اپریل 28, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

الطاف حسین پورا سچ بولیں ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم 1985 میں خانیوال سے کراچی شفٹ ہوئے تھے۔ اکتیس مارچ کو ٹرین میں بیٹھے اور یکم اپریل کو کینٹ اسٹیشن پر اترے۔ دو ہفتے بعد بشریٰ زیدی کا واقعہ پیش آیا تھا۔
اس کے بعد میں نے ایم کیو ایم کا قیام، کراچی میں لسانی فساد، ہڑتال، ہنگامے اور کرفیو دیکھا۔ طلبہ تنظیموں کے تصادم دیکھے۔ نوجوانوں کو مرتے دیکھا۔ جناح اور پریمئیر کالج اور کراچی یونیورسٹی کے رنگ بھی دیکھے۔
صحافت میں آنے کے بعد اور جنوری 2018 میں امریکا آنے تک ٹارگٹ کلنگ، گینگ وار، دھماکے، دھمکیاں اور الطاف حسین کے خطابات سب کی خبریں نیوزروم میں وصول کیں، ایڈٹ کیں اور نشر کیں۔
کبھی جی چاہتا ہے کہ جو دیکھا اور سنا، اسے لکھوں۔ لیکن پھر رک جاتا ہوں۔ ایک عام شہری یا بے خبر صحافی کو ایک فیصد سچ بھی معلوم نہیں۔ پس منظر میں بہت کچھ ہوتا تھا۔ جن لوگوں کو علم ہے، وہ کچھ نہیں بولتے۔ نجی محفلوں میں سرگوشیاں ہوتی ہیں تو باہر نہیں آتیں۔
میری خواہش ہے کہ کبھی الطاف حسین بولیں۔ پورا سچ بولیں۔ ہم سب نے ایک دن رخصت ہونا ہے۔ وہ رخصت ہونے سے پہلے سب بتادیں۔ صرف وہ اپنا مکمل سچ بتادیں تو پاکستان کے پچھتر سال کی بالکل درست تاریخ آئینے کی طرح ہمارے سامنے آجائے گی۔ اس آئینے میں دوسرے بھی اپنا عکس دیکھ سکیں گے۔
الطاف حسین پر پابندی کے بعد پہلا انٹرویو شاید میں نے ہی کیا۔ وائس آف امریکا کے لیے پون گھنٹا بات کی ہوگی۔ لیکن سروس چیف منشی صاحب نے مختصر تحریر اور چھوٹا سا آڈیو کلپ چلانے کی اجازت دی۔ وہ انٹرویو میرے پاس محفوظ ہے۔
میں نے الطاف بھائی سے پوچھا تھا کہ پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگانے کے بعد آپ نے فوج سے یا فوج نے آپ سے رابطہ نہیں کیا؟ معاملات درست کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوا؟ الطاف بھائی نے کہا کہ فوج کے لوگ آکر ان سے ملتے رہے۔ انھوں نے سب وعدے پورے کیے لیکن فوج نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔
الطاف حسین بار بار کہتے رہے ہیں اور میرا بھی یہی خیال ہے کہ کراچی کے حالات ایجنسیاں خراب کرتی تھیں۔ الزام الطاف حسین پر ڈال دیا جاتا تھا۔ الطاف حسین کی موجودگی میں ایم کیو ایم کے اندر ایجنسیوں کے لوگ بیٹھے تھے۔ الطاف حسین کو سب کا علم تھا۔ وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے، دوسروں کے سامنے توہین کرتے تھے لیکن پارٹی سے نہیں نکال سکتے تھے۔
کراچی کے کسی بھی باخبر صحافی سے پوچھ لیں، فاروق ستار ایجنسیوں کا مہرہ تھے۔
الطاف حسین پر پابندی کے بعد فاروق ستار ہی کامران ٹیسوری کو آگے بڑھا رہے تھے۔ سمجھ جائیں کہ کس کے کہنے پر ایسا کررہے تھے۔ میں نے خالد مقبول صدیقی کا ایک ٹی وی انٹرویو سنا تھا۔ اس سے لگا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے دوسرے رہنماؤں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ چنانچہ بغاوت ہوگئی۔ ٹیسوری ہی نہیں، فاروق ستار بھی فارغ ہوگئے۔ بعد میں ایجنسیوں نے نئے قائدین سے معاملات کرنا شروع کردیے ہوں گے۔
اچانک ٹیسوری ایم کیو ایم میں واپس آگئے۔ انھیں قبول کرلیا گیا۔ اب گورنر بنایا جارہا ہے۔ عشرت العباد کی طرح نام ایم کیو ایم کا ہوگا۔ لگام ایجنسیوں کے ہاتھ میں رہے گی۔
نواز شریف، آصف زرداری اور الطاف حسین فرشتے نہیں، سیاست دان ہیں۔ ان سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن ان پر جتنے الزامات لگائے گئے اور جتنی کردار کشی کی گئی، وہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوئی۔
پاکستان کے حالات شاید تمام سیاست دان مل کر بھی نہیں بدل سکتے۔ لیکن عوام کو سچ جاننے کا حق ہے۔ سیاسی قائدین کم از کم اتنا تو کرسکتے ہیں کہ مرنے سے پہلے پورا سچ بتادیں۔ کتاب نہیں لکھ سکتے تو ویڈیو ریکارڈ کروادیں۔ اپنی غلطیاں مان لیں اور غیر سیاسی کرداروں کے نام فاش کردیں۔ اپنے بچوں کے سیاسی مستقبل کی خاطر عوام کے مستقبل کو فراموش نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: