مئی 1, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مغربی زبانوں میں رسول اللہ کی زندگی پر مبنی کتابیں ۔۔۔||مبشرعلی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیغمبر اسلام کے بارے میں صدیوں تک یورپ میں غلط فہمیاں پھیلی رہیں۔ مخالفت اور تنقید کرنا الگ بات ہے لیکن یورپ کے عوام و خواص کو اسلام اور رسول اللہ کے بارے میں درست معلومات نہیں تھی۔ ان کی افواہوں کے کارخانے ان جنگوں کے ساتھ چلتے رہے جو مسلمانوں کے ساتھ ہوئیں۔
آج مغربی دانشور تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کی جنگوں کے خاتمے کے بعد یورپیوں نے پہلی بار پیغمبر اسلام کو غیر متعصبانہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی۔ 17ویں اور 18ویں صدی میں رائج نظریات سے مختلف نقطہ نظر پیش کیا گیا لیکن اسے پذیرائی نہیں ملی۔ 19ویں صدی میں مغربی زبانوں میں رسول اللہ کی زندگی پر مبنی کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں امریکی دانشور جارج بش کی دی لائف آف محمد شامل ہے جو 1831 میں چھپی۔ یہ امریکا میں سیرت کی پہلی کتاب تھی۔ یہ جارج بش بعد میں امریکا کے صدر بننے والے جارج بش سینئر اور جارج ڈبلیو بش کے دور کے رشتے دار تھے۔
بش کے چار سال بعد جرمن مستشرق گسٹاف ویل نے رسول اللہ کی زندگی پر کتاب لکھی۔ انھوں نے اس کتاب کے بعد بھی رسول کی زندگی اور اسلام پر کئی مضامین تحریر کیے۔ ان کی ایک کتاب تالمود، انجیل اور قرآن کی روایات کے تقابل پر ہے۔ انھوں نے الف لیلہ کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی کیا۔
گسٹاف ویل کے بعد دو اور جرمن دانشوروں نے سیرت کی جانب توجہ کی۔ ان میں سے ایک تھیوڈور نولڈویکے تھے جنھوں نے 1863 میں رسول پاک کی سوانح تحریر کی۔ انھوں نے عربی اور فارسی سمیت سامی زبانوں پر کافی کام کیا اور قرآن اور اسلام کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے لیے مضامین لکھے۔ ان کی ایک کتاب کا عنوان دا ہسٹری آف قرآن ہے جس کا انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہے۔
دوسرے جرمن بلکہ آسٹرین دانشور الوئیس اسپرنگر کے بارے میں پہلے بھی میں لکھ چکا ہوں۔ یہ وہی صاحب ہیں جو ہندوستان میں طویل عرصہ رہے اور قیمتی کتابیں جمع کرتے رہے۔ پھر انھیں اپنے ساتھ برلن لے گئے۔ کربل کتھا کا واحد نایاب نسخہ انھیں کے کتب خانے سے ملا تھا۔ رسول کی زندگی پر ان کی کتاب 1851 میں چھپی۔ بعد میں اضافے کے ساتھ اسے تین جلدوں میں 1861 سے 1865 تک شائع کیا گیا۔
انیسویں صدی میں رسول کی زندگی پر شائع ہوئی ایک اور کتاب ہندوستان میں بہت مشہور ہوئی۔ وہ انگریز مصنف ولیم میور نے لکھی تھی اور انھوں نے پیغمبر اسلام کی زندگی کا ناقدانہ بلکہ متعصبانہ جائزہ لیا تھا۔ یہ وہی کتاب تھی جس کا سرسید نے نوٹس لیا، اس کا جواب لکھا، چندہ جمع کرکے اور اپنی پونجی خرچ کرکے انگریزی میں ترجمہ کروایا، پھر لندن میں چھپوایا۔ ولیم میور کی کتاب چار جلدوں میں 1858 سے 1861 تک شائع ہوئی تھی۔ سرسید کی کتاب 1870 میں چھپی۔ اس کا ترجمہ خطبات احمدیہ کے نام سے 1887 میں ہوا لیکن میرے پاس 1900 کا ایڈیشن ہے جو سرسید کے انتقال کے بعد شائع ہوا تھا۔
ولیم میور کی کتاب کے بعد ہندوستانی دانشور سید امیر علی نے رسول اللہ کی زندگی، اسلامی عقائد اور مسلمانوں کی تاریخ پر کئی کتابیں لکھیں۔ ان میں سیرت کی پہلی کتاب 1873 میں شائع ہوئی اور اسے برطانیہ میں بہت سراہا گیا۔ اس کا ترجمہ سید ابوالحسن نے کیا جو 1885 میں لکھنئو سے شائع ہوا۔
میں نے گوگل ڈرائیو کے ایک فولڈر میں وہ تمام کتابیں جمع کردی ہیں، جن کا اوپر ذکر کیا۔ مجھے یقین نہیں کہ اس گروپ کے پندرہ ہزار ارکان میں سے کوئی انھیں پڑھے گا۔ لیکن لائبریری اس لیے نہیں بنائی جاتی اور کتاب اس لیے نہیں سنبھالی جاتی کہ کوئی آج ہی پڑھے گا۔ کتابیں اس لیے سنبھالی جاتی ہیں کہ تاریخ محفوظ کرلی جائے۔

یہ بھی پڑھیں:

مبشرعلی زیدی کے مزید کالم پڑھیں

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریرمیں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

%d bloggers like this: