نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ موضوعات کے بارے میں لکھتے ہوئے میرا خون کھولنا شروع ہو جاتا ہے۔ خوف لاحق رہتا ہے کہ دماغ کی شریان نہ پھٹ جائے۔ بلڈ پریشر ویسے ہی چند ہفتے قبل قابو سے باہر ہو گیا تھا۔ طبیبوں نے سختی سے ہدایت دی کہ خواہ مخواہ کے ذہنی دباﺅ کو مدعو نہ کروں۔ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتا رہوں۔بدھ کی شام مگر حماقت کا ارتکاب ہو گیا۔ حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلا رکھا تھا۔ کمر اور آنکھوں کے مسائل کی وجہ سے گاڑی چلا نہیں سکتا۔پارلیمان نہ جا سکنے کے باعث چند دنوں سے ”دی نیشن“ کے لئے پریس گیلری لکھنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔
1985ء سے کئی برسوں تک پارلیمانی کارروائی کا مشاہدہ مگر میری ذمہ داری رہی ہے۔ بتدریج یہ مشاہدہ علت کی صورت اختیار کر گیا۔اس کے ہاتھوں مجبور ہو کر بدھ کی شام لیپ ٹاپ کھول لیا اور پارلیمان کی ویب سائٹ پر میسر ”لائیو سٹریم“ کی بدولت جاننے کی کوشش کی کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔اجلاس سے قبل بہت طمطراق سے اطلاع ہمیں یہ دی گئی تھی کہ مذکورہ اجلاس کے دوران کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لئے ایوان سے ”مشترکہ قرارداد“ بھی منظور کروائی جائے گی۔
باہمی اختلافات بھلاکر 1985ء سے تقریباََ ہر برس حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے ایسی بے تحاش قراردادیں منظوری کی ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بجائے لیکن مزید الجھتا چلا گیا۔ بالآخر اگست 2019ء بھی ہو گیا جب نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370 کو ڈھٹائی سے غیر موثر بنا دیا۔ ریاست جموں کشمیر کی ”جداگانہ“ اور کسی حد تک ”خودمختار“شناخت یک لخت مٹا دی گئی۔ اسے دو ٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ لداخ اور جموں کشمیر اس کے بعد ”یونین ٹیریٹری“ ٹھہرائے جانے کی وجہ سے اب براہ راست دلی کی عملداری میں ہیں۔وہاں منتخب”صوبائی اسمبلیوں“ یا حکومتوں کو دکھاوے کیلئے بھی وجود میں نہیں آنے دیا جا رہا۔
بھارتی حکومت نے جب ان یکطرفہ اقدامات کا اعلان کیا تو ہمارے ہاں ”عالم اسلام کے واحد ترجمان“ تصور ہوتے عمران خان صاحب کی حکومت تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کے عوام ہفتے میں کم از اکم ایک بار آدھے گھنٹے کو اپنے گھروں سے باہر آ کر کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ مجوزہ اظہار بھی تاہم ایک ہی بار ہوا۔ اس کے بعد عمران حکومت پاکستان کے ”چور اور لٹیرے“ سیاست دانوں کو عبرت کا نشان بنانے میں مصروف ہو گئی۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی مہینوں تک وادی کشمیر کے باسیوں نے خود کو دنیا کی وسیع تر جیل میں محصور ہوا محسوس کیا۔سچی بات یہ بھی ہے کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں مقبوضہ کشمیر پر نازل ہوئی نئی مصیبتوں کو اتنی جگہ بھی نہیں ملی جتنی مثال کے طور پر ”نیویارک ٹائمز“ جیسے اخبارات نے فراہم کی۔اپریل 2022ء میں البتہ پاکستان میں ”رجیم چینج“ ہو گئی۔ عمران خان صاحب اس کے بعد مستقلاً”ہم کوئی غلام ہیں؟“ کا سوال اٹھاتے چلے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کی ”غلامی“ اس کی بدولت ہماری توجہ کی مستحق نہیں رہی۔
بدھ کی شام کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے بہانے ہمارے نام نہاد نمائندوں نے جو دھواں دار تقاریر فرمائیں ان میں سے ایک بھی اس حقیقت کا ادراک کرتی سنائی نہیں دی کہ ریاست جموںوکشمیر کی تاریخی شناخت مٹانے کے بعد مودی حکومت اب انگریزی محاورے والا ”اگلا قدم“ اٹھا چکی ہے۔ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو گئی تو قضیہ فقط ریاست جموں و کشمیر کی تاریخی شناخت تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے بھارت اور پا کستان کے مابین دریائی پانی کی تقسیم کا جو بندوبست طے ہوا تھا وہ برقرار نہیں رہ پائے گا۔وہ برقرار نہ رہا تو پاکستان کے بے تحاشہ زرعی رقبے بالآخر صدیوں سے میسر دریائی پانی سے محروم ہوجانے کے بعد کاملاً بنجر بھی ہو سکتے ہیں۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ اسے بجلی کی پیداوار کے لئے ان دریاﺅں کا پانی استعمال کرنا بھی لازمی ہے جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ دریائے جہلم بھی ایسا دریا ہے جس پر ”کشن گنگا“ کے نام پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش ہوئی۔اب توجہ دریائے چناب کے پانی کی جانب ہے۔مقبوضہ کشمیر کے کشتوار ضلع میں دریائے چناب پر ”راتلے ڈیم“ بنانے کی تیاری ہورہی ہے۔اس کے ذریعے 850 میگاواٹ بجلی پیدا کرنا مقصود ہے۔ آبی امور کی مبادیات سے نابلد افراد بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بہتے پانی کو کچھ دیر کے لئے روک کر ذخیرہ کئے بغیر بجلی کی پیداوار ممکن نہیں۔ ذخیرہ کے لئے ”بند“بنایا جاتا ہے۔ بند تعمیر ہو جائے تو وہاں جمع ہوئے پانی کو تاریخی انداز میں ”رواں“ نہیں رکھا جا سکتا۔ پانی چھوڑنے کے وقت کا تعین وہ ملک کرتا ہے جس کی زمین پر بند بنایا گیا ہے۔
مذکورہ حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا جو سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے مابین آبی پانی کی تقسیم کے حوالے سے کھڑے ہوئے کسی قضیہ کے حل کے لئے ثالثی فراہم کرنے کا ضامن ہے۔”ثالثی“ کی دو ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پہلی صورت میں کوئی ”غیر جانب دار ماہر“ پاکستان اور بھارت کی مشاورت سے ڈھونڈا جائے گا۔ وہ ”ثالثی“ یقینی نہ بنا پائے تو ”عدالت“دکھتا بندوبست بھی سندھ طاس معاہدے میں یقینی بنایا گیا ہے۔ بھارت اب 1960ء میں طے ہوئی ثالثی کی دونوں صورتوں پر معترض ہے۔ گزشتہ مہینے اس نے تحریری طورپر پاکستان کو آگاہ کیا کہ دریائی پانی کے استعمال کے حوالے سے طے ہوئے معاہدے سے بالاتر ”ثالثی‘ ‘کی کوئی اور صورت ڈھونڈی جائے۔ پاکستان ٹھوس وجوہات کی بنا پر اس تجویز سے رضا مند نہیں ہو سکتا۔ وہ رضامند ہوگیا تو 1960ء میں طے ہوا معاہدہ بتدریج غیر موثر ہو سکتا ہے۔ ”نئی صورت“ نکالنے کی تجویز دینے کے بعد بھارت مجوزہ راتلے ڈیم پر پاکستان کے اٹھائے اعتراضات کے ازالے کے لئے سندھ طاس معاہدے میں طے ہوئے بندوبست کی دونوں صورتوں کے ذریعے قضیے کا حل ڈھونڈنے میں دلچسپی بھی نہیں دکھا رہا۔ من مانی پر ڈٹا ہوا ہے لیکن ہمارے میڈیا پر اس کی جانب توجہ ہی نہیں دی جا رہی۔ مزید کچھ لکھتے ہوئے میرا خون ہی کھولے گا۔ قلم یہاں روکنا ہو گا۔
(بشکریہ نوائے وقت)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر