اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صرف باجوہ ڈاکٹرائن ہی کیوں؟ ۔۔۔||حیدر جاوید سید

حیدر جاوید سید سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور صحافی اور تجزیہ کار ہیں، وہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کےمختلف قومی اخبارات میں مختلف موضوعات پر تواتر سے کالم لکھ رہے ہیں، انکی تحریریں انہی کی اجازت سے ڈیلی سویل کے قارئین کی نذر کی جارہی ہیں،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہر رفیق احمد عشروں سے دوست ہیں گزشتہ دو تین دنوں سے ٹیلیفون پر کہہ رہے ہیں ، شاہ جی، جنرل قمر جاوید باجوہ کی رخصتی اور آخری تقریر پر ایک کالم ضرور لکھیں۔ عرض کیا ان کے ہوتے ہوئے کسی خوف کے بغیر جو درست سمجھا لکھتا رہا اب ’’شہیدوں‘‘ میں نام لکھوانے کا فائدہ۔

لیکن مہر صاحب کا اصرار جاری ہے اور ہماری بات بھی وہی ہے کہ جانے والا چلا گیا اب لکیر پیٹنے کا فائدہ۔ پچھلے کئی دنوں سے کھمبیوں کی طرح اُگ آئے انقلابی ، لالہ باجوہ کے دور کا پوسٹ مارٹم کررہے ہیں ان میں سے زیادہ تر وہی ہیں جو 9اپریل سے قبل باجوہ ڈاکٹرائن کے محافظ تھے۔

نیزوں بھالوں سے لیس ان مجاہدین کا خیال تھا آرمی چیف کے خلاف بولنے والے ’’را‘‘ کے تنخواہ دار ہیں ۔ اب 9اپریل سے ’’را‘‘ کے پے رول پر کون ہے؟

معاف کیجئے گا کم از کم مجھے یہ بیماری کبھی لاحق نہیں ہوئی کہ آراء کے اختلاف پر کسی کو ’’را‘‘ کا تنخواہ دار، مشرک و کافر اور ملک دشمن قراردادوں۔ ہر شخص کو اپنی فہم کے مطابق بات کرنے اور اسے آگے بڑھانے کا حق ہے۔

باجوہ چلے گئے ان کی جگہ جنرل عاصم منیر نے لے لی۔ سچ پوچھئے تو یہ بہت زیادہ ہو تو دو سطری خبر ہے سنگل کالم کی۔ مسلم معاشروں کی نفسیات قدرے مختلف ہے اور خصوصاً پاک و ہند کے مسلمانوں کی ان کے لئے لشکر سے محبت اور عقیدت ایمان کا ساتواں رکن ہے۔ جو نسل در نسل لشکریوں سے محبت ہے یا پھر حملہ آور لشکروں کے ساتھ آئے خاندانوں سے تعلق کی وجہ ۔ ویسے ان تعلق داروں میں بھی اپنے حصہ کا سچ بولنے والے بہت تھے اور ہیں۔

باجوہ ڈاکٹرائن کے خلاف حالیہ مہم کی جسے اور جنہیں ضرورت ہو وہ اسے بخوشی جاری و ساری رکھیں۔ ہمارے لئے وہ ڈاکٹرائن ہو یا کل کے پجاری اور آجکے ناقد سبھی لطیفہ ہی ہیں۔

صاف سیدھی بات یہ ہے کہ جس جس نے اس ملک کے دستور میں طے شدہ کردار اور حدود سے تجاوز کیا وہ مجرم ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے شعبہ میں کوئی خاص کارکردگی نہ دیکھاسکنے والے ہر فن مولا بنے رہتے ہیں۔

اس ملک میں 4بار فوجی حکومتیں برسراقتدار آئیں۔ ان چاروں فوجی حکومتوں کے سربراہوں اور ان کے محکمہ جاتی معاونین کی اپنے شعبہ میں کارکردگی کیا تھی؟ صفر جمع صفر۔

1965ء کی جنگ کے نتائج پر بحث اٹھانے سے قبل ضروری ہے کہ سرحد کے دونوں اور اس جنگ پر لکھی گئی کتابیں ضرور پڑھ لی جائیں اس کے بعد تجزیہ بہتر اور حقائق کے قریب ہوگا ورنہ ڈھول پیٹتے رہیں کہ ہم نے یہ کردیا وہ کردیا۔

جنگوں کے نتائج سے قومیں متاثر ہوتی ہیں اور پروپیگنڈہ ایک خاص طبقے کو ہیرواور دفاع کو ناقابل تسخیر بناکر پیش کرتا ہے ہم ناقابل تسخیر دفاعی نظام رکھتے ہیں۔ جی بالکل لیکن کوئی بتلائے گا کہ اس کا تجربہ کس میدان میں ہوا ماسوائے چار براہ راست فوجی حکومتوں اور اسٹیبلشمنٹ کی ان وارداتوں کے جن کی وجہ سے عوام کا حق حکمرانی پامال ہوا۔

ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کا تجزیہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہاں ریاستی و رجعت پسندی خوانچوں پر جو مال ملا اس پر تجزیوں کی عمارت اٹھاتے ہیں ورنہ سادہ سا معاملہ ہے۔

آپ 14اگست 1947ء سے 16دسمبر 1971ء کے درمیانی برسوں میں مسلح افواج سمیت وفاقی محکموں میں بنگالیوں کی نمائندگی کا حساب کرلیجئے جواب سامنے رکھا ہے۔

مزید تفہیم کے ساتھ اس سانحہ کو سمجھنا چاہتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ بنگال (مشرقی پاکستان) میں عوامی جمہوریت کا شعور مغربی پاکستان کے مقابلہ میں قدیم بھی تھا اور مستحکم بھی۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں میں عوام کے حق نمائندگی پر قابض طبقات اور مشرقی پاکستان کے منتخب ارکان کے طبقاتی پس منظر سے بھی بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔

بات صرف سمجھنے کی ہے ہم سمجھنے سے زیادہ اپنی بات کو حرف آخر قرار دے کر کشتوں کے پشتے لگانے کے عادی ہیں۔

چاروں فوجی ادوار ہوں یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی و اطلاعاتی اور الیکشن مینجمنٹ سے بنی حکومتیں، ان سب ادوار میں اصل حکمران وہی تھے ان کی حکمرانی مسلمہ اس لئے تھی کہ یہ ملک روز اول سے سکیورٹی سٹیٹ ہے۔

بٹوارے سے بنی دو مملکتوں کی بنیادوں میں بھری گئی نفرت سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا رزق تھا ہے اور اس وقت تک رہے گا جب تک عوامی جمہوری شعور کی بنیادوں میں بھری گئی نفرت پر شرف انسانی کو مقدم قرار نہ دے دیا جائے ۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریر نویس نے بھارت کی حکومت اسٹیبلشمنٹ اور ذرائع ابلاغ کے رویوں، ترجیحات اور پروپیگنڈے کو نظرانداز کردیا۔

جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب بٹوارے کی بنیادوں میں بھرے جھوٹ سے برات کا اظہار کیا جائے گا اس کی ابتدا کہاں سے کرنی ہے اس کا فیصلہ آپ خود کیجئے۔

یہ فیصلہ آپ تبھی کرپائیں گے جب آپ بٹوارے کو تقابلی فہم سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

بٹوارہ تو رکھئے ایک طرف ہمارے ہاں ایک اکثریت آج بھی رنجیت سنگھ کی فتوحات سے پامال ہوئی شناختوں کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ اس جملہ معترضہ کو اٹھارکھئے ہم اصل موضوع پر بات آگے بڑھاتے ہیں۔

بٹوارے کو اپنی کامیابی کا سرنامہ قرار دیتی آل انڈیا مسلم لیگ کے پاکستانی حصہ (ویسے تو دونوں حصوں کی قیادت پر غور کیا جاسکتا ہے) کی قیادت پر نگاہ دوڑایئے وہی پیر و میر، تمندار، خان بہادر، سر، نواب اور اشرافیہ کے دوسرے کردار ملیں گے ان میں سے اکثر کے پرکھے اور پرکھوں کے پرکھے آپ کو ہر حملہ آور کے دربار میں منصبوں پر دیکھائی دیں گے۔

قیام پاکستان کےبعد برطانوی ہندوستان کی مسلم سیاسی اشرافیہ اور سکیورٹی و سول اسٹیبلشمنٹ تینوں ساجھے دار ہوئے قرارداد مقاصد کی صورت میں مذہبی رہنما چوتھے حصہ دار کی صورت میں ان سے جاملے۔

معاملہ صرف ایوبی آمریت کے آغاز یا اس سے قبل میجر جنرل سکندر مرزا کے ’’تجربوں‘‘ کا نہیں۔ ون مین ون ووٹ سے انکار ہی عوام کی حاکمیت سے انکار تھا ۔

اس ملک میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اثرورسوخ اورتابعداری سے آزاد کتنی حکومتیں قائم ہوپائیں؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس کا جواب آپ کو سمجھا سکتا ہے کہ اس ملک میں عوامی جمہوریت کی راہ کھوٹی کیوں ہوئی۔

کیا ہم اور آپ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی زحمت کریں گے؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم جب بھی اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی زحمت کریں گے فوراً مذہبی قومیت کا تصور ہمارے راستے میں دیوار چین کی طرح حائل ہو جائے گا۔

عرض کرنے کامقصد یہ ہے کہ باجوہ ڈاکٹرائن کو شعوری طور پر سمجھنا ہے تو پھر ہمیں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پچھتر برسوں کی تاریخ کے اوراق الٹنا ہوں گے۔

چلیں اگر مختصراً بھی معاملات کو سمجھنا ہے تو پھر یہ مت بھولئے کہ باجوہ ڈاکٹرائن نے شکریہ راحیل شریف کی کوکھ سے جنم لیا۔ اس کے اصل خالق جنرل شجاع پاشا تھے۔ پاشا کے محکمہ کے ان کے بعد کے سربراہ کیا اپنی مرضی سے اس منصوبے کو آگے بڑھاسکتے تھے جسے اس تاثر کے ساتھ آگے بڑھایا گیا کہ 2جماعتی نظام کی خرابیوں پر قابو پانے یا یوں کہہ لیجئے اس عدم توازن کو درست کرنے کے لئے تیسری قوت کا ہونا ضروری ہے۔

سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں تیسری قوت کے طور پر خالص اپنی جماعت بنوانے کی سوچ بہت پرانی ہے۔ ماضی کے تجربات ہمارے سامنے ہیں۔

ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ جسے ہم باجوہ ڈاکٹرائن کہہ رہے ہیں یہ اصل میں سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹرائن ہے کیونکہ کوئی آرمی چیف سیاسی امور میں مداخلت، ساجھے داری یا تابعدار حکومت کی تشکیل کا فیصلہ تنہا نہیں کرتا۔ یہ اجتماعی فیصلہ ہوتا ہے مختلف عوامل کی بنیاد پر۔

چند دن قبل بھی ان سطور میں عرض کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں سپریم کورٹ نے ظفر علی شاہ کیس میں جو فیصلہ دیا وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کیس میں فوجی حکومت کے جواب میں دو تین اہم باتیں کی گئیں۔ ایک یہ کہ نواز حکومت بھارت کی علاقائی بالادستی کو تسلیم کرتی تھی یہ پاکستانیت سے متصادم سوچ تھی۔

دوسرا یہ کہ (ن) لیگ کے دور میں پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 1990ء سے 1999ء تک رخصت کی گئی چاروں حکومتوں پر ان دو الزامات کے ساتھ تیسرا الزام کرپشن کا لگتا تھا۔

بہت زیادہ دور نہ جائیں خود مشرف دور کی کرپشن کا معاملہ دیکھ لیجئے اور پھر منصوبے کے تحت منظم کر کے لائی گئی تیسری قوت کے دور کی کرپشن کہانیاں دونوں کو ملاکر پڑھیں سترہ اٹھارہ طبق روشن ہوجائیں گے۔

مکرر عرض ہے صرف باجوہ ڈاکٹرائن ہی کیوں ہم شعوری طور پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ڈاکٹرائن کاتجزیہ کرنے کے لئے آمادہ کیوں نہیں ہوتے حالانکہ بنیادی طور پر اسے ہی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

%d bloggers like this: