مئی 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نسل نو کو پیغام اقبالؒ کی ضرورت۔۔۔||ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ ملتان ، خان پور اور ڈیرہ اسماعیل خان سے نکلنے والے سرائیکی اخبار ڈینہوار جھوک کے چیف ایڈیٹر ہیں، سرائیکی وسیب مسائل اور وسائل سے متعلق انکی تحریریں مختلف اشاعتی اداروں میں بطور خاص شائع کی جاتی ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کا 145واں یوم ولاد ت بدھ کے روزپورے ملک میں عقیدت و احترام سے منایا گیا،۔ن) لیگ کے سابق دور میں یوم اقبال کی چھٹی ختم کی گئی، اب دوبارہ حکومت نے یوم اقبال پر دوبارہ چھٹی بحال کر دی ہے، 9نومبر یوم اقبال کی چھٹی کا نوجوانوں کی طرف سے بہت زیادہ خیر مقدم کیا گیا کہ نوجوانوں پاکستان اور نیوزی لینڈ کا سیمی فائنل میچ دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ حالانکہ اس طرح کے تہوار کی تعلیمی اداروں میں چھٹی اس بناء پر نہیں ہونی چاہئے کہ یہی وہ دن ہے جب نئی نسل کو خصوصاً طلباء و طالبات کو علامہ اقبال کا پیغام دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں ایک طرف سیاسی کشیدگی موجود ہے تو دوسری طرف مہنگائی نے غریبوں کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ دولت کی ہوس نے آدمی سے اس کی انسانیت چھین لی ہے۔ آج ایک بار پھر انسانیت کو اقبال کے پیغام کی ضرورت ہے۔ اقبال نے کہا تھا ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا علامہ اقبال( 9 نومبر 1877ء ۔ 21 اپریل 1938ء ) کا شمار پاکستان کے مشاہیر میں ہوتا ہے،اس لئے ضروری ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی کے وہ گم گشتہ گوشے سامنے لائے جائیں جو گردشِ ایام کی وجہ سے اہل وطن کی نظروں سے اوجھل ہیں ۔ کہنے کو علامہ اقبال پر سینکڑوں کتابیں سامنے آ چکی ہیں اور نصاب میں بھی علامہ اقبال کو پڑھایاجا رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ علامہ اقبال کا سرائیکی وسیب سے بھی اس لحاظ سے ایک تعلق تھا کہ علامہ اقبال کے استاد مرزا ارشد گورگانی کا تعلق ملتان سے تھا۔ علامہ صاحب اپنے استاد کے بے حد قدردان تھے اور ان سے شاعری کی اصلاح لیتے، مرزا ارشد گورگانی کا انتقال 1906ء میں ہوا اور ملتان میں ان کی تدفین ہوئی۔ ملتان کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ علامہ اقبال نے 1935ء میں اپنا اخبار اقبال کے نام سے جاری کیا ، اس کے ایڈیٹر ملتان کے لالہ بالکش بترا تھے ، وہ بتاتے تھے کہ جب میں لاہور جاتا تو علامہ اقبال کے لئے ملتان سے آم لیکر جاتا کہ ان کو ملتانی آم بہت پسند تھے ، اسی طرح اسد ملتانی اور علامہ اقبال اکٹھے مشاعرے پڑھتے رہے ۔ ملک اسلم میتلا اپنی کتاب ملتان نامہ میں لکھتے ہیں کہ 11 جون 1930ء کو نیاز دین کے نام اپنے خط میں علامہ اقبال نے فرمائش کی کہ ملتان سے مجھے کبوتر بھیجے جائیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد جس شخصیت نے اقبالیات پر سب سے زیادہ کام کیا اور درجنوں کتابیں تصنیف کیں ، اس کا نام جگن ناتھ آزاد ہے اور وہ 5 دسمبر 1918ء کو عیسیٰ خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔اپنے وقت کے دو عظیم شعراء خواجہ فرید اور علامہ اقبال کے درمیان ملاقات کا کہیں تذکرہ موجود نہیں لیکن علامہ اقبال کے صاحبزادے ڈاکٹر جاوید اقبال 1990ء کے عشرے میں کوٹ مٹھن تشریف لے گئے اور دربار فرید پر حاضری دی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ آخری عمر میں میرے والد کے سرہانے خواجہ فرید کا دیوان ہوتا اور وہ دیوان پڑھتے اور خواجہ فرید کی کافیاں پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔اگر خواجہ فرید اور علامہ اقبال کی شاعری کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو بہت مماثلت نظر آتی ہے ۔ جیسا کہ خواجہ فرید نے کہا کہ ’’ جو کوئی چاہے فقر فنا کوں ، اپنْے آپ کوں گٖولے ‘‘ ۔ اسی طرح علامہ اقبال نے کہا کہ ’’ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی ، تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن ‘‘،اسی طرح اگر تحقیق کی جائے تو مماثلت کے سینکڑوں حوالے موجود ہیں ۔ علامہ اقبال اور نواب آف بہاول پور کی تعلیمی حوالے سے سوچ مشترک تھی ،دونوں زعماء طلبہ کی اعلیٰ تعلیم کے آرزو مند تھے ، ریاست بہاول پور کی طرف سے جہاں علی گڑھ سمیت دوسرے تعلیمی اداروں کی مالی مدد کی جاتی وہاں علامہ اقبالؒ نواب آف بہاول پور سے لاہور کے علمی ادارے ’’انجمن حمایت اسلام‘‘ کیلئے فنڈز حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے دیگر اداروں کی اعانت کی طرف بھی ان کی توجہ مبذول کراتے رہتے تھے ، چنانچہ سرائیکی ریاست بہاول پور کے فرمانروا سر صادق محمد خان عباسی نے اس وقت جبکہ ریاست میں چار آنے سیر چھوٹا گوشت ملتا تھا، لاہور کے تعلیمی اداروں کو کتنی مقدار میں سالانہ مالی امداد دیتے ؟ اس کا جواب اس تفصیل سے سامنے آتا ہے کہ کنگ ایڈورڈ ایجوکیشن فنڈ ایک لاکھ پچاس ہزار ،اسلامیہ کالج لاہور تیس ہزار ، انجمن حمایت اسلام و انجمن حمایت اسلامیہ ایک لاکھ سات ہزار ‘ ایچی سن کالج و پنجاب یونیورسٹی چودہ ہزار ‘ انجمن ہلال احمر و ایس ایس پی ایسوسی ایشن چودہ ہزار اور پنجاب مینٹل ہسپتال پانچ ہزار سالانہ ملتے تھے۔ سالانہ گرانٹ کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی کا سینٹ بلاک ‘ کنگ ایڈورڈ کالج کا آدھا حصہ (جسے آج بھی بہاول پور حصہ کہا جاتا ہے)‘ ایچی سن کالج لاہور کی شاندار توسیع بھی نواب آف بہاول پور نے کرائی ‘ یہ سب کچھ نواب آف بہاول پور اور علامہ اقبال کی مشترکہ سوچ اور دوستی کا نتیجہ تھا ۔ علامہ اقبال ،نواب آف بہاولپور سر صادق محمد خان عباسی کے بہت قدردان تھے ، ۔ اسی طرح 13 مارچ 1928ء کے میجر شمس الدین کے نام علامہ اقبال نے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ نواب آف بہاولپور کو قانونی مشیر کی ضرورت ہے تو اس کیلئے میں حاضر ہوں ۔ علامہ اقبال کو ریاست بہاولپور سے بہت محبت تھی ، انہوں نے ریاست کی شان میں طویل نظم لکھی تھی۔

 

 

یہ بھی پڑھیے

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: