اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ضیا تسنیم بلگرامی کو پہلے مرد سمجھتا رہا ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیا تسنیم بلگرامی کو پہلے میں مرد سمجھتا تھا۔ بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگی۔ یہ ایک خاتون کا نام ہے۔ ان کے نام سے سسپنس ڈائجسٹ میں تاریخی شخصیات کی سوانح چھپتی تھیں۔ وہ مقبول مصنف الیاس سیتاپوری کی اہلیہ تھیں۔
یہ کئی اردو ڈائجسٹوں کا قاعدہ تھا کہ وہ ایک شمارے میں ایک مصنف کی کئی تحریریں تو چھاپتے تھے لیکن نام صرف ایک پر دیتے تھے۔ دوسری تیسری تحریر پر ان کی پسند کا یا ایڈیٹر کی مرضی کا نام ہوتا تھا۔ اگرچہ میں نے ڈائجسٹوں میں زیادہ نہیں لکھا لیکن ایک دو بار ایسا میرے ساتھ بھی ہوا۔
میں نے میٹرک کے بعد ڈائجسٹوں کو خط لکھنا شروع کیے اور کئی سال تک لکھتا رہا۔ مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتا تھا اس لیے اکثر خط چھپ جاتے تھے۔ جاسوسی ڈائجسٹ میں طویل تبصرے کا خط لکھنے والوں کو ایک سال کے لیے اعزازی شمارے کا انعام ملتا تھا۔ ایک بار وہ انعام میں نے جیتا۔ اس کے بعد ایڈیٹر صاحب نے ڈائجسٹ میں کسی خط کے جواب میں لکھا کہ ہم سے آکر ملیں۔ میں ملنے گیا تو ملازمت کی پیشکش کردی۔
جاسوسی ڈائجسٹ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام چار ڈائجسٹ چھپتے ہیں یعنی سسپنس، جاسوسی، پاکیزہ اور سرگزشت۔ میرا تعلق جاسوسی اور سرگزشت سے رہا۔ طبع زاد کہانیاں چھپیں، ترجمے بھی، تراشے بھی اور میں نے دوسروں کی کہانیوں کے تعارف بھی لکھے، جنھیں انٹرو کہا جاتا ہے۔ لیکن اصل کام پروف پڑھنا تھا۔ وہ تجربہ مستقبل میں بہت کام آیا۔ پروف پڑھنے سے زبان بہتر ہوتی ہے اور خود اچھا لکھنا آجاتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ہنستی مسکراتی گدگداتی کہانیاں لکھنے والے احمد اقبال صاحب کی تحریر پڑھنا سب سے مشکل ہوتا تھا۔ کمپیوٹر کمپوزنگ کرنے والے اظہر بھائی ہی وہ مشکل ہینڈرائٹنگ پڑھ سکتے تھے۔ چنانچہ وہی ان کی کہانیوں کی کمپوزنگ کرتے۔ نہایت دکھ کی بات ہے کہ اظہر بھائی جوانی میں انتقال کرگئے تھے۔
اسکول کے بعد تیس پینتیس سال میں ایسا فقط دو بار ہوا کہ میں نے کسی لفظ کا املا غلط لکھا اور تصحیح پر معلوم ہوا کہ زندگی بھر غلط ہی پڑھتا رہا تھا۔ جاسوسی میں ایک کاتب کام کرتے تھے جو ٹریسنگ پیپر پر پرنٹ نکلنے کے بعد سامنے آجانے والی غلطیوں کو درست کرتے تھے۔ ایک بار انھوں نے لفظ پکڑا، انٹاغیل۔ مجھ سے پوچھا کہ یہ آپ کی کارستانی ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک تو لکھا ہے۔ وہ ہنس کر بولے، انٹاغفیل ہوتا ہے۔ میں نے بے یقینی میں لغت کھول کے دیکھی اور اپنی غلطی تسلیم کی۔
دوسری غلطی جیو میں ہوئی جب ایک وائس اوور کرتے ہوئے لفظ پڑھا، مماثلث۔ ایگزیکٹو پروڈیوسر نصرت امین کہیں قریب بیٹھے خرم کلیم سے باتیں کرتے کررہے تھے۔ وہ چونکے اور میری تصحیح کی، مماثلت۔ میں نے فورا درست پڑھا کیونکہ نصرت بھائی غلط نہیں ہوسکتے تھے۔ بعد میں لغت نے بھی ان کی تصدیق کی۔
ہماری آنکھیں ہمیں دھوکا دیتی ہیں۔ ہم کچھ لفظ ہمیشہ غلط پڑھتے ہیں لیکن ان کی شبیہہ دماغ میں درست بنتی ہے اس لیے احساس نہیں ہوتا۔ صرف لکھنے والوں کو اپنی غلطیاں درست کرنے کا موقع ملتا ہے۔
بات کہاں سے شروع ہوئی تھی، میں نے کہاں پہنچادی۔ میں بتارہا تھا کہ ضیا تسنیم بلگرامی خود کچھ نہیں لکھتی تھیں۔ ان کے شوہر الیاس سیتاپوری ان کے نام سے لکھتے تھے۔ جاسوسی میں نجمہ مودی کے نام سے بھی کہانیاں چھپتی تھیں۔ وہ ترجمے محمود احمد مودی کرتے تھے۔
میں جاسوسی میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ ایک دن ایک صاحب نے تعارف کرایا کہ وہ کامل ظہیر ہیں۔ میں نے پرجوش انداز میں ان سے ہاتھ ملاکر کہا کہ آپ کی کہانیاں شوق سے پڑھتا ہوں۔ وہ جھینپ کر چلے گئے۔ کسی نے بتایا کہ کامل ہمارے سرکولیشن افسر ہیں۔ انھیں کہانیاں لکھنا نہیں آتیں۔
ایک دن پروف پڑھتے ہوئے مجھے کوئی کہانی اچھی لگی۔ میں نے دریافت کیا، یہ پاکیزہ خان کون ہیں؟ معلوم ہوا کہ کوئی نہیں۔ کسی مترجم کی ایک سے زیادہ کہانیاں ہوجائیں تو یہ نام لکھ دیتے ہیں۔ پاکیزہ ڈائجسٹ کی نسبت سے یہ قلمی نام رکھا گیا ہوگا۔
مجھے الیاس سیتاپوری کی تاریخی کہانیاں بہت پسند تھیں۔ ان کی تحریر میں وہ روانی تھی جو بیشتر تاریخ دانوں کے قلم میں نہیں ہوتی۔ ان کے نام سے تحریریں سسپنس کے ابتدائی صفحات پر چھپتی تھیں۔ ضیا تسنیم بلگرامی کے نام سے تاریخی شخصیات کی سوانح آخر کے صفحات پر ہوتی تھیں۔ ایک سلسلہ انبیا کا چلا۔ ایک جھوٹے نبیوں کا۔ عظمت کے مینار کے عنوان سے بزرگان دین کا بھی۔ مضمون کے آخر میں حوالے درج ہوتے تھے۔
سسپنس، جاسوسی، پاکیزہ اور سرگزشت ڈائجسٹوں کے مالک معراج رسول تھے لیکن ان اداروں کا کمپوزنگ ڈپارٹمنٹ ان کے بھائی اعجاز رسول کا تھا۔ وہ ان ڈائجسٹوں کی کہانیوں کو بعد میں کتابی صورت میں چھاپ دیتے تھے۔ اس اشاعتی ادارے کا نام کتابیات پبلی کیشنز تھا۔ بعد میں مصنفوں نے بہتر معاوضے پر اپنی کہانیوں اور ناولوں کو دوسرے پبلشروں کو دینا شروع کردیا۔ کتابیات کی چھپی ہوئی کافی کتابیں میرے پاس ہیں۔ ان میں محی الدین نواب اور احمد اقبال کی کہانیاں بھی ہیں۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں ضیا تسنیم بلگرامی کے نام سے چھپنے والی چار کتابیں ڈال دی ہیں اور لنک کتب خانے والے گروپ میں شئیر کردیا ہے۔ ان میں سوانح انبیا کے دونوں حصے اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کے دونوں حصے شامل ہیں۔ نبوت کے دعویداروں سے متعلق مزید بارہ پندہ کتابیں میرے پاس ہیں جو کسی اور موقع پر پیش کروں گا۔ یہ میری دلچسپی کا موضوع ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: