نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیر کی دوپہر شروع ہونے سے کئی لمحے قبل شام ڈھلنے تک ہمارے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر بینڈ، باجہ، بارات سمیت ٹِکر چلنا شروع ہوگئے۔ یہ ”خبر“ دیتے رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے آئی جی پنجاب کو حکم صادر کردیا ہے کہ عمران خان صاحب پر جمعرات کے روز ہوئے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر چوبیس گھنٹوں میں درج کر دی جائے۔ ورنہ….
یہ ٹِکر چلے تو میرے اور آپ جیسے کئی سادہ لوح پاکستانی یہ تصور کرنا شروع ہو گئے کہ غالباً وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت نے پنجاب پولیس کو ہدایت کی ہے کہ ایف آئی آر اسی انداز میں درج ہو جس کا تقاضہ عمران خان صاحب کئی دنوں سے دہرائے چلے جارہے ہیں۔ ان پر گولی چلانے والے کو تحریک انصاف کے ایک دلیر کارکن نے جائے وقوعہ پر ہی اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔بالآخر وہ پولیس کے ہاتھ آ گیا۔ گرفتار ہونے کے چند ہی لمحوں بعد اس کا ”اعترافی“ سنائی دیتا بیان بھی روایتی اور سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔ اس بحث میں نہیں الجھتے کہ مذکورہ بیان کو نشر کروانا – جی ہاں میں نے جان بوجھ کر ”کروانا“ لکھا ہے- مناسب تھا یا نہیں۔کم از کم میرے لئے اہم ترین بات البتہ یہ رہی کہ عمران خان صاحب جیسے قدآور رہ نما پر گولی چلانے والا موقعہ پر گرفتار ہو گیا ہے۔ اسے لیاقت علی خان کے قاتل کی طرح پراسرار انداز میں مار نہیں دیا گیا۔اس کی فوری ہلاکت نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے قتل کو آج تک ناقابل حل معمہ بنا رکھا ہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے اس باغ سے جہاں لیاقت علی خان قتل ہوئے تھے خطاب کے بعد مری روڈ سے گھر لوٹتے ہوئے دہشت گردوں نے 27 دسمبر 2007ء کی سہ پہر شہید کردیا۔ملزم یا ملزمان موقعہ سے فرار ہوگئے۔ بعدازاں اقوام متحدہ اور سکاٹ لینڈ یارڈ جیسے اداروں کی مدد سے ان کے بہیمانہ قتل کی تحقیق ہوئی۔ہمارے قانون ساز ادارے بھی اس ضمن میں اپنے تئیں متحرک رہے۔ پاکستان کی دوبار وزیر اعظم رہی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ذمہ دار تاہم آج بھی لوگوں کے روبرو اس انداز میں نہیں لائے گئے جو تسلی بخش جوابات فراہم کر سکے۔
مذکورہ بالا واقعات کے تناظر میں عمران خان صاحب یقینا خوش نصیب ثابت ہوئے۔ربّ کریم نے انہیں محفوظ رکھا۔ ان پر گولی چلانے والا بھی زندہ سلامت گرفتار ہوگیا۔ملزم کی گرفتاری کے بعد بہتر تو یہی تھا کہ تفتیش کے جدید ترین حربے استعمال کرتے ہوئے کھوج لگایا جائے کہ اس نے یہ فعل ”انفرادی“ حیثیت میں کیا یا وہ مذکورہ حملے کا محض ”چہرہ“ تھا جو گہری سازش کی بدولت سامنے لایا گیا۔
اپنی غصیلی طبیعت کے عین مطابق تحریک انصاف کے قائد مگر انتظار کو آمادہ نہ ہوئے۔ اپنے دست راست اسد عمر کو حکم دیا کہ وہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے علاوہ ایک طاقت ور ترین ریاستی ادارے کے سینئر افسر کو ان پر ہوئے حملے کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ اسد عمر صاحب نے نام لے دئے تو سوال یہ اٹھے کہ ان کی جانب سے نامزد کردہ افراد کے خلاف ایف آئی آر باقاعدہ انداز میں درج ہو پائے گی یا نہیں۔
عمومی حالات میں نامزد کردہ افراد کے خلاف ایف آئی آر بلا تعطل درج ہو جاتی۔ ذوالفقار علی بھٹو 1974ء میں ہمارے وزیر عظم تھے۔ ان کے خلاف پنجاب پولیس ہی نے احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے والی ایف آئی آر درج کی تھی۔اس کی وجہ سے بالآخر اپریل 1979ء میں پھانسی پر بھی لٹکا دئے گئے۔ اس پھانسی کے عواقب اب پولیس کو ایسی ایف آئی آر درج کرنے سے قبل سو بار سوچنے کو مجبور کرتے ہیں جس کا تقاضہ عمران خان صاحب کی جانب سے ہو رہا ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے پیر کے دن آئے ”حکم“ کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں پر ”ٹِکروں“ کا جوسیلاب نمودار ہوا ان کے بارے میں چند لمحات کے لئے مطمئن محسوس کرنے کے بعد پریشان ہوگیا۔ صحافیانہ تجسس نے یہ جاننے کو مجبور کیا کہ سپریم کورٹ نے ”تحریری حکم“ میں کیا لکھا ہے۔ شام ڈھلنے تک اس حکم کا انتظار کرتا رہا۔ تحریری صورت میں تاہم وہ ہمارے سامنے نہیں آیا۔
دریں اثناء پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے عمران خان صاحب کے لاہور کے زمان پارک میں واقعہ آبائی گھر کے پھیرے لگانا شروع کر دئے۔ ان کے مابین کیا گفتگو ہوتی رہی میں اس کی بابت یہ کالم لکھنے تک بھی قطعاََ لاعلم ہوں۔ ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے دو جمع دو سے چار نکالنے کو مجبور ہوا۔ فرض کرلیا کہ چودھری صاحب عمران خان صاحب کو اس امر پر قائل کرنا چاہ رہے ہیں کہ ”فی الحال“ ایف آئی آر پولیس کی مدعیت ہی میں جمع ہو جائے۔ میرا ”ٹیوہ“ رات کے دس بجنے کے بعد درست ثابت ہوتا نظر آیا۔
عمران خان صاحب اور ان کے پرستار یقینا اس ایف آئی آر سے مطمئن نہیں ہوں گے۔ صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنا شروع ہوگیا تھا۔ مجھے خبر نہیں کہ سپریم کورٹ جس انداز میں ایف آئی آر درج ہوئی اس کی بابت کیا رویہ اپنائے گا۔ ممکنہ رویے سے بے خبر ہوتے ہوئے بھی اگرچہ یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ”…. الجھنیں بڑھتی رہیں گی“۔
ایف آئی آر کے علاوہ اہم ترین سوال ڈاکٹر کی لکھی اس رپورٹ کے بارے میں اٹھائے جائیں گے جسے قانونی زبان میں ”میڈیکولیگل“ کہا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ دنیا کا مستند ترین تسلیم ہوا ڈاکٹر بھی اپنے تئیں تیار نہیں کرسکتا۔ہر سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹروں کی ایک ٹیم یہ رپورٹ تیار کرنے کی قانونی اعتبار سے مجاز تصور ہوتی ہے۔عمران خان صاحب مگر زخمی ہونے کے بعد جائے وقوعہ سے سیدھا لاہور کے شوکت خانم ہسپتال چلے گئے۔ان کے زخموں کا جائزہ لینے کے بعد اس ہسپتال کے ڈاکٹروں نے جو طے کیا میں اس کے بارے میں سوال اٹھانے کا ہرگز مجاز یا حقدار نہیں۔قانونی اعتبار سے مگر ان کا جائزہ اور مشاہدہ عمران خان صاحب پر ہوئے حملے کے تفتیشی عمل کے لئے آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے اسے مزید الجھائے گا۔ الجھن سلجھے گی نہیں بلکہ سازشی کہانیوں کا سیلاب جاری رہے گا۔ ہماری سیاسی تفریق کو یہ گہرا تر بنائے گا۔ اس امکان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میرا وسوسوں بھرا دل گزشتہ چند دنوں سے اصرار کئے چلے جا رہا ہے کہ ہمارے معاملات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہورہے ہیں اور یہ ہمارے ”آدھاتیتر-آدھابٹیر“ دِکھتے ”جمہوری ڈھانچے“ کے لئے خیر کی خبر نہیں ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر