہ آور ہوا تو اس کے لئے گراں قدر خدمات کی وجہ سے انہیں وہاں امریکہ کا سفیر مقرر کردیا گیا۔”
"2005 سے 2007 تک وہ عراق میں سفیر رہے اور یہاں پر امریکی مقاصد پورے کرنے کے بعد انہیں 2007 میں اقوام متحدہ میں امریکہ کا مندوب مقرر کیا گیا۔”
"وہ پہلے مسلمان تھے جنہیں اتنے اہم عہدے پر تعینات کیا گیا کیونکہ امریکہ کے لئے ان کی خدمات کسی بھی امریکی سے کم نہیں تھیں ۔ مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی کی تشکیل میں بھی ہمہ وقت خلیل زاد کا ان پٹ شامل رہا اور ساتھ ساتھ انہوں نے رینڈ (RAND) کے لئے بھی کئی پیپرز لکھے۔”
"وہ کٹر ری پبلکن ہیں جب کہ ری پبلکنز میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر اور نیوکانز کا حصہ تصور کئے جاتے ہیں۔ وکی پیڈیا میں ان کے تعارف میں انہیں نیوکانز قرار دیا گیا ہے ۔”
"زلمے خلیل زاد کی آخری سرکاری ذمہ داری طالبان کے ساتھ دوحہ مذاکرات کے لئے امریکی صدر کے نمائندہ خصوصی کی تھی اور اس کے لئے سی آئی اے، پنٹاگون اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھی صدر کے حکم پر ان کا ماتحت کردیا گیا تھا جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں کے ہاں ان کی کیا اہمیت ہے۔”
"وہ واحد ری پبلکن تھے جنہیں ڈیموکریٹ صدر جوبائیڈن نے حکومت کی تبدیلی کے بعد طالبان کے ساتھ ڈیل کو منطقی انجام تک پہنچانے تک انہیں اس عہدے پر برقرار رکھا۔”
سلیم صافی مزید لکھتے ہیں کہ "اس وقت سرکاری طور پر ان کے پاس کوئی عہدہ ہے اور نہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ ان کا کوئی سروکار ہے لیکن حیرت انگیز طور پر عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد وہ خفیہ دورے پر پاکستان آئے اور بنی گالہ میں عمران خان سے تین گھنٹے پر محیط ون ٹو ون ملاقات کی۔”
"عمران خان کے علاوہ وہ جس دوسرے فرد سے ملے وہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے اور اس ملاقات میں انہوں نے ان پر زور دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ صلح کرلیں۔”
"بعدازاں ٹیلی فونک رابطہ کرکے وہ جنرل باجوہ کو عمران خان کے ساتھ ملاقات کیلئے قائل کرتے رہے اور ایوان صدر میں دونوں کی جو ملاقات ہوئی تھی وہ بنیادی طور پر زلمے خلیل زاد کی کوششوں سے ہوئی تھی۔”
"لیکن اب درپردہ کردار ادا کرنے کی بجائے زلمے خلیل زاد عمران خان کی حمایت میں کھل کر سامنے آئے ہیں اور ان کے حق میں ایسی ٹویٹ کی کہ جیسے وہ زلمے خلیل زاد نہیں بلکہ علی امین گنڈاپور ہوں۔”
آپ ان سب واقعات کی کڑیاں ملائیں تو ایسا لگتا ہے کہ سابقہ کالعدم تنظیم کے لوگوں سے لیکر زلمے خلیل زاد تک خان صاحب کی حمایت میں کمر بستہ اور ملک میں انارکی اور انتشار پھیلانے میں درپردہ یا براہ راست ملوث ہیں اور یہ ایک خطرناک تاثر ہے۔
پی ٹی آئی کے جو لوگ یہ سب کر/ کرا رہے ہیں وہ عمران خان کے ہمدرد نہیں ہیں بلکہ ریاست کے لئے جواز مہیا کر رہے ہیں کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں اور عمران خان کے خلاف ریاستی کاروائی کا جواز پیدا ہو۔
ان واقعات سے پی ٹی آئی کا چہرہ ایک سیاسی جماعت سے زیادہ ایک جتھے کا ابھرا ہے۔ جو سابقہ کالعدم تنظیم اور امریکی ریپبلکن پارٹی یا نیو کونز کے اشتراک سے ایک ملکی انتشار کا ذمہ دار ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ گزشتہ چند دنوں سے پی ٹی آئی کا تاثر ایک پرتشدد جماعت کا ابھر رہا ہے جو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے نبرد آزما ہے اور اس میں سابقہ کالعدم جماعتوں کے لوگ پر تشدد کاروائیاں کر رہے ہیں اور نیو کانز امریکہ سے اس کے حق میں بیانات جاری کر رہے ہیں ؟
خان صاحب کا مزاج Offensive Defence کا ہے جسے انکے کچھ اندرونی عناصر Offence ظاہر کر رہے ہیں اور کارکن انکے پیچھے چل پڑے ہیں کیونکہ خان صاحب ڈائریکٹ کارکنوں سے کنیکٹڈ نہیں ہیں۔
دوسری خوفناک بات خان صاحب کے بیرونی روابط عین اس وقت منظر عام پر آنا ہے جب وہی عناصر پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائیل ٹیکنالوجی کو محدود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کو یہی عناصر سخت موقف لینے پر مجبور کر رہے ہیں اور اس پر طرہ یہ کہ خان صاحب کا امریکہ میں لابیسٹ وہ نکلا ہے جو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا پرانا ناقد ہے.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر