مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہائے جسٹس شفیع محمدی چلے گئے||نذیر لغاری

بات شفیع محمدی کی ہورہی تھی۔وہ کراچی آکر سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائیٹی کے شاہ لطیف اسکول میں پڑھانے لگےاور اس دوران انہوں نے وکالت کا امتحان بھی پاس کرلیا ۔اسکول کے بعد وہ فزکس، کیمسٹری، انگریزی اور میتھ کی ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔
نذیر لغاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل ڈاکٹر نعیم نے فون کیا تو میں آرٹس کونسل کراچی سے برادرم جاوید چوہدری کے ایکسپریس نیوز چینل کے شو "کل تک” میں شریک ہونے کیلئے نکل رہا تھا۔ڈاکٹر نعیم نے روتے ہوئے بتایا کہ ابا کا انتقال ہوگیا۔مجھے اس وقت پہلی بار محسوس ہوا کہ پیروں کے نیچے سے زمین کیسے نکل جاتی ہے اور کسی کے سر سے سایہ کیسے اُٹھ جاتا ہے۔ڈاکٹر نعیم مسٹرجسٹس محمد شفیع محمدی کے چھوٹے بیٹے ہیں، ان کے بڑے بیٹے سلیم محمدی سے آج علی الصباح بات ہوئی۔میں ان دونوں کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں۔میں ان کے بچپن سے ہی ان کا چاچا ہوں۔شفیع محمدی کا کوئی بھائی نہ تھا۔پچھلے پچاس برس سے ہم ہی ان کے بھائی تھے۔
شفیع محمدی 1970ء کی دہائی کے آغاز میں علی پور سے مڈل سکول کی ہیڈ ماسٹری چھوڑ کر کراچی آگئے تھے۔میں، مشتاق احمد فریدی، ایم رمضان ملک، الہی بخش جروار، فقیرمحمدقیصرانی، حافظ ذاکر، میاں غیاث،شاعر سیفل قیصرانی بھی انہی دنوں کراچی آئے تھے۔میں نے 1970ءکے انتخابات کا غوغا بھی یہاں پر ہی سنا تھا۔مجھے شہر بھر بینروں کی بہار اب بھی یاد ہے۔معراج محمدخان نے لیاقت آباد اور ڈاکٹر شمیم زین الدین نے ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اور نیوکراچی سے یہ کہہ کر پاکستان پیپلزپارٹی کا ٹکٹ واپس کردیا تھا کہ انقلاب پرچی سے نہیں برچھی سے آتا ہے۔یہ اس کمیونسٹ پارٹی کی لائن تھی، جسے طفیل عباس چلا رہے تھے، وہ کمیونسٹ پارٹی پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد اس میں گُھس آئی تھی۔یہ ایک لمبی کہانی ہے اور یہ پھر کبھی سہی۔
بات شفیع محمدی کی ہورہی تھی۔وہ کراچی آکر سندھی مسلم ہاؤسنگ سوسائیٹی کے شاہ لطیف اسکول میں پڑھانے لگےاور اس دوران انہوں نے وکالت کا امتحان بھی پاس کرلیا ۔اسکول کے بعد وہ فزکس، کیمسٹری، انگریزی اور میتھ کی ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔میں بھی کئی نوکریاں چھوڑ کرٹیچر بن چکا تھا۔ہم سب میں سے صرف مشتاق احمد فریدی گزیٹڈ آفیسر کلاس ون کے افسر تھے اور کراچی شپ یارڈ میں ملازمت کرتے تھے۔اسی دوران ہم نے سرائیکی سماجی، ثقافتی اور ادبی سرگرمیاں شروع کردیں۔انہی دنوں دو سرائیکی تنظیمیں انجمن اتحاد سرائیکی برادری اور پاکستان سرائیکی سنگت وجود میں آئیں۔سنگت کے سربراہ شفیع محمدی اور برادری کے سربراہ الہی بخش جروار تھے۔برادری کی سرگرمیاں بلدیہ ٹاؤن اور سنگت کی سرگرمیاں پی ای سی ایچ سوسائیٹی میں ہوا کرتی تھی۔میں نارتھ ناظم آباد میں رہتا تھا اس لئے میں دوونوں تنظیموں کی سرگرمیوں میں شریک ہوا کرتا تھا بلکہ انجمن اتحاد سرائیکی برادری والوں نے مجھے بعد میں سینئر نائب صدر بھی بنا لیا تھا۔
پھر یہ طے ہوا کہ دونوں تنظیموں اور شہر بھر مقیم سرائیکی لوگوں کا ایک مشترکہ اجلاس 23مارچ 1976ء کو بلدیہ ٹاؤن آفریدی کالونی میں طلب کیا جائے۔یہ اجلاس ایک سنگ میل ثابت ہوا۔اس میں ملتان ڈویژن، ڈیرہ اسمعیل ڈویژن، سرگودھا ڈویژن کے تمام اضلاع کی نمائیندگی تھی۔ان ڈیرہ غازی خان ڈویژن نہیں بنا تھا۔ملتان، ساہیوال، مظفرگڑھ اور ڈیرہ غازیخان ایک ہی ملتان ڈویژن میں شامل تھے۔لیہ، پاک پتن، لودھراں، پاک پتن، اکاڑہ، وہاڑی اور راجن پور الگ الگ اضلاع نہیں بنے تھے۔جبکہ سرگودھا ڈویژن میں سرگودھا کے علاوہ میانوالی، جھنگ اور لائل پور کے اضلاع شامل تھے۔خوشاب، چنیوٹ بکھر، ٹوبہ ٹیک سنگھ بعد میں اضلاع بنے۔ڈیرہ اسمعیل خان سے بھی ضلع ٹانک الگ گیا گیا۔بلدیہ ٹاؤن کے اجلاس میں تمام قدیم سرائیکی اضلاع اور ڈویژنز کے نمائندے موجود تھے اور کراچی کی حد تک یہ ایک تاریخی اجتماع تھا جس میں شفیع محمدی مرکزی شخصیت بن کر ابھرے تھے۔اس کے بعد بڑا اجتماع ایچ ای ایف اسکول کریم آباد میں 1978ء میں منعقد ہوا تھا۔یہ جشنِ فرید تھا۔مگر ہمارے ہفتہ وار اجتماع پی ای سی ایچ سوسائٹی میں شفیع محمدی کے گھر،آفریدی کالونی بلدیہ ٹاؤن میں الہی بخش جروار کے گھر اور نصرت بھٹو کالونی نارتھ ناظم آباد میں میرے گھر باقاعدگی سے منعقد ہواکرتے تھے۔ان تینوں میٹنگوں میں دونوں تنظیموں کے عہدیداراور عام سرائیکی لوگ باقاعدگی سے شرکت کرتی تھے۔
جب شہید ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء کے عام انتخابات کا اعلان کیا تو کراچی میں موجود سرائیکی لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سرائیکی بنیادوں میں الیکشن میں حصہ لینا چاہیئے۔چنانچہ بلدیہ ٹاؤن کے حلقہ سے پیپلز پارٹی کے حاجی قاسم حاجی پٹیل کے مقابلے میں شفیع محمدی نے ایم پی اے کی سیٹ پر کاغذات نامزدگی داخل کرادیئے۔کاغذات نامزدگی کے فائینل مرحلے پر حاجی قاسم پٹیل اور ڈاکٹر امیراحمد میرے گھر تشریف لائے اور شفیع محمدی کی دستبرداری کیلئے بات کی۔میں نے انہیں بتایا کہ شفیع محمدی سرائیکی برادری اور سرائیکی سنگت کے امیدوار اور ان کی دستبرداری میرے ہاتھ میں نہیں۔پھر وہ دونوں مجھے ساتھ لے کر شفیع محمدی کے گھر گئے۔شفیع صاحب نے کہا کہ ہمارا مسئلہ سرائیکی صوبے کا قیام ہے۔پیپلز پارٹی سرائیکی صوبہ کے قیام کی یقین دہانی کرائے میں دستبردار ہوجاتا ہوں، تاہم حتمی فیصلہ ہماری برداری کرے گی۔ان دونوں نے اگلے روزپی پی پی کے سینئروائس چیئرمین مخدوم محمد زمان طالب المولی سے ہماری بات کرائی۔انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی سرائیکی کو الگ قومی وحدت تسلیم کرتی ہے اور اگر سرائیکی عوام الگ صوبہ کا مطالبہ کریں گے تو ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔اس پر سنگت کے مشورے سے شفیع محمدی نے حاجی قاسم عباس پٹیل کے حق میں دستبردار ہونے کا اعلان کردیا۔مگر کاغذاتِ نامزدگی کی واپسی کا وقت گزر چکا تھا۔اس لئے شفیع محمدی نے اچھے خاصے ووٹ لئے تھے۔بعد دونوں قاسم پٹیل اور ڈاکٹر امیراحمد غلام مصطفی جتوئی کی سندھ کابینہ میں علی الترتیب وزیرصحت اور وزیرتعمیرات بنائے گئے تھے۔
جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا تو محمد شفیع محمدی نے تدریس چھوڑ کر وکالت شروع کردی۔میں نے بھی کل وقتی تدریس چھوڑ کر جزوقتی صحافت کو بطورپیشہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا اور ماہنامہ انجمن، ماہنامہ العلم اور ہفت روزہ الفتح سے ہوتے ہوئے روزنامہ نوائے وقت کے دفتر میں قدم رکھا۔
شفیع محمدی اب باقاعدہ پاکستان پیپلز پارٹی کا حصہ بن گئے۔انہوں جنرل ضیاء کے ماشل لاء میں کئی بار جیل یاترا کی۔میرے ذاتی علم میں ہے کہ شہید بھٹو صاحب اور شیہد بے نظیربھٹو کو ان پر بے پناہ اعتماد تھا۔1979ء میں جب سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل مسترد کردی تو شفیع محمدی نے آخری بار قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔انہوں نے جسٹس عبدالقادر شیخ کی سربراہی میں قائم صوبائی شریعت کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔اس شریعت بنچ میں ذوالفقارمرزا کے جسٹس ظفرحسین مرزا اور جسٹس ڈاکٹر آئی محمود شامل تھے۔کتابوں کی فراہمی میری ذمہ داری تھی۔میں تاریخ طبری، تاریخ ابنِ خلدون، طبقات ابنِ سعد، تاریخ یعقوبی، مسعودی، تاریخ علامہ جلال الدین السیوطی، تاریخ علامہ نجیب اکبرآبادی اور دیگر تاریخی کتب حاصل کیں اور ہم نے تاریخی نظیر کے طورپر حضرت علی کی شہادت کا واقعہ سامنے رکھا۔ بعد میں میں نے مسجدکوفہ، حضرت علی پر حملے کے مقامات اور سجدہ کی حالت میں کئے جانے والے وار کے مقام کے علاوہ حضرت علی کا وہ گھر بھی دیکھا تھا جہاں پر ضرب لگنے کے تین روز بعد حضرت علی کی شہادت ہوئی تھی۔
حضرت علی کو اپنی شہادت کے تمام واقعات کا علم تھا، انہیں قتل کی سازش کرنے والوں، مسجد کے دروازے کے قریب پہلی ناکام ضرب لگانے، آگے بڑھ کر دوسری ناکام ضرب لگانے والے اور سجدے کے دوران تیسری ضرب لگانے والے کے ناموں کا علم تھا۔حضرت علی نے حضرت امام حسن سے کہا کہ اگر میں اس زخم سے جانبر ہوگیا تو میں اپنا بدلہ خود ہی لوں گا اور اگر میں زخم سے جانبر نہ ہوسکیں تو میرے قتل کی سازش کرنے والوں میں سے کسی سے بھی کوئی بدلہ نہ لینا۔جس شخص نے مسجد کے دروازے کے قریب مجھ پر پہلا وار کیا اُسے بھی کچھ نہ کہنا، جس نے تیسرا وار کیا اس سے بھی درگزر کرنا مگر مجھ پر تیسرا وار اس شخص ابنِ ملجم نے کیا ہے اس پر آپ ایک ہی وار کرنا، یہی میرا بدلہ ہوگا۔
یہ نص صریح تھی۔یہ کلی حجت اور حتمی فیصلہ تھا۔شفیع محمدی نے انہی تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر اپنی شرعی پٹیشن تیار کرکے شریعت کورٹ میں پیش کردی۔شریعت بنچ نے پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ آپ کا وکیل کون تھا مگر شفیع محمدی کے جواب دینے سے پہلے عبدالحفیظ پیرزادہ کے کھڑے ہوکر کہاکہ اس کیس کا وکیل میں ہوگا۔ہم دونوں مطمئن تھے کہ ہم پیرزادہ کو دلائل سے مالامال کرکے شریعت کورٹ کوذوالفقارعلی بھٹو کی سزائے موت کوختم کرانے اور باعزت بری کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ہم شریعت کورٹ سے بار روم چلے گئے جہاں ہمیں پیرزادہ کا انتظار کرنا تھا۔
پیرزادہ بار روم میں نہ آئے۔کافی دیر انتظار کے بعد ہم دونوں سندھ مدرستہ الاسلام کے سامنے شفیع کورٹ میں واقع شفیع محمدی کے دفتر آگئے۔وہاں ہم پیرزادہ کے فون کا انتظار کیا۔جب چھ ساڑھے بجے تک فون نہ آیا تو ہم ٹیکسی پر سن سیٹ بلیوارڈ ڈیفنس میں عبدالحفظ پیرزادہ کے گھر پہنچ گئے اور اپنی آمد کی اطلاع دی۔ دوگھنٹے انتظار کے بعد پیرزادہ نے ہمیں ملاقات کے کمرے میں بلوایا اور کہنے لگے۔شفیع صاحب ہمارا کیس بہت مضبوط ہے۔پوری تیاری سے جائیں گے اور یوں بھی جنرل ضیاء میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ بھٹو صاحب کو پھانسی دے سکے تھے۔میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ پیرزادہ صاحب جن لوگوں نے بھٹو صاحب کی جان لینے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے یہ تاثر قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا کہ بھٹو صاحب کو کوئی مائی کا لعل پھانسی نہیں دے سکتا۔ہمیں زیادہ خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہیئے۔پیرزادہ قدرے بیزاری سے بولے کہ میں زیادہ جانتا ہوں اور میں کئی سطح پر رابطوں میں ہوں۔اب یوں بھی شفیع صاحب کے کیس سے ہمارے کیس میں ایک اسکوپ ہاتھ آگیا ہے۔ہم خاموشی سے اُٹھ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے۔
اگلے روز شریعت کورٹ کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔یہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا کورٹ روم تھا۔اچانک چوبدار نے زمین پر چوب کی ضرب لگاتے ہوئے بلند آواز میں صوبائی شریعت کورٹ کے ججوں کی آمد کا اعلان کیا۔شفیع محمدی عبدالحفیظ پیرزادہ کے ساتھ لگ کر بیٹھے ہوئے تھے۔میں پچھلی نشست سے بھی پیچھے عام آدمیوں کے بیٹھنے کی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔جسٹس عبدالقادرشیخ، جسٹس ظفرحسین مرزا اور جسٹس ڈاکٹر آئی محمود نے اہنی اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ریڈر نے کازلسٹ کے پہلے کیس کانمبر بتاتے ہوئے پیرزادہ کا نام لیا۔پورے کورٹ روم میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔کورٹ روم میں تِل دھرنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔لوگوں کے سانس لینے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔عبدالحفیظ پیرزادہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک قیامت خیز جملہ ادا کیا۔
"My Lord I withdraw this petition”
شفیع محمدی پر ایک بم گر پڑا۔وہ بوکھلا کر ہونکوں کی طرح ٹکٹکی باندھ کر پیرزادہ کو دیکھنے لگے اور پوچھا کہ یہ آپ نے کیا کیا۔پیرزادہ نے بگڑتے ہوئے کہا کہ ہمیں ریویوپٹیشن میں سپریم کورٹ سے ریلیف مل رہا ہے۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ جنرل ضیاء اور پیرزادہ کی بیگمات رشتہ کی بہنیں ہیں اور ان کی اداکار دلیپ کمار کی بھابھی بیکم پارہ سے بھی قریبی رشتہ داری ہے۔یہ بھی پتہ چلا کہ عبدالحفیظ پیرزادہ سمیت پی پی پی کی قیادت اپنی کھال بچانے کیلئے جنرل ضیاء سے مل چکی تھیں۔اس زمانے میں غلام مصطفی جتوئی نے سندھ کے فوجی گورنر جنرل ایس ایم عبادی کی بہن بیگم عتیقہ چنائے اور ممتاز علی بھٹو نے نوابزاداہ لیاقت علی خان کی بہو بیگم مریم اکبرلیاقت سے شادیاں رچالی تھیں۔پی پی پی کی سنٹرل کمیٹی کے بیشتر ارکان سودا کرچکے تھے مگر شفیع محمدی ڈٹے ہوئے تھے۔
شریعت کورٹ نے شفیع محمدی کی پٹیشن خارج کرتے ہوئے نمٹادی۔میں ان کے ساتھ تھکے ہوئے جواری کی طرح عدالت سے باہر نکلا۔شام کو بی بی سی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بچانے کی آخری کوشش بھی ناکام ہوگئی ہے۔
شفیع محمدی کی پٹیشن 22مارچ 1979ء کو پیزادہ کی طرف سے واپس لئے جانے پر خارج ہوئی اور24مارچ 1979ء کو بھٹو صاحب کی نظرثانی کی اپیل بھی متفقہ طورپر مسترد کردی۔میں نے جسٹس دوراب پٹیل سے یہ دریافت کیا کہ پٹیشن متفقہ طور پر کیوں کی گئی۔ اس پر انہوں نے ہم تین جج جسٹس حلیم، جسٹس صفدر شاہ اور خود میں(دوراب پٹیل) بھٹو صاحب کو بری کرچکے تھے۔اس لئے ہم نے اپنے فیصلہ کوبرقرار رکھتے ہوئے اس پر نظرثانی نہیں کی، جبکہ سزا برقرار رکھنے والے ججوں انوارالحق، ملک اکرم، کرم علی چوہان اور نسیم حسن شاہ نے سزا برقرار رکھتے ہوئے نظرثانی کی اپیل مسترد کردی۔
اب شفیع محمدی نے دو اپریل کو آخری بار قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ۔وہ تازہ پٹیشن تیار کرکے صوبائی شریعت کورٹ میں دائر کی۔جسٹس عبدالقادر شیخ نے پوچھا کہ آپ کو کیوں یہ خدشہ ہے کہ بھٹو صاحب کو فوری پھانسی دے دی جائے گی۔شفیع محمدی نے کہا کہ جنرل ضیاء بد دیانت ہےاس لئے اس سے کسی بھی خطرناک بات کی توقع کی جاسکتی ہے۔جسٹس شیخ نے کہا کہ یہ بات آپ نے پٹیشن میں تو نہیں لکھی۔اس پر شفیع محمدی نے جیب سے قلم نکالتے ہوئے کہا کہ میں اپنی پٹیشن میں قلم سے یہ بات لکھ دیتا ہوں۔جسٹس شیخ نے کہا کہ کل آپ ترمیم شدہ پٹیشن دوبارہ کل دائر کریں۔مگر وہ کل نہیں آئی ۔
اگلے روز میں کپیٹل سینما سے پاسپورٹ آفس کے راستے سندھ ہائیکورٹ جا رہا تھا۔میں نے دور سے سامنے شفیع محمدی کو روتے ہوئے ہائی کورٹ کے احاطے سے باہر آتے ہوئے دیکھا۔میں تیز قدموں سے چلتا ہوا ان کے قریب پہنچا اور پُوچھا کہ کیوں ہوا۔انہوں نے مایوسی سے کہا کہ وہ نہیں سنتے۔آج ایک جج جسٹس ڈاکٹرآئی محمود بیمار ہوگئے ہیں۔میں نے کہا کہ ہم کورٹ کو پیشکش کرتے ہیں کہ کورٹ کو جسٹس ڈاکٹرآئی محمود کے گھر لے چلتے ہیں۔ہم ان کی ٹرانسپورٹ کی ادائیگی کریں گے۔شفیع محمدی نے کہا کہ وہ نہیں مانیں گے مگر ہم چلتے ضرور ہیں۔
ہم دونوں سندھ ہائیکورٹ کی مرکزی عمارت کی دوسری منزل پر چیف جسٹس کے چیمبر کے سامنے پہنچے اور شفیع محمدی نے چپراسی سے کہا کہ چیف صاحب کومیرے آنے کے بارے میں بتادو۔تھوڑئ دیر بعد ہم جسٹس عبدالقادر شیخ کے روبرو تھے۔جسٹس ذوالفقار علی مرزا بھی موجود تھے۔شفیع محمدی نے باوقار عاجزی سے کہا کہ سندھ کی تاریخ آپ دونوں کی طرف دیکھ رہی ہے۔آج کا کمحہ گزر جائے گا۔بھٹو صاحب بھی کسی بھی طور پر اپنی منزل سے گزر جائیں گے سندھ میں وقت گھڑی پر آکر ٹھہر جائے گا جب آپ انصاف کرسکتے ہیں اور اب بھی صریحاٍ نااصافی کی شرمندگی کا داغ دھو سکتے ہیں۔شفئع محمدی کی اس گفتگو پر دونوں جج ٹس سے مس نہ ہوئے۔دونوں بہت چھوٹے لوگ تھے، انہیں نوکری عزیز تھی۔انہوں نے ہمیں خالی ہاتھ دھتکار کرلوٹا دیا۔ہم وہاں سے باہر نکل مرکزی عمارت کی اندرونی دائیں جانب آگئے۔ وہاں پر صدیق کھرل، یو نعمت مولوی، حسین شاہ راشدی، رخسانہ زبیری اور چند دیگر وکلاء کھڑے ہوئے تھے۔سب چُپ تھے۔ماحول پر گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اچانک صدیق کھرل کی آواز نے خاموشی کا سینہ چیر دیا۔انہوں نے ایک جملہ کہا اور ہم سب کولرزا دیا”کل ڈیڈباڈی آرہی ہے” یوں لگا کہ ہم سب اپنی اپنی لاشیں اُٹھائے ہوئے کھڑے ہیں۔ہم سے کسی ایک نے کہا کہ بیگم اشرف عباسی سے کہو کہ وہ پیرزادہ سے بات کریں۔بیگم اشرف عباسی صبح سے شام اور پھر رات تک پیرزادہ کا نمبر ملاتی رہیں مگر ان کی بات نہ ہوسکی۔رات کو دوبجے بیگم اشرف عباسی کو پیرزادہ کا نمبر ملا۔پیرزادہ نشے میں ڈوبا ہوا تھا۔اس نے ایک جملہ کہہ کر فون بند کردیا”ڈارلنگ کل تم ایک خوشخبری سنو گی” عین اسی لمحے قائدِعوام، فخرِایشیاءذوالفقار علی بھٹو پھانسی دی جارہی تھی۔(جاری ہے)

اے وی پڑھو:

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(15)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(14)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(13)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(12)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(11)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(10)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(9)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(8)۔۔۔ نذیر لغاری

سینے جھوکاں دیدیں دیرے(7)۔۔۔ نذیر لغاری

نذیر لغاری سئیں دیاں بیاں لکھتاں پڑھو

%d bloggers like this: