اپریل 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’’پاکستان کے حالات پر فکرمند ہونا اچھا لگا‘‘ ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن جس طویل المدتی مسئلے کی وجہ سے یہ، خدانخواستہ بنجر ہوجائے گا، وہ ہے برین ڈرین۔ مستقبل کے معمار، ذہین ترین دماغ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ میرے منہ میں خاک، ایک دن آئے گا جب اس ملک میں صرف لبیکیے اور یوتھیے رہ جائیں گے۔
یہ احساس پہلے بھی تھا لیکن دو روز پہلے ہونے والے ایک ایونٹ میں مزید اور شدید ہوا۔
میں نے یہیں فیس بک پر عمار علی جان کی ایک ٹاک کا دعوت نامہ پوسٹ کیا تھا جو واشنگٹن میں تھی۔ جمعرات کو، یعنی ورک ڈے ہونے کے باوجود چالیس پچاس نوجوان اس ایونٹ میں پہنچے۔ وہاں صرف دو بزرگ تھے، یعنی ڈان کے محترم انور اقبال اور آپ کا دوست۔
عمار علی جان کو پاکستان میں بہت سے لوگ جانتے ہیں۔ انھوں نے شکاگو یونیورسٹی سے ماسٹرز اور بہت کم عمری میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ ان کی ڈاکٹریٹ کا موضوع دلچسپ اور اہم تھا، یعنی آزادی سے پہلے کے ہندوستان میں کمیونسٹ نظریہ۔ عمار سوشلسٹ ہیں اور محض تاریخ کے عالم نہیں، حالات حاضرہ اور واقعات عالم سے باخبر رہتے ہیں۔ فقط کتابی باتیں نہیں کرتے، گراونڈ پر جدوجہد بھی کرتے ہیں۔
عمار بیکن ہاوس یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، گورںمنٹ کالج یونیورسٹی اور ایف سی کالج میں پڑھا چکے ہیں۔ ہر جگہ ان کے گرد طلبہ و طالبات پروانوں کی طرح اکٹھے ہوجاتے تھے۔ پاکستان کے حقیقی حکمران یہ بات برداشت نہیں کرسکتے۔ غالبا بیکن ہاوس یونیورسٹی تو نہیں لیکن باقی ہر جگہ سے انھیں خطرہ قرار دے کر نکالا گیا۔ آئی ایس آئی ان کے گھر پر چھاپہ مار چکی ہے، وہ گرفتاریاں بھگت چکے ہیں اور غداری کے مقدمے کا اب بھی سامنا کررہے ہیں۔
میرے کئی اچھے دوست عمار پر تنقید کرتے ہیں لیکن میں ان کا پرستار ہوں۔ آپ نے وہ مصرع سنا ہوگا، اس کے دشمن ہیں بہت، آدمی اچھا ہوگا۔ مجھے ان لوگوں سے ملنا، ان کی باتیں سننا، ان سے باتیں کرنا پسند ہے جن کے دشمن زیادہ ہوں۔ ایسے لوگ بہادر ہوتے ہیں۔ ان سے ہمیشہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔
عمار نے واشنگٹن کے ایونٹ میں اپنی گرفتاری کا واقعہ سنایا۔ پاکستان کے مسائل کی نشاندہی کی، جن سے شرکا پہلے بھی واقف تھے۔ بائیں بازو کی جدوجہد کا جائزہ لیا اور مستقبل کے امکانات واضح کیے۔ پاکستان معاشی، سیاسی اور اخلاقی طور پر اتنی پستی میں ہے کہ روشن مستقبل تو دور، کسی مستقبل کی پیش گوئی کرنا بھی آسان نہیں۔ لیکن عمار خوش امید ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ حال برا سہی لیکن آنے والا وقت اچھا ہوگا۔ ان کی پارٹی حقوق خلق اگلا الیکشن لڑنے کا ارادہ رکھتی ہے اور وہ مثبت نتائج کے لیے بے صبرے نہیں ہیں۔ وہ لمبی اننگز کھیلنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ان کے پاس بہت وقت ہے۔
عمار کی گفتگو کے بعد سوال جواب ہوئے۔ غیر رسمی گفتگو کے بعد سب گھل مل گئے۔ مجھے فیس بک کے ایک فالوور ڈاکٹر شیراز وارث ملے۔ کراچی سے تعلق ہے اور اب یہاں پریکٹس کرتے ہیں۔ بیگم بھی ڈاکٹر ہیں۔ وائس آف امریکا کے سابق کولیگ ملک عمید سے بھی ملاقات ہوئی جسے میں نئے ہیئر اسٹائل میں بالکل نہیں پہچان سکا۔
ایونٹ کے بعد جب دس بارہ لوگ رہ گئے تو طے ہوا کہ کہیں چل کر کھانا کھاتے ہیں۔ سارا دن بارش ہوتی رہی تھی اور اس وقت بھی شدید ہورہی تھی۔ کسی نے کہا، قریب میں ایک بار ہے، وہاں چلیں۔ کوئی مثبت جواب نہ ملا۔ ایک لڑکی نے کہا کہ دس منٹ کی واک پر ایک پزا شاپ ہے۔ سب چلنے کو راضی ہوگئے۔ بندے دس تھے اور چھتریاں پانچ۔ چھتریوں والوں نے ایک ایک ساتھی کو بارش سے بچانا چاہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سب بھیگ گئے۔
پزا شاپ کسی عرب کی تھی۔ بڑا بڑا حلال لکھا تھا۔ آدھے لوگ سبزی خور ملے۔ باقی چکن پزا کے طلب گار تھے۔ پزا بننے میں دیر لگی۔ اتنے وقت میں سب کا ایک دوسرے سے تعارف ہوگیا۔ مناہل مہدی نے بتایا کہ وہ لمز اور پھر ہارورڈ یونیورسٹی سے پڑھی ہیں۔ ان کی دوست لیلیٰ توقیر بھی ہارورڈ کی گریجویٹ ہیں۔ سبطے حسن حیدر بالٹی مور سے آئے تھے۔ نہال حیدر آئی ایم ایف میں ملازم ہیں۔ وہ ہمارے دوست پروفیسر لائق تھیبو کی بیٹی ورشا سے واقف تھے جو ماشا اللہ اب ورلڈ بینک میں کام کرتی ہیں۔
کسی بات پر سبطے نے میری لینڈ کے امام بارگاہ ادارہ جعفریہ کا ذکر کیا۔ لیلیٰ نے بتایا کہ وہ انھیں دور پڑتا ہے، وہ امام علی سینٹر جاتی ہیں۔ میں اچھل پڑا کیونکہ میری بیوی بچے بھی وہیں جاتے ہیں۔ قرابت داری نکل آئی۔ انچولی کا ذکر آیا۔ علامہ طالب جوہری کو یاد کیا گیا۔ عمار نے کہا، بھائی ہم لیفٹ کی تنظیم سازی کرنے آئے ہیں یا کسی شیعہ انجمن کی؟ اس پر ایک قہقہہ پڑا۔ انور صاحب نے کہا، دنیا بھر میں لیفٹ کی تنظیموں میں دو لوگ ضرور پائے جاتے ہی، یہودی اور شیعہ۔ کارل مارکس یہودی تھا۔ سجاد ظہیر شیعہ تھے۔ ان کے بعد ایک طویل فہرست ہے، نام لینے کی ضرورت نہیں۔
مناہل اور لیلی اور سبطے اور نہال سے مل کر دل نہال ہوا۔ ان کی کامیابیوں کا سن کر خوشی ہوئی۔ ان کا پاکستان کے حالات پر فکرمند ہونا اچھا لگا۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: