اپریل 17, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

دھنک کا آٹھواں رنگ۔۔۔||یاسر جواد

یاسر جواد معروف مصنف و مترجم ہیں ، انکی تحریریں مختلف ادبی مجلوں کے ساتھ ساتھ اشاعتی اداروں میں بھی پبلش ہوتی رہتی ہیں، یاسر جواد کی منتخب تحریریں ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر

یاسر جواد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی لڑکی کی تحریر پڑھتے وقت آپ عموماً کیا توقع رکھتے ہیں؟ آپ کو لگتا ہے کہ وہ زندگی کے قرینے میں کوئی نیا اور اب تک اوجھل زاویہ سامنے لگائے گی؟ کہ وہ given کو اُڑا کر رکھ دے گی؟ آپ اُس سے زندگی کی گہری تفہیم کی توقع کرتے ہیں؟ یا پھر امرتا پریتم جیسے انوکھے تجربات اور سارا شگفتہ کی بھٹکن؟ آپ یہ بھی اُمید کر سکتے ہیں کہ وہ پھسپھسی بے رنگ اور خودکلامی جیسی کوئی چیز ہو گی؟ یا پھر نجی تجربہ؟ اِن سب ممکنات کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟
لینہ حاشر اِس کا جواب ہیں۔ مالی باغ میں پھولوں کی محبت میں نہیں بلکہ نوکری کرنے جاتا ہے، چڑیاں آپ کا دل بہلانے کو نہیں چہچہاتیں، اُنھیں کچھ اور آتا ہی نہیں؛ اُستاد کوئی خدمت نہیں کرتا، نوکری کرتا ہے۔ وغیرہ۔ عمیرہ احمد قبیل نظریاتی آلودگی کے لیے لکھتی ہے، کچھ لڑکیاں محض اپنی ’ٹھیک‘ کروائی ہوئی شاعری چھپوا کر اپنانے کی سعی میں ہوتی ہیں، کچھ کو دیگر مجبوریاں ہو سکتی ہیں، جیسے تشہیر کا شوق، یا پیشہ ورانہ ترقی یا صاحب کتاب ہونے کا جنون، یا خود کو تخلیقی منوانے کا خبط، یا گریچوایٹی سے ملنے والی رقم کی بدولت چھاپ کر اپنے اوپر تقاریر کروانے کی نیت۔ اِس کے علاوہ کیا وجہ ہو سکتا ہے؟
لینہ حاشر اِس کا جواب ہیں۔ وہ کوئی سماجی نظریہ دان یا دین پرست، خود نمائی کی شوقین، توجہ کی متمنی یا کڑوے پن کی شکار نہیں۔ وہ اپنے تاثرات لکھتی ہیں۔ کسی خواجہ سرا کی موت پر دکھ ہوتا ہے تو اُس کے اوپر بیتنے والی کو ہمددردی کی بجائے ہم احساسی کے ساتھ ضابطۂ تحریر میں لائی ہیں۔ 150 کی تعداد میں مرنے والے اے پی ایس بچوں میں سے ایک کی ماں کی مصیبت اور کرب اُنھیں تحریک دلاتا ہے کیونکہ وہ ماں کوئی بھی ہو سکتی تھی، وہ خود بھی۔ اُن میں للکار اور چیلنج کی بجائے احساس کی سرسراہٹ ہے۔ نامعلوم شاعرانہ دکھ اُن کا مرکزی سُر ہے۔
مصنفہ کو والد انور مسعود سے ویسی محبت ہے جیسی بیٹیوں کو تدریس اور لفظ سے وابستہ دردمند باپ کے ساتھ ہونا ممکن ہے۔ لہٰذا ’گول روٹی‘ میں ایک باپ کے ہاتھوں بیٹی سے ناروا سلوک میں وہ محبت کا دوسرا رُخ یا اینٹی تھیسس پیش کرنے پر مجبور ہوئی۔
رشتوں کو روایتی ڈھنگ میں دیکھنے والوں کو یہ تحریریں پسند اچھی لگیں گی۔ دیگر ذہین لڑکیوں کو بھی اپنے محسوسات بیان کرنے چاہئیں، خواہ وہ اُنھیں خود بے ربط اور جذباتی ہی لگیں۔ جذباتیت کوئی بری چیز نہیں، بلکہ نصف انسانیت کی خصوصی میراث ہے، ساری جنگیں اور ہتھیار باقی نصف کی دین ہیں۔ دُنیا کی ہر تحریر کے قاری ہوتے ہیں، لینہ کے بھی یقیناً ہوں گے۔ لینہ کے تاثراتی شذرے اپنے قاری پہلے ہی ڈھونڈ چکے ہیں اور ایک ماہ میں پورا ایڈیشن بِک گیا جس میں یقیناً بک کارنر کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ یہی کتاب اگر کسی اور پرنٹر نما پبلشر نے چھاپی ہوتی تو مصنفہ کو اتنی خوشی نہ ہوتی۔ اِس کو تو وہ بار بار اُٹھا کر دیکھتی ہوں گی۔
خصوصی خوش اس بات کی ہے کہ کتب کا مرتا ہوا رجحان دوبارہ جی اُٹھنے کو ہے۔ معاشرے تلف ہو جاتے ہیں، مگر تحریر کبھی تلف نہیں ہوتی۔ لفظ واحد ابدی چیز ہے جسے سنوار کر ہی پیش کرنا چاہیے۔ لینہ کو مبارک کہ اُن کے خیالات مجسم ہوئے۔
اگر آپ عمیرہ احمد اینڈ کمپنی کی سوقیانہ اور جعلی روحانی جذباتی دھنک سے بچنا چاہتے ہیں تو دھنک کا آٹھواں رنگ حاضر ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

یاسر جواد کی مزید تحریریں پڑھیے

%d bloggers like this: