اظہرعباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(حصہ اول)
آبادی کے چالیس سال سے کم عمر کے حصے کے لیے امریکا اور یورپ میں ’ملینیلز‘ (Millennials) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے یعنی ایسے افراد جو 1980ء، 90ء یا موجودہ صدی کے ابتدائی سالوں میں پیدا ہوئے۔
1980 کی دہائی کے اوائل سے 1990 کی دہائی کے وسط تک شرح پیدائش میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور
ترقی یافتہ ممالک میں چھوٹے خاندانوں کی طرف رجحان بڑھا۔ ماہر نفسیات جین ٹوینگے نے اپنی 2006 کی کتاب جنریشن می: کیوں آج کے نوجوان امریکی زیادہ پراعتماد، جارحانہ، حقدار – اور پہلے سے کہیں زیادہ دکھی ہیں میں اس جنریشن کو "جنریشن می” کے طور پر متعارف کرایا، جبکہ 2013 میں ٹائم میگزین نے کور سٹوری کا عنوان رکھا:
Millennials – The Me Me Me Generation
اس ایج گروپ کو مختلف نام دئے جاتے ہیں جن میں نیٹ جنریشن، جنریشن 9/11، جنریشن نیکسٹ، اور دی برن آؤٹ جنریشن شامل ہیں۔
یہ نسل موبائل فون اور گوگل کو اپنی معلومات کا مرکز سمجھتی ہے۔
مائیکروسافٹ کے 2015 کے مطالعے کےمطابق 18 سے 24 سال کی عمر کے 77 فیصد جواب دہندگان نے اس بیان کے لیے ہاں میں کہا، "جب کوئی چیز میری سمجھ میں نہیں آ رہی، تو میں سب سے پہلے اپنے فون تک پہنچنا ہوں”، جبکہ 65 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے یہ شرح صرف 10 فیصد تھی۔
تاریخ سے بے خبری اور لاتعلقی کا یہ عالم کہ فروری 2018 کے 1,350 افراد پر کیے گئے سروے سے پتا چلا ہے کہ سروے کیے گئے 66% امریکی میلینیلز (اور تمام امریکی بالغوں میں سے 41%) یہ نہیں جانتے تھے کہ ہولوکاسٹ کیا اور کیسے ہوئی، 22% نے کہا کہ انہوں نے ہولوکاسٹ کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ 95% سے زیادہ امریکی میلینیلز اس بات سے بے خبر تھے کہ ہولوکاسٹ کا ایک حصہ بالٹک ریاستوں میں ہوا، جس نے اپنی 90% سے زیادہ جنگ عظیم سے پہلے کی یہودی آبادی کو کھو دیا، اور 49% جرمن زبان میں کسی ایک نازی حراستی کیمپ یا یہودی بستی کا نام لینے کے قابل بھی نہیں تھے۔ تاہم، سروے میں کم از کم 93% کا خیال تھا کہ اسکول میں ہولوکاسٹ کے بارے میں پڑھانا ضروری ہے اور 96% کا خیال تھا کہ ہولوکاسٹ ہوا تھا۔
یو گورنمنٹ ("YouGov”) سروے سے پتا چلا کہ 42% امریکی میلینیلز نے ماو زے تنگ کے بارے میں کبھی نہیں سنا، جس نے 1949 سے 1976 تک چین پر حکومت کی۔ مزید 40% چی گویرا سے ناواقف نکلے
مصنفین Reynol Junco اور Jeanna Mastrodicasa نے William Strauss اور Neil Howe کے کام کو آگے بڑھایا تاکہ میلینیلز کی شخصیت کے پروفائلز کے بارے میں تحقیق پر مبنی معلومات کو شامل کیا جا سکے۔ انہوں نے کالج کے طلباء کا ایک بڑے نمونہ (7,705) تحقیقی مطالعہ کیا۔ انہوں نے پایا کہ نیٹ جنریشن کالج کے طلباء، جو 1982 کے بعد پیدا ہوئے، زیادہ شرح پر ٹیکنالوجی کے استعمال کے عادی تھے۔ اپنے سروے میں، انہوں نے پایا کہ ان طلباء میں سے 97% کے پاس کمپیوٹر، 94% کے پاس موبائل فون اور 56% کے پاس MP3 پلیئر تھا۔
آئیے ڈیٹا سے نکلیں اور آپ کو جنریشن نیکسٹ کے بارے میں ماہرین سماجیات اور نفسیات کی متفقہ رائے بتائیں۔
ماہرین نفسیات و سماجیات اس نسل کی جو خصوصیات بیان کرتے ہیں اس میں نرگسیت، سطحی پن، اختلاف رائے پسند نہ کرنا، خود کو ہمیشہ درست سمجھنا اور غمگساری اور احساس کی کمی نمایاں ہیں۔ وجہ اس کی وہ یہ بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر کے استعمال سے ملینیلز کو دماغی ریاضت اس طرح نہیں کرنا پڑی جس طرح ان سے پہلے والی نسلوں کو کرنا پڑتی تھی اور پھر سوشل میڈیا کے ذرائع مثلاً فیس بک، ٹویٹر اور انسٹا گرام نے ’منی سلیبرٹی کلچر‘ کو جنم دیا ہے جہاں لوگوں کو یہ خبط رہتا ہے کہ ان کے سٹیٹس اپ ڈیٹ کو کتنے لائیکس ملے ہیں اور یہ جاننے کے لیے وہ بار بار اپنے فون یا ٹیبلٹ کی سکرین کو دیکھ رہے ہوتے ہیں
اسی طرح اپنی مصروفیات بارے تصویری ’خبرنامہ‘ لمحہ بہ لمحہ نشر کرنا بھی ایک ضروری عمل ہے۔ ہر وقت سوشل میڈیا پر جمے رہنے کی وجہ سے یہ عمومی طور پر اپنے ہم عمر افراد کے ساتھ ہی مصروف تفاعل ہوتے ہیں اور وہ بھی بالمشافہ نہیں بلکہ (بذریعہ) وائی فائی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دانش کے حصول کے لیے بڑے بوڑھوں کے ساتھ میل جول اور پرانی چیزوں بارے علم ضروری ہے لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ٹین ایجر ٹین ایجر سے ہی اکتساب حاصل کر رہے ہیں جس کی وجہ سے خیالات کی پختگی انحطاط کا شکار ہے۔ اور اس طرح وہ ایکو چیمبرز کا شکار ہو رہے ہیں
امریکا کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایک جائزے کے مطابق 20 سے 30 سال کی عمر کے افراد میں نرگسیت اور اس سے جڑے ذہنی مسائل کا شکار ہونے کا امکان 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک اور امریکی ادارے نیشنل سٹڈی آف یوتھ اینڈ ریلیجن کے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد ملینیلز کا خیال ہے کہ جو وہ ’محسوس‘ کرتے ہیں وہی حقیقت ہے۔
ملینیلز کو ان کی نازک مزاجی اور شدید جذبہ حقداری کی وجہ سے طنزاً ’جنریشن سنو فلیک‘ یعنی برف کے گالے کی طرح نازک نسل بھی کہا جاتا ہے۔
جن سیاسی و سماجی مقاصد کو یہ عزیز جانتے ہیں سوشل میڈیا پر اس کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے۔ اختلاف کرنے والے پر یہ جتھوں کی شکل میں ٹویٹر اور فیس بک پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ لیکن اکثریت صرف ’کی بورڈ جنگجو‘ ہے۔
لیکن ملینیلز میں صرف برائیاں ہی نہیں ہیں۔ امریکا اور یورپ کی یہ جنریشن رنگ، نسل اور جنس کی بنیاد پر تفریق کے خلاف مضبوط آواز ہے اور سماجی انصاف کی علمبردار بھی۔
2008ء کے مالی بحران کے بعد وال سٹریٹ کے باہر احتجاجاً ڈیرہ ڈالنے والوں کی اکثریت ملینیلز پر مشتمل تھی۔ یہی جنریشن امریکا میں سوشلسٹ برنی سینڈرز کی حمایتی تھی اور برطانیہ میں جیریمی کوربن کی۔ ان کے اسی رحجان کی وجہ سے امریکی اور برطانوی اسٹیبلشمنٹ ان سے خطرہ محسوس کرتی ہیں۔
گلوبلائزیشن اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ نے کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کےعوام میں ترقی یافتہ مغربی سماج بارے آگاہی میں تیزی سے اضافہ کیا ہے جس سے وہاں کے ملینیلز میں اپنے معروضی حالات کا احاطہ اور مغربی معاشروں کے سیاسی و جمہوری کلچر کو سمجھے بغیر ایک ہی جست میں امریکا اور برطانیہ بننے کی تڑپ نے جنم لیا ہے۔ آج کا پاکستان اس رویے کی ایک بڑی مثال ہے۔
پاکستانی ملینیلز پہلی دفعہ کسی احتجاجی مہم کا حصہ اس وقت بنے جب جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چل رہی تھی۔ ان کے لیے ملک کی سیاسی تاریخ کاآغاز بھی چیف جسٹس بحالی تحریک سے ہوتا ہے۔ اس سے پہلے سیاسی جماعتوں اور عوام نے فوجی آمریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے جو قربانیاں دیں ہمارے ملینیلز اس بارے میں نا ہونے کے برابر علم رکھتے ہیں۔
چیف جسٹس بحالی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں ایک ایسا سیاسی ہجوم سامنے آیا جس میں اکثریت ایسے شہری طبقوں کی تھی جو پہلے سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے، اور ان میں نمایاں تعداد ملینیلز کی تھی جو اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ تھے۔
ملینیلز میں جو ذرا بڑے ہیں انہوں نے جب آنکھ کھولی تو بے نظیر اور نواز شریف کو ایک دوسرے خلاف لڑتے دیکھا اور جو کم عمر ہیں انہوں نے مشرف دور میں بنکوں کے پھیلاؤ اور اس کے نتیجے میں کنزیومر فنانسنگ سے ہونے والی مصنوعی معاشی ترقی کی جھلک دیکھی اور پھر جسٹس بحالی تحریک کی کامیابی۔ اس طرح یہ نسل پرانے سیاستدانوں سے خائف اور جھٹ پٹ ترقی کی خواہاں کے طور پر سامنے آئی۔
مغربی ملینیلز کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں طاقت بڑے مالی اداروں، بنکوں اور کارپوریشنز کے پاس ہے اور وہ ان کی بے رحمانہ منافع خوری سے نالاں ہیں، اس لیے وہ سوشلسٹ نظریات کا پرچار کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں جو ناجائز منافع خوری کو لگام دینے اور عوام خدمت کے اداروں کو قومیانےکی بات کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ یا مستقل حکمران فوج کا ادارہ ہے جسے اپنے عزائم میں عدلیہ اور بیوروکریسی کا ہمیشہ تعاون حاصل رہا ہے۔ آپ سوال اٹھائیں تو اگلے ہی لمحے غدار اور دشمن کے ایجنٹ قرار دے دیے جائیں گے۔ دوسرا ہمارے ہاں اسٹیبلشمنٹ کے پاس سیاستدانوں کی شکل میں نشانہ بازی کے لیےایسے اہداف موجود ہیں جن کی طرف عوامی غیض و غضب کا رخ میڈیا منجمنٹ کےذریعے بڑی آسانی سے کر دیا جاتا ہے۔
چیف جسٹس بحالی تحریک کا سٹیرنگ وہیل جس کے ہاتھ میں تھا اس نے ملینیلز سمیت سیاسی کارکنوں کی نئی کھیپ کو 2011ء میں کرکٹر عمران خان کے پیچھے کھڑا کردیا۔
عمران خان جو دس بارہ سال سے سیاسی قسمت آزمائی میں لگے ہوئے تھے وہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ترین سیاستدان بن گئے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے کمال ہوشیاری سے ملینیلز کو اپنے مہرے عمران خان کی مدد سے اسٹیبلیشمنٹ نواز بنایا۔ سوشل میڈیا پر اسٹیبلشمنٹ کا دفاع عمران خان کے حامیوں کی رضا کارانہ ذمہ داری تھی۔
پاکستانی ملینیلز اپنے مغربی ہم عصروں کی طرح جنریشن سنوفلیک تو ہیں جس میں نرگسیت، جذبہ حقداری کی شدت، اختلاف رائے برداشت نہ کرنا، اپنے اپنے سوشل میڈیا بلبلوں(سوشل میڈیا ببلز) میں مشہور ہونے کا جنون اور جذباتی طور پر نازک ہونا جیسے مشترک خواص پائے جاتے ہیں، لیکن ان کے دماغ مخصوص بیانئے کا تالہ لگا کر بند کردیے گئے ہیں۔ مغربی ترقی پسند ملینیلز کے مقابلے میں ہمارے ملینیلز کو رجعت پسندی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ لیکن یہیں انہیں یہاں تک پہنچانے والے پلان بی بنانا بھول گئے۔ انہیں عمران خان کے حوالے کرنے والوں سے چوک یہ ہوئی کہ اگر عمران خان ان کے مدمقابل ہوں تو اس صورتحال کو کس رخ موڑنا ہے اور اس پوری بریڈ کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے سے کیسے روکنا ہے۔ نتیجتا آج اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھڑے ہونے والے سیاستدانوں کو گالیاں دلواتے دلواتے اب خود گالیاں کھا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر